پاکستان میں جمہوریت کا سفر اکثر ناہمو ار اور راستہ پر آشوب رہا ہے جس نے گاہے بے یقینی، بے بسی اور سیاسی حیات کی کشمکش کو جنم دیا۔ اس سفر میں چند ہی پارٹیاں اپنی حیثیت اور افادیت قائم رکھ پائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) ان میں سے ایک ہے جس کی تاسیس 1967 میں ہوئی۔ پی پی پی کی قیادت اب تیسری نسل کومنتقل ہو رہی ہے۔ اس دوران بقول شخصے پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔ زمانہ بدل گیا، زمانے کے انداز بدلے گئے اور عوام کی توقعات میں بھی بہت تبدیلیاں آ چکیں۔
پی پی پی کے سالانہ کیلنڈر میں 27 دسمبر 2007 ایک المناک تاریخ ہے؛ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا دن۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا المیہ بھی عجیب ہے۔ دن دھاڑے درجنوں کیمروں اور لاکھوں ناظرین کے سامنے بم دھماکے اور فائرنگ ہوئی، بے نظیر بھٹو ہاتھ ہلاتے مسکراتے اگلے ہی لمحے موت کی وادی میں تھیں، ایک کہرام بپا ہو گیا، چیخ و پکار کے قیامت خیز مناظر تھے۔
ان کا قتل جس مہارت اور بے رحم پلاننگ سے ہوا، یہ کسی کا ذاتی فعل نہیں ہو سکتا تھا، بار بار دکھائی جانے والی فوٹیج چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ پلاننگ کرنے والوں نے ایک ایک لمحے کی منصوبہ بندی کی اور ایک وار ناکام ہونے کی صورت میں دوسرے متبادل وار بھی اسی سرعت بلکہ بیک وقت ہی لانچ کیے۔ یہ تفصیلات زمانہ قریب کی ہیں، سو بہتوں کو یاد ہیں، دہرانے کا فائدہ نہیں۔ اصل قاتل کون تھے؟ قتل کے محرکات کیا تھے؟
اقوام متحدہ، اسکاٹ لینڈ یارڈ سے لے کر جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹیں شکوک کی دبیز تہیں تو چھوڑ گئیں لیکن قتل کی پس پردہ وجوہات کا مکمل پردہ نہ الٹ سکیں۔
پی پی پی کی ایک سال بعد اپنی حکومت قائم ہو گئی لیکن معاملہ پراسراریت کی مزید دبیز تہوں تلے دفن ہوتا چلا گیا۔ چند گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا مگر یوں یہ کہ کسی کو اعتبار آیا نہ قرار۔ اس قاتلانہ حملے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔
گھیراؤ جلاؤ کے مناظر سیاسی طوفان کا پتہ دینے لگے لیکن ہوش پر جوش غالب آیا، پاکستان کھپے پاکستان کھپے کی نعرے نے انگیخت جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں قابل قدر کردار ادا کیا۔ چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا جیسا معاملہ ہوا کہ جذبات اور کرب کی آندھی تھمی تو پی پی پی کی زمام ِکار آصف علی زرداری کے پاس بطور شریک چیئرمین اور نوجوان بلاول کے پاس بطور چیئرمین آ گئی۔
اس انتقالِ قیادت پہ یہ اعلان بھی ہوا کہ بے نظیر بھٹو کے بچوں نے اپنے ناموں کے ساتھ بھٹو نام بھی جوڑنے کا فیصلہ کیا ہے، یوں بلاول زرداری اس کے بعد بلاول بھٹو زرداری کہلائے۔ بعد ازاں سیاسی بیانیے کی ضرورت نے اس نام کو مزید مختصر کر دیا اور بلاول بھٹو ہی کہا اور سنا جانے لگا۔ پی پی پی کو قائم رکھنے والے بھٹو خاندان کی دوسری نسل کے بعد اب قیادت تیسری نسل کے بلاول بھٹو زرداری کو منتقل ہو رہی ہے۔
پی پی پی کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ کا منفرد اور کئی اعتبار سے متنازع کردار تھے۔ اسکندر مرزا کی کابینہ میں بطور وزیر شامل ہونے والے بھٹو نے ایوب خان کے دور میں بطور وزیر خارجہ اپنے جوہر خوب دکھلائے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی ماہرانہ سفارت کاری کی تربیت بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے بہت کام آئی۔ ان کی شخصیت کے سحر اور جاذبیت میں ان کی اعلیٰ تعلیم، وکالت، سیاست اور سفارت کا اپنا اپنا وافر حصہ تھا۔
