Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Zarayi Soorat e Haal

Zarayi Soorat e Haal

کتنے شرم کی بات ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں، ہال میں مکمل خاموشی میں پاٹ دار آواز گونجی۔ تقریر کے تسلسل سے لگ رہا تھا کہ وزیر باتدبیر کسی بات پر قومی غیرت جگانے لگے ہیں، سامعین ہمہ تن گوش تھے، شرم کا طعنہ سننے کے بعد اگلی بات سننے کے لیے مزید ہمہ تن گوش ہو گئے لیکن اس دوران کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وزیر موصوف کی تقریر کے صفحات مکس اپ ہوگئے۔

ایک آدھ منٹ تک انھوں نے الٹ پلٹ کرکے اگلا صحیح صفحہ ڈھونڈا تو پھر سے سلسلہ کلام جوڑا ؛ کہ پھر بھی ہم دودھ سمیت بہت سی زرعی اشیاء امپورٹ کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم میں صلاحیت ہے کہ ہم زرعی پراڈکٹس ایکسپورٹ کر سکتے ہیں۔

یہ بے نظیر بھٹو کا پہلا دور تھا یعنی 1988-90، راؤ سکندر اقبال وزیر زراعت تھے۔ یہ پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کا ایک سیمینار تھا جس میں انڈسٹری کے نمایندہ لوگ موجود تھے۔ ہم ان دنوں ایک ڈیری کمپنی کی مارکیٹنگ سے وابستہ تھے، اس سیمینار کی نظامت ہمارے ذمہ تھی۔ وزیر موصوف کے اگلا صفحہ ڈھونڈنے تک سامعین نے اس ادھورے فقرے کو کیا کیا معنی پہنائے، اس کا اندازہ ہمیں بعد میں چائے کے وقفے کے دوران شرکاء کی باتیں سن کر ہوا۔

فاسٹ فارورڈ2021 ؛ پی ٹی آئی کے چوتھے وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ بحث کے دوران اعتراف کیا کہ پاکستان ابNet food importing country یعنی خوراک درآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔

چند روز قبل جاری سرکاری اعدادوشمار کی گواہی کے مطابق اربوں ڈالرز کی گندم، چینی اور روئی درآمد کرنی پڑی جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ پھول کر مزید کپّا ہو گیا۔ گندم اور چینی اس مجبوری میں درآمد ہوئی کہ اچھی خاصی فصل ہونے کے باوجود مارکیٹ میں قیمتیں قابو میں نہیں آ رہی تھیں۔ روئی اس لیے کہ اس بار ریکارڈ کم پیداوار ہوئی، اس لیے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا پہیہ چالو رکھنے کے لیے روئی امپورٹ کرنا مجبوری بن گئی۔

وہ زمانہ کب کا لد گیا جب پاکستان روئی برآمد کرنے والے نمایاں ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ وجوہات جو بھی رہیں، پاکستان جو ایک زرعی ملک تھا اور ہے اِسے اپنی فوڈ سیکیورٹی کے لیے مسلسل امپورٹ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ راؤ سکندر اقبال کا وہ ادھورا فقرہ تیس بتیس سال بعد مزید بامعنی لگتا ہے۔

ان تیس بتیس سالوں میں کیا ہوا؟ معروف ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے تین سال قبل ایک ریسرچ میں انکشاف کیا کہ 1990-2015 کے پچیس سالوں کے دوران پاکستانی معیشت مسلسل جمود کا شکار رہی۔ دو چار سال اس کے تنِ مردہ میں جان پڑی مگر بقیہ سالوں میں پژمردگی ہی چھائی رہی۔ ان کے انکشافا ت زرعی فصلوں کی پیداوار کے بارے میں حیران کن تھے۔

