نئے سال کے موقعے پر بیشتر لوگوں کو یہ جاننے کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ نیا سال کیسا ہوگا؟ مستقبل شناسی کے ماہرین کی چاندی ہو جاتی ہے۔ انجانے کو جاننے کی خواہش کی تکمیل میں پرنٹ اور دیگر میڈیا میں پیشین گوئیوں کا انبار لگ جاتا ہے جو چند دن خوب رونق لگائے رکھتا ہے، مگر اس کے بعد صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا والی روایتی معرکہ آرائی ایسی شروع ہوتی ہے کہ کم ہی یاد رہ پاتا ہے کہ کونسا ستارہ سیدھی چال چلا اور کونسا لگن کہاں لگا۔
دور کیا جانا ایک سال قبل 2020 کی آمد پر بھی ایسی ہی پیشین گوئیوں کا غلغلہ رہا مگر پھر یوں ہوا کہ چین کے ایک شہر ووہان سے ایک نادیدہ وائرس نے وہ اودھم مچائی کہ بقول شخصے مینوں بھل گئے سوہرے پیکے (مجھے سسرال اور میکہ سب بھول گیا)! ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف عالمی معیشت میں ایک اور بہتر سال کے اندازے لگا رہے تھے۔ عالمی تجارت میں امریکا اور چین کی ٹریڈ وار کے سوا تقریباً سب خیریت تھی مگر یہ سب کچھ کسی کچے خواب کی طرح ٹوٹ گیا۔ وہی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اپنے اندازے بار بار الٹی سمت بڑھاتے چلے گئے۔
عالمی معیشت اور گلوبلائزیشن کی چولیں ہل گئیں۔ کووڈ 19سال 2020 کا سب سے بڑا سرپرائز ثابت ہوا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور نہ کسی جغادری مستقبل شناس نے سوچا تھا۔ جس تیزی سے یہ وائرس پھیلا اور جس قدر خوفناک ثابت ہوا، حالیہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ چالیس سال کی گلوبلائزیشن کی تقریبا ً سبھی علامتوں کو اس نظر نہ آنے والے وائرس نے جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ ٹورزم، ہوٹلنگ، ریستوران، ایوی ایشن، بین الممالک سفر، نمائشیں، تعلیم سیمینارز وغیرہ ایک دوسرے سے ملنے ملانے اور قربتوں کے ذرائع تھے۔
میلے ٹھیلے، فیسٹیول، میوزک، فلمیں اور اجتماعات کی ہر صورت انسانوں کو قریب لانے پر منحصر تھی مگر کووڈ 19 نے سوشل لائف کے اصول ہی بدل ڈالے؛ ہاتھ نہ ملائیں، گلے نہ ملیں، سماجی فاصلہ رکھیں، منہ ڈھانپ کر رکھیں، بار بار ہاتھ دھوئیں، زیادہ لوگ اکٹھے نہ ہوں، بلا ضرورت سفر نہ کریں۔
کووڈ19 نے سب بدل دیا۔ دوسری لہر پہلے سے زیادہ خوفناک ثابت ہو رہی ہے۔ ویکسین کی دستیابی میں سالوں کا سفر مہینوں میں طے ہوا، اب تک نصف درجن سے زائد ویکسینز منظور ہو چکی ہیں مگر تمام ممالک کی غالب آبادی تک پہنچنے میں وقت لگے گا مگر امکان ہے کہ 2021 کے دوسرے سال سے زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر آنا شروع ہو جائے گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو، زندگی اگر دوبارہ اسی ڈھب پہ آبھی گئی تو بھی دنیا کے بہت سے معاملات پرانی ڈگر پر نہیں آئیں گے۔ کیوں؟ کووڈ 19 نے گلوبلائزیشن میں دراڑیں ڈال دیں، گلوبلائزیشن کا ایک انقلابی معرکہ گلوبل سپلائی چین کی تشکیل اور اس میں نت نئے اضافے تھے۔ کووڈ19نے گلوبل سپلائی چین کو جھٹکا دیا تو ترقی یافتہ ممالک کو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں تو ٹشوپیپر، سینی ٹائزر حتیٰ کہ ماسک تک بنانے کی سکت نہیں ہے۔
