Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qabeela Bandi

Qabeela Bandi

جنگ کے بغیر ہی میدان جنگ سج گیا۔ توڑ پھوڑ، گھیراؤ جلاؤ اور اسپتال پر حملے کے دوران مریضوں اور مشینوں پر ایک سا غصہ نکالا گیا۔ مریضوں کے آکسیجن ماسک، آکسیجن سلنڈر اور آگ بجھانے والے سلنڈر تک غارت کیے گئے۔ پی آئی سی پر وکلاء کے حملے نے ملک ہلا کر رکھ دیا۔

ٹی وی اسکرینوں پر بار بار چلنے والی تصاویر کے متوازی وکلا کے نمایندوں کا گلہ بھی سامنے آرہا تھا، ہمارا موقف غلط پیش کیا گیا ہے، میڈیا متعصب ہے، وکلاء کے ساتھ زیادتی ہوئی، ان کی توہین ہوئی، وائرل ہونے والی ویڈیو نے انھیں مشتعل کر دیا۔

عام شخص کسی ڈاکٹر پہ مشتعل ہو تو کیا وہ اس کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے اور تعاقب میں اسپتال پر حملہ کرنے کی جرات کرے گا؟ شاید نہیں۔ ہاں البتہ اگر اس کے ساتھ ہم مزاج، ہم خیال اور ہم پیشہ افراد کی خاصی تعداد ہو، انھیں اپنی طاقت کے کس بل کا بھی اندازہ ہو اور بات بڑھ جانے کی صورت میں بال بھی بیکا نہ ہونے کا یقین کامل ہو تو بات دوسری ہے۔

جتھہ بند گروپ کسی بھی سماج میں جب بڑے، منظم، طاقتور اور ریاستی نظام پر متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اتنا ہی ان کا مزاج غصیلا اور سمجھوتے سے گریزاں ہونے لگتا ہے۔ منظم ہو کر فعال رہنے سے ان کی طاقت سے دوسرے گروہ خائف بلکہ اکثر اوقات انتظامی ادارے بھی ان پر ریاست کی بلا امتیاز رٹ کے اطلاق کے بجائے سمجھوتے کی تلاش میں رہتے ہیں۔

ریاست میں اس طرح کے گروپس کئی شکلوں اور مقاصد کے تحت منظم ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ان کا انداز کچھ اور کمزور ریاستوں میں کچھ مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسے کئی گروپس رہے ہیں لیکن ماضی میں ایسے گروپس اشتعال یا تشدد کا راستہ خال خال ہی اپناتے تھے لیکن گزشتہ چند سالوں سے تشدد اور اشتعال کا راستہ خاصا مصروف رہنے لگا ہے۔ کمزور گورننس اور سماجی انصاف سے اغماض کی کوکھ سے اس طرح کی انارکی اور پریشر گروپس کا ظہور کسی بھی سماج میں فطری عمل دیکھا گیا ہے۔

پنجاب میں نوجوان ڈاکٹرز جو ینگ ڈاکٹرز یا کسی اور بینرز تلے سب ایک ہیں، کے ہاں اپنے مطالبات کے لیے ہڑتال کا اعلان تو ناک پر مکھی کے ساتھ ہی بیٹھا منتظر رہتا ہے۔ کبھی ایمرجنسی بند اور کبھی مکمل کام بند۔ مریض خوار اور بدحال ہو جاتے ہیں، ایسے میں کہیں کہیں مریضوں اور ان کے لواحقین کا بھی ضبط ٹوٹ جاتا ہے تو ایمرجنسی یا وارڈز کو بھی میدانِ جنگ کا منظر بننے میں دیر نہیں لگتی۔ مطالبا ت کی ایک طوالت ہے کہ ختم ہونے پرنہیں آتی، دوسری طرف حکومت ان مطالبات کے نامناسب ہونے کی دہائی دیتی رہتی ہے یا کچھ تھوڑے بہت مطالبات منظور کرکے ڈنگ ٹپانے کو ہی کامیابی سمجھتی ہے۔

وکلاء کی تنظیمیں بھی بہت منظم اور ملک گیر ہیں۔ ان کے ہاں بھی ہڑتال کا استعمال ناک پر ہی دھرا رہتا ہے۔ عدلیہ بحالی کے بعد وکلاء میں سے کچھ وکلاء ہتھ چھٹ بھی ہوئے، عدالتوں میں ججوں کی تالا بندی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا لیکن دو باتیں نمایاں دیکھنے کو ملیں۔

اپنے وکیل ساتھی کا ساتھ دینے کے لیے ہڑتال یا جلوس نکانے سے قبل اس کے صحیح یا غلط ہونے کا تردد کرنا اکثر غیر ضروری دیکھا۔ دوسرے یہ کہ ہڑتال یا جھگڑے کی صورت میں بالآخر اپنے ساتھی کو قانون میں موجود موشگافیوں سے بحفاظت نکال لانا ایک اجتماعی فریضہ سا بن گیا ہے۔ اس قبیلہ بندی نے وکلاء کی صفوں میں کچھ لوگوں کو بہت اتھرا اور غصیلا بنا دیا ہے۔ ہمارے کئی وکیل دوست خود اس رجحان سے بیزار ہیں لیکن ایسے لوگ کم ہیں اور ووٹ کے ترازو میں ان کا وزن ہلکا ہوتا ہے، سو جو الیکشن جیت کر آتے ہیں، وہ دل و جان سے اپنے ساتھیوں کی خدمت، کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے۔

