Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hindutva Bharat Ko Kahan Le Jaye Ga?

Hindutva Bharat Ko Kahan Le Jaye Ga?

یہ ایک شدیدسفارتی خفت تھی کہ امریکی صدر کی نئی دہلی میں عین موجودگی کے وقت وہاں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے۔ اس سے قبل نریندر مودی کی حکومت امریکی صدر کو متاثر کرنے کے لیے بندروں تک کو قابو کرنے اور تاج محل کے سنگ مرمر کی چمک بحال کرنے کے لیے ہلکان ہو رہی تھی جب کہ عین اس دورے کے دوران تین دن تک نئی دہلی کی گلیوں بازاروں میں خاک و خون کا بازار گرم رہا، خنجر، لاٹھیاں، آتشیں ہتھیار اور پٹرول ہاتھوں میں پکڑے غول کے غول نئی دہلی کی گلیوں میں دندناتے رہے۔ شعلے کچھ سرد پڑے تو اندازہ ہوا کہ گجرات فسادات کے بعد یہ شدید ترین خونریز مسلم کش فسادات ہوئے۔

اس قدر بڑی سفارتی ہزیمت کے باوجود نئی دلی میں بی جے پی کی حکومت نے تین روز چپ سادھے رکھی۔ تیسرے روز وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے امن امان کی اپیل کر کے رسم نبھا دی لیکن عملاٌ ان فسادات پر کوئی پچھتاوا ظاہر کیا نہ یہ اندھیرگردی برپا کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ یوں جلتے گھروں اور دکانوں کے شعلے سرد ہوئے تو بیالیس سے زائد ہلاکتیں ہو چکی تھیں جن میں سے غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی، سیکڑوں زخمی ہوئے اور ہزاروں خاندان مزید کسی تباہی سے بچنے کی کوشش میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ان فسادات نے بھارت میں موجود بظاہر سیکولر معاشرت کی بھد اڑا دی۔

نئی دلی میں ممکنہ تصادم کا اندیشہ تو بڑھ رہا تھا لیکن اس کی ٹائمنگ اور شدت کا کسی کو اندازہ نہ تھا۔ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد شہریت کا امتیازی بل پاس ہوا تو ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔ اس احتجاج میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے کہیں زیادہ ہندو شہریوں نے آواز اٹھائی۔ اپوزیشن میں سب سے توانا آواز مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کی تھی۔ احتجاج پر بی جے پی حکومت کا جواب شدید ترین تشدد کے طور پر سامنے آیا۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ تو درکنار دہلی میں جواہر لال یونیورسٹی کی لائبریری اور ہوسٹلز میں گھس کر طلباء اور طالبات کو نشانہ بنایا گیا۔ بے تحاشا ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں مگر بی جے پی کا اشتعال بڑھتا ہی چلا گیا۔

اس دوران شاہین باغ نئی دہلی میں مظاہرین نے سردی کی پروا کیے بغیر ایک طویل دھرنے کا آغاز کر دیا۔ خواتین اور بچوں کی اکثریت اور تمام مکتبہ ہائے فکر کے بھارتی شہریوں کی اس میں شرکت سے یہ دھرنا شہریت کے امتیازی قانون کے سامنے مزاحمت کی ایک علامت کے طور پر سامنے آیا۔ عالمی میڈیا نے بھی اس پر باقاعدگی سے رپورٹنگ کی۔

امریکی صدر کی موجودگی میں شروع ہونے والے یہ مسلم کش فسادات نئی دہلی میں 1984میں سکھ فسادات کے بعد اس قدر وسیع پیمانے پر برپا ہوئے۔ ان فسادات کے لیے باہر سے بھی لوگ لائے گئے جنھیں واردات کے بعد بھاگنے کا راستہ بھی پولیس سے پوچھنے کی ضرورت پڑی۔ ان فسادات میں نئی دہلی پولیس کا کردار بھی اتنا ہی بھیانک اور خوفناک رہا جتنا شرپسندوں کا۔ کئی ایسی ویڈیوز میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں واضح طور پر پولیس وردی میں ملبوس اہلکار فسادیوں کے ساتھ شامل دکھائی دیے۔ کئی ایک ایسی ویڈیوز ایسی بھی سامنے آئیں کہ جہاں پولیس فسادات کی جائے واردات پر موجود ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہی۔ جس پولیس کو مظلوموں کو تحفظ دینا تھا اس کے یکطرفہ اور متعصبانہ کردار کے سبب مسلمانوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس مزید بڑھ گیا ہے۔

یہ فسادات اچانک نہیں ہوئے بلکہ نفرت کے اس سفر کا ایک پڑاؤ ہے جو کئی دِہائیوں سے جاری ہے۔ ہندوتوا کا یہ سفر مختلف ناموں اور تنظیموں کے ساتھ آزادی کے بعد سے جاری رہا ہے۔ ہندوتوا کے اس ایجنڈے پر عمل پیرا لوگوں نے کبھی اپنے عزائم کو نہیں چھپایا کہ وہ بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ بی جے پی کو حکومت اور نریندر مودی کا وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے میں کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کی عوام میں گرتی ہوئی مقبولیت کا بھی عمل دخل ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ دخل سات دِہائیوں سے جاری ہندوتوا کے سفری تسلسل اور جنون کا بھی ہے۔

ہندوتوا کے سفر پر پر بھارت کے ایک نامور تاریخ دان اور جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے استاد ڈاکٹر ویکاس پاتھک کا ایک مضمون کئی نامور جرائد میں شایع ہوا ہے۔ خلاصہ اس مضمون کا یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی آر ایس ایس کی ذیلی سیاسی تنظیمیں الیکشن کے ذریعے متحرک ہوئیں لیکن انھیں خاص کامیابی نہ ملی۔ ساٹھ کی دہائی میں نام کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ کوششیں شروع ہوئیں۔ معمولی کامیابی تو ملی لیکن فیصلہ کن کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اندرا گاندھی کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی اور بعد ازاں ان کے قتل کے بعد بھارت کے سیاسی منظرنامے پر کایا پلٹ تبدیلیاں ہوئیں۔

بی جے پی کے اندر اعتدال کی کوئی آواز نہیں ہے۔ قومی وحدت پر اب ہندوتوا کا جنون غالب ہے، اس جنون میں واضح ٹارگٹ مسلمان ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی عالمی معاشی اور سیاسی انتظام میں اہمیت نے دنیا کو مصلحت پسندی کی چادر اوڑھنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اور ہندوتوا کا سفر اکٹھے چل سکتا ہے یا نہیں؟ آنے والا وقت بھاری لگ رہا ہے۔