آپا دھاپی بڑھی تو ہر ایک کو اپنی اپنی پڑگئی۔ ہیلتھ سسٹم مریضوں کے بوجھ تلے چرچرانے لگے تو اندازہ ہوا کہ گلوبل ولیج کا دوسرا رخ کتنا صبر آزما ہے۔ کووڈ19 نے ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی ناہمواری کو ایک بار پھر نمایاں کیا۔ ایک طرف لیبر مارکیٹ کی کثیر تعداد بے روزگاری الاؤنس کے لیے خوار ہورہی تھی مگر دوسری طرف کھربوں ڈالرز کے امدادی پیکیجز سے مالدار مزید مالدار ہوئے۔
معاشی ناہمواری اور کووڈ کی افتاد نے نچلے طبقات کو سب سے زیادہ متاثر کیا، اس قدر زیادہ کہ جمہوری نظام پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں۔ عالمی سطح پر کووڈ19نے ایسی بنیادی تبدیلیاں برپا کردی ہیں جیسی نائن الیون نے کیں، گلوبلائزیشن شاید اب ویسی نہیں رہے گی۔
پاکستان کے لیے بھی گزرا سال کووڈ19 کے حوالے سے اہم رہا۔ پہلی لہر میں اللہ تعالیٰ کا خاص کرم رہا مگر مجموعی طور پر سماج نے ذمے داری کا مظاہر ہ کرنے سے گریز ہی کیا۔ اب دوسری لہر پہلی سے زیادہ شدید اور مہلک ہے مگر احتیاط کا عملی جوش لاپرواہی میں بدلتا دکھائی دے رہا ہے، این سی او سی اپنی جگہ دہائی دے رہی ہے مگر سائنسی سوچ کی بجائے اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کے مطابق کورونا ورونا سب ڈھکوسلا ہے!
کورونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت کے انتظامی اور امدادی اقدامات اور اسٹیٹ بینک کی بروقت پالیسیوں نے معیشت کو سنبھالادیامگر دوسری طرف جاری مہنگائی اور مایوس کن گورننس نے عوام اور میڈیا میں تنقید کے دفتر کھول دیے۔ پی ڈی ایم کی حالیہ مہم کو بھی اصل کمک مہنگائی، بے روزگاری اور غیر متاثر کن گورننس نے پہنچائی۔
نیا سال کیسا ہوگا؟ اس بابت کئی احباب سے گفتگو ہوئی، مجموعی تاثر بے یقینی اور پریشانی کی طرف پایا۔ سدا کے رجائیت پسند پاکستان کے ایک انتہائی سینئیر ٹیکسٹائل ایکسپرٹ اور دانشور سید محفوظ قطب کے بقول مشکلات سے راستہ بھرا پڑا ہے مگر اب بھی موقع ہے اگر ہم اپنے خول سے باہر نکل سکیں۔
کووڈ19کی دوسری لہر نے ملک میں تیزی سے سر اٹھایا ہے۔ عوام کی اکثریت ایس او پی پر عمل سے لاپروائی برتنے پر کمر بستہ ہے۔ حکومت نے بارہ لاکھ ویکسین چین سے حاصل کرنے کا بندوبست کیا ہے، نجی شعبے کو بھی امپورٹ کی اجازت ہوگی۔ منظور شدہ ویکسینز کی امریکا اور یورپ میں بہت بڑی تعداد بُک ہو چکی، نہیں معلوم کہ نجی شعبے کو کب اور کتنی ویکسین عالمی مارکیٹ سے دستیاب ہوگی۔ بائیس کروڑ کے ملک میں سب کو ویکسین مہیا کرنا نئے سال کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ دوسرے یہ کہ کتنے عرصے میں تمام عوام تک یہ ویکسین پہنچ پائے گی۔
اس دوران کاروبار، تعلیم اور سماجی معمولات میں حائل مشکلات جاری رہنے کا اندیشہ ہے۔ دوسری جانب ہم اسّی اور نوے کی دِہائی جیسے سیاسی اور معاشی عدم استحکام میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بظاہر نئے سال کا بیشتر دورانیہ کووڈ19اور سیاسی عدم استحکام کے سائے میں گزرنے کا اندیشہ ہے۔