ان کی ریسرچ کے مطابق ان پچیس سالوں کے دوران بڑی فصلوں میں اوسطاٌ 2.8%سالانہ اضافہ ہوا۔ اگر اُن دو چار سالوں کو الگ کر لیا جائے جب سالانہ اضافہ غیر معمولی رہا تو ان بقیہ سالو ں کے دوران بڑی فصلوں میں سالانہ اضافہ کم ہو کر فقط ایک فی صد رہ جاتا ہے۔ اسی طرح چھوٹی فصلوں یعنی Minor cropsمیں ان پچیس سالوں دوران اوسطاً 1.9%سالانہ اضافہ ہوا، اگر غیر معمولی سالانہ اضافے والے چند سال علیحدہ کریں تو یہ اوسط اضافہ کم ہو کر فقط 1.5% سالانہ رہ جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس دوران آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد سالانہ سے زائد ہی رہی۔

سونے پر سہاگہ اس دوران شہری آبادی کا تناسب تیزی سے بڑھتا رہا۔ بڑے چھوٹے شہروں کے آس پاس زرعی زمین ہاؤسنگ کے کام آنے سے زرعی پیداوار کے لیے دستیاب زمین میں مزید کمی ہوئی۔ فرض کریں اگر یہی رجحان اگلے پچیس سالوں تک جاری رہے تو زرعی شعبے میں بڑی اور چھوٹی فصلوں کی سالانہ اضافے سے پیدا ہونے والی فوڈ شارٹیج، اشیائے خورونوش کی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی اور قیمتوں کے ساتھ کیا کیا تماشا نہ ہوگا۔

کیا تماشا ہو گا؟ بلکہ اس کے لیے اگلے پچیس سال کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔ 2019-20 کے دوران کیے گئے ایک ملک گیر سروے Pakistan social and living standards measurement کے مطابق سروے کے گئے گھرانوں میں سولہ فی صد سے زائد کو خوراک کی درمیانے درجے یا شدید قلت کا سامنا رہا۔ بلوچستان کے دس اور سندھ کے جن نو اضلاع میں گھرانوں کا سروے کیا گیا ان میں 26% کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا رہا۔ شدید قلت کی مزید تہہ میں اتر کر دیکھیں تو 19%کو بحرانی یعنی Crisis صورت حال درپیش رہی جب کہ 7% گھرانوں کو ایمرجنسی سے واسطہ رہا۔

وجوہات وہی پرانی، زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق بدستورقائم و دائم ہیں۔ نئے بیجوں کی تحقیق اور پرداخت پر مامور اداروں میں بجٹ تنخواہوں پر صرف ہوجاتا ہے مگر مجال ہے کہ کپاس، گندم، گنے، چاول یا فروٹ سبزیوں کے لیے انقلابی بیج پیدا کرنے کا کشٹ اٹھایا ہو۔ فصلوں کی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ پانی کی قلت کے شکار ملک میں کپاس پیدا کرنا گھاٹے کا سودا ہے جب کہ گنے اور چاول کے سر سب سہرے سجے ہوئے ہیں۔

جراثیم کش ادویات میں دو نمبری اور اندھا دھند زہر خیزی نے زمین اور دوست کیڑوں کا بھرکس نکا ل دیا ہے۔ مشینی فارمنگ کا رجحان صیح معنوں میں پنپ نہیں سکا۔ مڈل مین اور آڑھتی موج میں ہیں جب کہ کسان ان کی چاکری پر مجبور ہیں۔ بینکوں کو صنعت و تجارت سے فرصت نہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس صورت حال تک پہنچنے میں پچھلے تیس پینتیس سالوں کے دوران قائم تمام سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں کا کچھ نہ کچھ حصہ ہے، کسی کا کم کسی کا زیادہ۔ آج مہنگائی پر ان سیاسی جماعتوں کے بیانات دل کو چھو لیتے ہیں مگر اپنی اپنی باری پر جو انھوں نے کیا، اس کا مجموعی کیا دھرا یہ ہے کہ اب شرم آتی ہے یہ کہلاتے ہوئے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں !!