سی پیک ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ امریکا کے مشہور پالیسی تھنک ٹینک ووڈورڈ ولسن سینٹر میں امریکا کی جنوبی و وسطی امریکا کے لیے نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے گزشتہ ہفتے ایک سیمینار میں سی پیک کو شدید الفاظ میں ہدفِ تنقید بنایا۔ بظاہر تو چین کے عالمگیر منصوبے ون بیلٹ ون روڈ پر امریکا کی تشویش اور تنقید کو اجاگر کرنا مقصود تھا لیکن اصل ہدف تنقید سی پیک منصوبہ ہی رہا۔
سی پیک کو ایک گیم چینجر کے طور پر پیش کرنے اور کریڈٹ لینے میں مسلم لیگ ن بہت فعال رہی۔ البتہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے قبل سی پیک منصوبوں پر شدید تحفظات رہے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد البتہ سی پیک منصوبوں پر پی ٹی آئی کا انداز اور لہجہ دھیرے دھیرے بدلتا گیا لیکن ایک واضح فرق بہت نمایاں دیکھا گیا۔
موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سی پیک کے بیشتر منصوبوں کی رفتار سست ہوگئی۔ وزارت منصوبہ بندی کے اس وقت کے وزیر خسرو بختیار نے دو تین ماہ قبل اپنی حکومت کے دفاع میں پریس کانفرنسیں اور ٹاک شوز میں اس تاثر کی نفی کی کہ ان کی حکومت کو سی پیک منصوبوں سے کوئی بیر ہے۔ ان منصوبوں پر کام کیوں سست روی کا شکار ہے، ان کے بقول حکومت ان منصوبوں کی ترجیحات اور ان کی تکنیکی افادیت اور تفاصیل پر نظرِ ثانی کر رہی ہے۔ کچھ مہینوں کی بات ہے، پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ منصوبے ہوں گے اور ان کی حکومت کی پھرتیاں!
ایلس ویلز نے سی پیک کو پاکستان کے لیے ایک جال سے تعبیر کیا، قرضوں کا جال۔ ان کے بقول ان منصوبوں کو تین پیمانوں پر پرکھا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ اول، سی پیک میں قرضوں اور امداد پر شرح سودکا حجم ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد قرضوں کی ادائیگی کے سالوں میں پاکستان کو شدید دباؤ میں لے آئے گا۔
دوم، ان منصوبوں کی لاگت عالمی پیمانوں کے مقابلے میں تقریباً دگنا ہے۔ انھوں نے مثال دی کہ دنیا میں تھرمل بجلی پیداواری یونٹ لگانے کی قیمت تقریباً 750 0۔ ملین ڈالرز فی میگاواٹ ہے جب کہ پاکستان میں یہی منصوبے 1.5 ملین ڈالر فی میگاواٹ کی اوسط سے تعمیر ہوئے۔ سوم، یہ بھی خام خیالی تھی کہ ان منصوبوں سے پاکستان میں روزگار کے وسیع مواقعے پیدا ہوں گے۔ چینی کمپنیوں نے ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے ہاں سے منگوائی، یوں مقامی صنعتوں کو فائدہ نہ ہوا۔ رہی روزگار کی بات تو ان منصوبوں کے لیے مزدور تک وہیں سے لائے گئے۔ ایلس ویلز کے بقول پاکستان کے عوام کو اندازہ ہی نہیں کہ ان منصوبوں کی صورت میں وہ قرضے کے جنجال میں پھنس رہے ہیں۔
ان قرضوں کی واپسی کے وقت اَن چاہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انھوں نے مالدیپ اور سری لنکا کی مثالیں دیں کہ کس طرح مہنگے قرضے اور محیر العقول تعمیری لاگت نے ان دونوں ممالک کی حکومتوں کو چین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ سری لنکا کو اپنی ایک بندرگاہ ننانوے سال کے لیے چین کے حوالے کرنی پڑی۔ ایلس ویلز کے بقول چین دنیا کا سب سے بڑا قرض خواہ ملک ہے۔ دنیا بھر میں پانچ ٹریلین ڈالرز کے قرضے دینے کے باوجود پیرس کلب، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس ان قرضوں کی شفاف تفصیلات ہیں اور نہ ہی چین کی حکومت اتنی خطیر رقوم کے قرضوں کی تفصیلات کا ریکارڈ عالمی اداروں کے ساتھ شئیر کرتی ہے۔
پراسراریت کے اس دبیز پردے اور چین کے ظاہری بیانیے میں کہ وہ باہمی تعاون اور مفاد یعنی win win situation کے اصول پر کاربند ہیں پر امریکا کو بہت تشویش ہے۔ چین کے پاکستان میں سفیر نے اس تنقید پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ ان کے بقول اس وقت امریکا کہاں تھا جب پاکستان اندھیروں کا شکار تھا، چین کے سی پیک کے تحت انرجی کے منصوبوں نے پاکستان میں ان اندھیروں کو دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