ریاست میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس مزاج کے پیچھے کیا محرکات ہوتے ہیں؟ دنیا میں اس موضوع پر سیاسیات، سماجیات اور نفسیات کے ماہرین نے دنیا بھر میں بہت کام کیا ہے۔ گروپ نفسیات اور گروپ کے مزاج کی تشکیل اور ردِعمل پر بہت تحقیق ہو چکی ہے، کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ گزشتہ سال ایک امریکی مصنفہ کی کتاب بہت مشہورہوئی، کئی ہفتے بیسٹ سیلر رہی، Political Tribes- Group instincts and the fate of nations. مصنفہ کا نام ہے ایمی چواء (Ammy Chua)۔

ایمی چواء چینی نژاد امریکی ہے۔ اس کے والدین چین سے ہجرت کرکے فلپائن آن بسے اور بعد ازاں امریکا میں سکونت اختیار کر لی۔ اس کے والد الیکٹریکل انجینئرنگ کے پروفیسر تھے اور والدہ کیمیکل انجینئرنگ کی پروفیسر تھیں۔ ایمی نے ہارورد یونی ورسٹی سے لاء کی ڈگری حاصل کی، کئی سال عملی طور پر پیشے سے منسلک رہنے کے بعد مشہور زمانہ یونیورسٹی Yale University جائن کر لی۔ اب تک ان کی پانچ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان کی تحریروں کا فوکس انٹرنیشنل لاء، گلوبلائزیشن، قانون اور ڈیویلپمنٹ پر زیادہ رہا ہے۔ مندجہ بالا کتاب ایسے وقت سامنے آئی جب ڈونالڈ ٹرمپ صدر بنے اور امریکی سیاست اور ووٹرز میں تقسیم شدید سے شدید تر ہوگئی بلکہ اس قدر شدت پہلے خال ہی دیکھی گئی۔

ایمی کے مطابق ہم انسان قبیلہ بندی کے عادی ہیں بلکہ قبیلے سے تعلق ہماری ضرورت ہے۔ اسپورٹس ٹیمیں ہوں، ایسوسی ایشنز ہوں یا مشترکہ مفادات کی بنیاد پر منظم گروپس، ایسے گر وہوں یا قبیلہ بندی کے ساتھ جڑاؤ ان کے متعلقین کو بالعموم طاقت کا احساس دلاتا ہے۔ عموماً اپنے گروپس کے مفادات کی سربلندی کے لیے وہ دوسروں سے بے دریغ ٹکرا جاتے ہیں چاہے ان کا براہ راست اپنا ذاتی فائدہ اس میں شامل نہ ہو۔ انتہائی صورت میں بعض اوقات اپنے گروپس کی خاطر مرنے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ امریکی سیاست میں ان رجحانات کی تعبیرکے طور پر انھوں نے موجودہ سیاسی کلاس کے نین نقش اور مزاج کو سیاسی قبیلہ بندی سے تعبیر کیا۔

صحیح یا غلط کے چکر میں پڑنے کے بجائے سیاسی جتھے بندی اور قبیلہ پروری شامل لوگوں کی اجتماعی طاقت اور انشورنس ہے۔ صدر ٹرمپ کے مواخذے پر ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کے درمیان میں حالیہ صف بندی اور غیر لچکدار رویے اسی قبیلہ بندی اور قبیلہ پروری کا مظہر ہے۔ قبیلہ پروری ایک یونیورسل سا رجحان بن چکا ہے۔ دور کیا جانا، ہمارے ہاں سیاسی نظریات کی تقسیم گزشتہ پانچ دس سالوں میں بہت گہری اور واضح ہوئی ہے۔ دلیل صرف اپنے موقف کی برتری ثابت کرنے پر صرف ہوتی ہے یا مخالف کو ہر صورت نیچا دکھانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے موقف پر ایک قبیلے کی طرح غیر لچک داررویے کو روا سمجھتی ہیں، اپنا کوا کالا اور مخالف کا ہر حال میں سفید ثابت ہوتا ہے۔

قبیلہ بندی ریاست کے اجتماعی نظم و نسق میں کمزوریوں کی موجودگی میں زیادہ پنپتی ہے۔ رول آف لاء کمزور ہو تو ریاست کے آنگن میں ایسے گروہ یا قبیلے پھلنے پھولنے میں دیر نہیں لگتی۔ غلط صحیح کا جھنجھٹ ایسی صورتوں میں روا رکھنا کمزوری کی نشانی سمجھی جاتی ہے، بلکہ شدید تر ردِ عمل ایک کامیاب اسٹرٹیجی کے طور پر روا رکھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک حد کے بعد یہ قبیلہ بندی ریاست یا دیگر قبیلہ بند گروپس کے ساتھ تصادم سے دوچار ہو کر بالآخر ان چاہے نتایج پر منتج ہوتی ہے۔