کراچی میں ٹریفک جام کے خاتمے اور اس کی روانی کو جاری رکھنے کے لیے شہر میں متبادل ایکسپریس وے بنائے جائیں جس سے عوام اپنے گھروں، دفاتر، کارخانوں اور تعلیمی مقامات پر آسانی سے پہنچ سکیں تاکہ کراچی کے عوام اپنا قیمتی وقت ٹریفک کے بے ہنگم دباؤ اور ہجوم میں رہنے کے بجائے دیگر ترقیاتی، فلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں پر خرچ کر سکیں کیونکہ گزشتہ کئی دھائیوں سے اب تک کراچی کے لیے کوئی مضبوط ٹریفک نظام نہیں دیا جاسکا ہے، جب کہ آبادی کا پھیلاؤجس تیزی سے اس شہر میں ہوا ہے۔
اس پر بھی کوئی غور نہیں کیا گیا صرف چند مصروف شاہراؤں پر برج اور انڈر پاسز بنا کر ٹریفک کی آمدورفت کے دباؤکوکسی نہ کسی حدتک کم ضرورکرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن متبادل راستوں کے ذرایع کم رکھے گئے ہیں جو آج کراچی کی ضرورت کے لیے بے حد ضروری تھے۔ تقریبا پندرہ سے اٹھارہ سالوں کے درمیان کراچی کی سڑکوں پر ہلکی اور بھاری گاڑیوں کا حجم بہت تیزی سے بڑا ہے۔
سیکڑوں گاڑیاں ہر روزکراچی میں رجسٹرڈ ہو رہی ہیں جب کہ اس کے برعکس شہر کی سڑکوں کی چوڑائی پچاس یاساٹھ سال پرانی ہی ہے ماسوائے چند ایک کے۔ کراچی میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے متعدد ادارے موجود ہیں جن میں کے ڈ ی اے، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے، کے ایم سی، کے پی ٹی کے علاوہ کنٹونمنٹ بورڈ کے ادارے بھی شامل ہیں ماضی میں صرف کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ایک شہید ملت ایکسپریس وے ہی تعمیرکی ہے جس سے آج ہزاروں شہری فائدہ اٹھا رہے ہیں، ایسے ہی مزید ایکسپریس وے کراچی میں بہت پہلے بنانے ضروری تھے جو آج شہرکی ضرورت کو پورا کرتے۔
سماجی کاموں کے سلسلے میں جب میں کراچی شہرکے اندرونی اور بیرونی راستوں سے سفرکرتی ہوئی اس کے مضافاتی علاقوں سے گذرتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے شہر میں ٹریفک کی روانی کے لیے متبادل راستے بنائے جاسکتے ہیں۔ مثلا کراچی کی مصروف ترین شاہراہ فیصل، ملیر، کورنگی، لانڈھی، شاہ فیصل کالونی، بن قاسم ٹاؤن کے علاوہ انڈسٹریل زون اور لانڈھی زون ودیگر علاقوں کو ایک متبادل راستہ ملیرندی کے دونوں سائڈ پر ایکسپریس وے تعمیرکرکے لاکھوں عوام کوفائدہ پہنچایاجاسکتا ہے۔
جس کے ذریعے ان علاقوں میں جانے والے افراد کو متبادل راستہ مہیا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سہراب گوٹھ کے زیرو پوائنٹ سے لیاری ندی کے دونوں کناروں پر روڈ بنا کر سرجانی ٹاؤن اور نادرن بائی پاس تک ٹریک بن سکتا ہے جس سے نیو کراچی اور نارتھ کراچی کے دیگر علاقوں کے علاوہ ناردرن بائی پاس کے نزدیک نئی آباد کی جانے والی آبادیاں اورکمرشل مراکز اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور لاکھوں افراد کی آبادی کو ٹریفک کے اژدہام سے نجات بھی حاصل ہوگی۔
یہ سہولت ان شہریوں کے لیے زیادہ مفید ہوگی جو اس شہر کے اندر رہتے ہوئے بھی لمبی مسافت طے کرکے اپنی منزل پر پہنچتے ہیں جب کہ دیکھا جائے تو ان متبادل راستوں سے ترقی کے مواقع زیادہ حاصل ہوتے ہیں اور ظاہر ہے ایسے کاموں سے ایندھن اور وقت کی بچت کے ساتھ ملکی زر مبادلہ بھی بچایا جا سکتا ہے۔
ایسے ہی کراچی کی ایک اور مصروف ترین شاہراہ کارساز روڈ پر جہاں نیوی گیٹ کے سگنل اور میوزیم کی وجہ سے عوام کا رش ہوجاتا ہے اور ٹریفک کے رک جانے سے نیشنل اسٹیڈیم کی جانب سے آنے والے لوگوں کو شارع فیصل پر جانے کے لیے سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ ہی نہیں بلکہ جنھیں کراچی ایئر پورٹ، جناح اسپتال یا کارڈیو ویسکولر جانا ہو تو وہ بھی اس ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کی زندگیوں کو بھی س نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔
اس کے علاوہ اندرون ملک یا بیرون ملک سفر کرنے والے ایسے مسافر بھی راستے میں تاخیر ہونے سے پریشان ہوتے ہیں اورکیونکہ فلائٹ شیڈول فکس ہوتا ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگوں کی فلائٹ تک چھوٹ جاتی ہے یا انھیں دیگر اضافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا اس مقام پر ایک انڈر پاس تعمیرکیا جائے۔
جس کی سہولت سے کارساز روڈپر ٹریفک کی روانی مسلسل جاری رہے۔ کراچی میں بعض مقامات پر ٹریفک کے لیے راستوں کی ری ڈیزائننگ کرنا ضروری ہے کیونکہ کسی مرکزی شاہراہ سے دوسری جانب جانے کے لیے پرپیج راستوں سے گھومتے گھماتے آنا پڑتا ہے، جو عوام پر ظلم ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہرگاڑی کو اضافی ایندھن خرچ کرنا پڑرہا ہے اور ٹوٹی سڑکوں کے سبب ہرگاڑی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہرگلی یا نکڑ پر مکینکوں کے کھوکوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مثلا بلوچ کالونی پل کے ساتھ ایئر پورٹ جانے والے راستے سے کوئی گاڑی شہید ملت روڈ پر براہ راست نہیں جاسکتی اس کے لیے کیا تواسے ٹیپو سلطان روڈ یا پھر کارساز روڈسے ہوکر شاہین اسکول کے سامنے سے گزر کر آنا ہوگا یہ سب بھی نا قص حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اب میں عوام اور اعلیٰ اداروں کی توجہ کراچی شہرکے حوالے سے ایک خاص پہلو کی جانب مبذول کرانا اپنی قومی ذمے داری سمجھتی ہوں وہ یہ کہ اس وقت جو ترقیاتی کام کراچی میں کرائے جا رہے ہیں اور جن پروجیکٹ پر اربوں روپے کے اخراجات عوام کو بتائے گئے ہیں۔
وہ درست معلوم نہیں ہوتے کیونکہ پروجیکٹ کی تیاری کے وقت جو تخمینی لاگت بتائی جاتی ہے۔ اس میں جان بوجھ کر اضافی کام کو شامل نہیں کیا جاتا جوکسی پروجیکٹ کے ابتدائی، درمیانی یا آخر میں آنے کی امید ہو یا آسکتے ہوں وہ کسی نہ کسی انداز سے تحریر میں نہیں لکھے جاتے کیونکہ اس کا فائدہ کام کے آغاز یا کسی اور موقع پر پروجیکٹ مینجمنٹ کے سا تھ ٹھیکدار کو بھی پہنچانے کے امکانات ہوتے ہیں جس کا ایک ثبوت کراچی میں پینے کے پانی کے حوالے سے =4 Kکا منصوبہ ہی دیکھ لیں جس کا کہ آج تک نہ درست تخمینہ معلوم ہورہا ہے اور نہ ہی مدت اختتام معلوم ہوسکی۔ اس منصوبے میں بہت بڑی بڑی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں جو پی سی ون کے اعتبارسے نا مناسب سمجھی جاتی ہیں یہ کیوں کی جا رہی ہیں۔
اس کی وضاحت ضروری ہے اگر ٹیکنیکل ٹیم اس کی ذمے دار ہے تو اس کے خلاف کیا کوئی کاروائی عمل میں آئی یا وہ کون سے افراد تھے جن کی وجہ سے پروجیکٹ کیا ان زاویوں کو نظر انداز کیا گیا جب کہ اس پر نہ تو کوئی سیاسی اور نہ ہی کوئی علاقائی بندش یا رکاوٹ سامنے آئی لہذا میری نظر میں جلد بازی اور غیر سنجیدہ اسٹڈی کے ساتھ ڈیٹیل ڈیزائننگ اور تفصیلی غور وفکر کا نہ ہونا ان مسائل کا سبب ہو سکتاہے، ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ ماہر انجنیئرزکی موجودگی میں اتنی بڑی کوتاہیاں ہوتیں ایک اور بات اگر اس قسم کے منصوبوں کے لیے عوامی سماعت مقرر کی جائیں تو بہت سی باتیں نگرانی کرنے والوں کے علم میں پہلے سے آجاتی ہیں اور وہ ان کو مدنظر رکھ کر کسی بڑے پروجیکٹ کی پی سی ون بہتر انداز میں تیار کرسکتے ہیں۔
اب بعض رپورٹ کے مطابق K=4 پروجیکٹ کی تخمینی لاگت ڈیڑھ کھرب تک متوقع ہوسکتی ہے، ظاہر ہے اس کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ بھی عوام پر آجائے گا لہذا ان عوامل کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں اس قسم کے حالات نہ پیدا ہوں۔ اس کے تدارک کے لیے تعمیرات کے حوالے سے موجودہ قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے عوام کا روپیہ ضایع ہو نے سے محفوظ رہے۔ ہمیں بھی اب کم ازکم اپنے واحد بین لاقوامی کراچی شہر کے اندر متبادل راستے بناکر ملک کے دیگر شہروں کے لیے ایک مثال قائم کرنی چاہیے جیسا کہ پہلافلائی اوور ناظم آباد اور ملک میں سب سے پہلے بنایا جانے والا کلفٹن انڈر پاس وغیرہ۔