انتخابات کے لیے پارٹی کومتعارف کروایا تو بھٹو نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا، روٹی، کپڑا اور مکان کی صورت میں انھوں نے مغربی پاکستان کے کروڑوں کسانوں اور مزدوروں کی آواز کو اپنی سیاست کا بیانیہ بنا لیا۔ ان کے دور کے بہت سے اقدامات کے بارے میں مختلف آراء ہیں لیکن ان کی شخصیت کا جادو اپنے زمانے کے دیگر سیاست دانوں سے منفرد رہا۔ ان کی اقتدار سے معزولی اور بعد ازاں ایک مشکوک مقدمے کے ذریعے سزائے موت کے باوجود عوام کے ایک کثیر حلقے کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔
بے نظیر بھٹو ان کی سیاسی جاں نشین بنی تو ضیاء دور کی سختیاں اور سیاست کے خارزار میں ان کے سفر نے ان کے ساتھ ہمدردی اور بھٹو خاندان کا سحر بھی جوڑ دیا۔ بے نظیر بھٹو کو دو بار حکومت ملی، دونوں بار سیاسی مفاہمتوں کی بیڑیاں بھی پابہ جولاں تھیں۔ جو حکومتی کارکردگی سامنے آئی اس میں کرپشن کے الزامات نے بہت گرد اڑائی۔ بھٹو خاندان سے رومانس نے حقیقت سے ٹھوکر کھائی تو ووٹ بینک کا حجم سکڑنے لگا۔
مشرف دور میں لگاتار آٹھ سال جلا وطنی گزارنے کے دوران انھوں نے وطن واپس آنے کے جو جتن کیے، ان میں واشنگٹن میں ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے حلقوں کا بھی عمل دخل تھا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے ایک سال کے اندر اندر ہی منظر کچھ یوں بدلا کہ آصف علی زرداری صدر بنے اور وزارت عظمیٰ کا ہما بھی انھی کے اشاروں پر بیٹھا۔ حکومتی مدت پوری ملی مگر کچھ یوں کہ سرِ شام درجن بھر ٹی وی چینل ان کی حکومت کی روانگی کی پیشین گوئیاں کرتے نہ تھکتے۔
اس مدتِ حکومت میں بھی الزامات اور کرپشن کہانیوں کا نیا دبستان سننے اور دیکھنے کو ملا۔ پانچ سالہ حکومتی مدت پوری ہوئی تو اگلے الیکشن میں پی پی پی صرف سندھ تک محدود ہو گئی۔ تازہ ترین الیکشن میں بھی پی پی پی صرف سندھ کا میدان ہی مار سکی۔ سیاسی ضرورتوں نے بظاہر اب بلاول بھٹو زرداری کو قیادت کی باگ ڈور پکڑا دی ہے۔
سیاسی انتقام کے نعرے اپنی جگہ لیکن سندھ کی حد تک بھی جو گورننس دیکھنے سننے کو ملی اس میں اقرباء پروری، کرپشن، سیاسی مفاد پرستی اور سرکاری وسائل کی بندر بانٹ جیسے الزامات تواتر کے ساتھ سامنے آئے۔ حال ہی میں بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ سے سالہا سال سے مستفید رہنے والوں کی ہزاروں کی تعداد میں چھانٹی کی گئی کہ ان میں سے کئی ہزار سرکاری ملازم بھی تھے، سیکڑوں کار مالک بھی تھے۔ حال ہی میں شہرت پائے جعلی اکاؤنٹس کے مقدمات کی تفصیلات جان کر محسوس ہوتا ہے کہ کرپشن نے کس طرح سیاسی وفاداریاں خریدنے، وسائل اور انتظامی طاقت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔
بلاول بھٹو زرداری بھٹو خاندان کی تیسری نسل سے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ ان کی پہچان کا نصف بھٹو خاندان اور بقیہ حصہ زرداری قبیلے پر مشتمل ہے۔ سیاست کا اب وہ مدار نہیں جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد رکھی، سیاست کا وہ دور تمام ہوا جب مزاحمت کی بھاری قیمت چکانے کے بعد ملی حکومت دو بار کرپشن اور مایوس کن گورننس کے ہاتھوں برخاست ہوئی۔ میثاق جمہوریت والا دور بھی لد گیا کہ اپوزیشن نے مدت پوری کرنے کے لیے تعاون دراز رکھا۔
اب سیاست کا ایک نیا دور ہے، عوام اب پبلک سروس ڈیلیوری مانگتے ہیں۔ اب یہ بلاول بھٹو زرداری پر منحصر ہے کہ وہ اپنی سیاسی اساس شہادتوں کے شجرے پر رکھنا چاہتے ہیں یا ملک کے عوام کے بدلتے ہوئے تیور اور توقعات کے پیشِ نظر نئی شروعات پر رکھنا چاہتے ہیں جن کی بنیاد سماجی انصاف اور بلا امتیاز قانون کی حکمرانی پر ہو۔ فیصلہ بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں اور ترازو وقت کے ہاتھ میں ہے۔