جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا کے مصداق افغانستان سے اب امریکی افواج کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ افواج کی واپسی کا عمل تیزی سے جاری ہے، ایک رپورٹ کے مطابق نصف سے زائد انخلاء ہو چکا، اس رفتار کے حساب سے بقیہ انخلاء چند ہفتوں کے اندر اندر متوقع ہے۔ جوں جوں انخلاء جاری ہے، افغانستان کی زمینی صورت حال میں بھی ڈرامائی تبدیلی آ رہی ہے۔
ایک جانب طالبان مسلسل اپنی پیش قدمی کا دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہیں، دوسری جانب افغان فوج کی مسلسل پسپائی اور عوام میں بڑھتے ہوئے خوف سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ افغان طالبان نے چند روز قبل تاجک بارڈر کے شہر شیر خان بندر پر قبضہ کرکے ایک اہم سرحدی پوائنٹ پر اپنی موجودگی سے ایک غیر متوقع اسٹرٹیجک برتری حاصل کر لی۔ اس کے بعد انھوں قندوز شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔ ماضی میں بھی طالبان دوبار اس شہر کا کنٹرول سنبھال چکے مگر دونوں بار یہ قبضہ مختصر مدت تک قائم رہ سکا۔ شہر کے مکین پچھلے واقعات اور موجودہ حالات کے پسِ منظر میں خوفزدہ ہیں۔
دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن سے افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات سے قبل امریکی انتظامیہ نے فیصلہ کی ہے کہ ان کے سابقہ مترجمین کو امریکی ویزہ اپلائی کرنے اور سہولت دینے کے لیے اگر افغانستان سے کسی اور مقام پر منتقل بھی کرنا پڑا تو اس کا بندوبست کیا جائے گا۔ امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کے لیے کام کرنے والے مترجمین کو بدلتی صورتحال میں اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگی کے لیے شدید خطرات کا اندیشہ ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پالیسی بیان میں دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ انخلاء کے بعد امریکا کو ملک میں اڈے نہیں دیے جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد اگر افغانستان میں وسیع البنیاد سیاسی حکومت نہ بنائی جا سکی تو ملک میں سول وار کا خدشہ ہے۔ افغانستان کی تاریخ میں بہت سے تلخ یادیں اور واقعات اس امر کے گواہ ہیں کہ یہ خدشہ اتنا بے بنیاد نہیں ہے۔
افغانستان میں اسّی کے وسط میں جب روس کی افواج نے واپسی کی راہ لینے کی ٹھانی تو اس وقت بھی یہ اندیشہ سامنے آیا تھا کہ متبادل وسیع البنیاد سیاسی حکومت کی تشکیل کے بغیر حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ سابق فارن سیکریٹری ریاض محمد خان نے اپنی کتاب Afganistan and Pakistan; Conflict، Extermism and Resistance to Modernity میں ان دنوں کی سفارتی سرگرمیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ پاکستان نے روس سے اپنے انخلاء کو کچھ دیر تک ملتوی کرنے کا بھی کہا تاکہ اس دوران متبادل سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکے مگر روس ہزیمت کے بعد اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق انخلاء پر مصر رہا اور واپسی کی راہ لے لی۔
روس کی افغانستان سے واپسی یقیناً ایک بہت بڑی سیاسی اور عسکری کامیابی بھی تھی، اس کامیابی میں مجاہدین اور فرنٹ لائن پر مسلسل سالہاسال سے مزاحمت کرنے والے گروہوں کا کلیدی عمل دخل تھا۔ پاکستان، امریکا اور دیگر کئی ہمدرد ممالک کا دامے درمے سخنے رول کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس امر سے بھی انکا ر نہیں کہ افغان مجاہدین اور بر سرِپیکار جنگی گروہوں میں ایک دوسرے سے شدید مخاصمت اور عدم برداشت بھی واضح تھی۔ قبائلی دشمنیاں، علاقائی تسلط کا جنون اور عدم برداشت نے بھی اپنا رنگ بار بار دکھایا۔
اس کے بعد جو ہوا وہ افغان تاریخ کا حصہ ہے۔ پاکستان میں اس وقت کے صدر ضیاء الحق جو افغان جنگ کے معمار بھی تھے، ان کے اور اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے درمیان افغان امن معاہدے پر جلد بازی میں دستخط کرنے پر شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ روسی انخلاء کے بعد مجاہدین اور دیگر جنگی گروہ آپس میں دست و گریبان ہوئے، کشت وخون کا سلسلہ کئی سال جا ری رہا، کابل اور دیگر شہر اس خونیں تصادم اور تخت کی جنگ سے شدید متاثر ہوئے۔ افغانستان سے پناہ گزینوں کا سلسلہ مزید تیز ہو گیا۔ ملک مکمل طور پر کئی سال انتشار اور ابتری کی بھینٹ چڑھا رہا۔
اس خوفناک صورتحال نے طول کھینچا تو دوست ممالک نے صلح کی کوشش کرتے ہوئے سعودی عرب میں تمام متحارب گروہوں کو مذاکرات پر اکٹھا کیا۔ کافی لے دے اور کہنے سننے کے بعد ایک امن معاہدہ بھی طے پایا۔ معاہدوں اور وعدوں سے مکر جانے کے تلخ واقعات کے پیشِ نظر اس امن معاہدے پر حرم شریف میں بیٹھ کر دستخط کیے گئے تاکہ تمام فریق معاہدے کے پابند رہیں۔ مگر جو اس کے بعد ہوا وہ توقعات کے برعکس ہوا۔ اس انتشار اور جنگی ماحول میں مسلسل پائے جانے والے خلاء میں طالبان کا ظہور ہوا۔ عوام اور متحارب گروہ اس قدر تھک چکے تھے اور بے حال ہو چکے تھے کہ افغان طالبان نے بہت کم مدت میں افغانستان کے بیشتر علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا اور بالآخر اپنی حکومت قائم کر لی۔
اسی دوران القائدہ نے دنیا کے کئی ممالک میں امریکا کے خلاف اپنی کارروائیاں کیں۔ القائدہ کی قیادت افغانستان منتقل ہو گئی اور اس کے بعد امریکا مخالف کارروائیوں میں شدت اور وسعت دیکھی گئی۔ نائین الیون کے واقعے نے صورت حال کو یکسر بدل دیا۔ اس واقعے کے بعد افغانستان پر امریکی حملوں اور اتحادی افواج نے قدم جمالیے۔ امن ایک بار پھر غائب ہو گیا۔ مزاحمت اور جنگی کارروائیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ امریکا اور اس کے اتحادی اسلحے کی برتری کے باوجود افغانستان پر مکمل غلبہ پا سکے نہ امن واپس لا سکے۔ ملک اور معاشرہ مزید تقسیم اور زخمی ہوا۔
افغانستان ایک بار پھر اہم موڑ پر ہے۔ افغان حکومت کا امتحان ہے کہ کیا وہ اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی؟ اگر ہاں، تو کیا طالبان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن قائم ہو سکے گی؟ افغان طالبان کا امتحان ہے کہ وہ پورے علاقے پر تسلط کے لیے جنگ جاری رکھیں گے یا بقائے باہمی کے لیے مخالفین کو بھی سیاسی سپیس Space دے سکیں گے؟ اگر نہیں، تو خدا نخواستہ 80 اور 90 کی دِہائی کا ایکشن ری پلے ہونے کا اندیشہ منڈلاتا رہے گا۔