رہی بات ادائیگی کے بوجھ کی تو اگر پاکستان کو ادائیگی میں دشواریاں آئیں تو چین نرمی کا معاملہ کرے گا۔ بیجنگ میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جواب دیا کہ ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک پر امریکا نے پھر سے وہی راگ الاپنا شروع کر دیا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔
چین کے ترجمانوں کے علاوہ حکومت کے وزیر اسد عمر نے کہا کہ چین کے کل قرضوں کا تناسب پاکستان کے مجموعی قرضوں میں ایک چوتھائی سے بھی کم ہے، لہٰذا قرضوں کے جال کی بات خلافِ واقعہ ہے، اور یہ بھی کہ زیادہ تر قرضوں کی شرح سود بہت رعایتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے سابق وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی اسی طرح کی وضاحت کرتے ہوئے اس تنقید سے اڑائی گئی گرد جھاڑنے کی کوشش کی۔ علاقائی برتری اور ایشیاء اور دنیا کے دیگر ممالک کے درمیان اثرورسوخ کی کھینچا تانی اب شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔
چین کا تجارتی حجم اور فاضل سرمایہ ورلڈ آرڈر میں امریکا کی پوزیشن کے لیے چیلنج ہے۔ اکیسویں صدی میں علاقائی، تجارتی اور سیاسی برتری کے لیے نئی صف بندیاں ترتیب پا رہی ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے ذریعے چین اپنی تجارت، سرمایہ کاری اور مارکیٹ تک رسائی کو دنیا کے پچپن ممالک تک ایک مربوط انداز سے پھیلانے کا خواہاں ہے، امریکا کو اندازہ ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل اس کے وضع کردہ ورلڈ آرڈر میں بہت بڑا شگاف ثابت ہو سکتا ہے۔
ہر ملک کے لیے اس کا مفاد مقدم ہے۔ اسے ہماری غفلت کہیے یا ہماری کاہلی پر مبنی گورننس، ہمارا ماضی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ بالعموم تمام حکومتوں نے عالمی معاہدوں کے لیے درکار ہوم ورک اور چھان پھٹک کی بجائے بیشتر فیصلہ کن موقعوں پر وقتی ترجیحات، اکثرغیر ضروری عجلت اور تن آسانی کو اپنایا۔ سی پیک بھی اسی روایت کا مظہر رہا۔ 1994 کی انرجی پالیسی نے امریکی سرمایہ کاروں کو اس قدر فیاضی سے نوازا کہ اس وقت کے امریکا کے سیکریٹری تجارت ہیزل او لیری نے آن ریکارڈ کہا کہ پاکستان کی انرجی پالیسی دنیا بھر میں بہترین ہے۔
کیوں؟ اس لیے کہ ان کے ساتھ آئے اسّی سرمایہ کاروں کے وفد کے ساتھ 3,400 میگاواٹ کے لیے چار ارب ڈالرز کے سولہ معاہدے ہوئے، ڈالرز کو بنیاد بنا کر 25 سے 30 سال کے طویل مدت معاہدوں کے تحت 15-18% یقینی منافع، حکومتی گارنٹیوں سمیت دو حصوں پر مبنی ادائیگی کا ماڈل اپنایا گیا، انرجی ادائیگی اور عدم استعمال کی صورت میں کیپیسٹی ادائیگی۔ اس پالیسی کے تسلسل کا اعجاز تھا کہ پاکستان کے بجلی پیداواری مکس میں تھرمل کا حصہ ساٹھ فی صد کی خطرناک حدوں کو چھو گیا۔ امریکی سرمایہ کاروں کی تو چاندی ہوگئی لیکن پاکستان خطے میں سب سے مہنگی بجلی کی دلدل میں پھنس کر رہ گیاہے۔
سی پیک کے منصوبوں میں بیشتر حصہ انرجی پرجیکٹس کا ہے اور شرائط کا ماڈل تقریباٌ وہی ہے جو ایک وقت میں امریکی سرمایہ کاروں کو پیش کیا گیا۔ وزراء کی باتیں قرضوں کے حجم اور شرح سود کی حد تک وزن رکھتی ہوں گی لیکن لگے ہاتھوں وہ باقی دو پہلووں پر بھی لب کشائی کر دیتے تو معاملہ واضح اور شفاف ہو جاتا یعنی سی پیک پروجیکٹس کی تعمیری لاگت عالمی پیمانوں سے دگنا نہیں ہے اور یہ کہ ان منصوبوں کی تعمیر سے مقامی انڈسٹری کو کس قدر فائدہ ہوا اور مستقل روزگار کے کتنے مواقعے پیدا ہوئے۔ سی پیک منصوبوں کی شفافیت اور افادیت کے لیے یہ سوالات بھی ہم ہیں۔