ہڈیوں میں گودا جماتی سردی کے موسم میں ملکی درجہ حرارت نقطہ ابال کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے رکن جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کو ایوان سے اپنے استعفے پارٹی سربراہان کے حوالے کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے اور اس مقصد کیلئے 31جنوری کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت اگرچہ اس حوالے سے متفق دکھائی دیتی ہے مگر پیپلز پارٹی کے اصل چیئرمین آصف زرداری استعفے دینے کے موڈ میں نہیں، اس لئے میاں نواز شریف نے استعفے مولانا فضل الر حمٰن کے حوالے کرنے کا اعلان کیا مگر اسی اجلاس میں آصف زرداری نے پارٹی سربراہوں کو استعفے دینے کی بات کی۔ ان کا م کاقصد استعفے دینے کے باوجود فیصلہ اپنے ہاتھ میں رکھنا تھا، بلاول بھٹو بھی سندھ اسمبلی سے استعفے دینے میں تحفظات کا شکار ہیں، ادھر اطلاع ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اکثر ارکان بھی استعفے دینے کے حق میں نہیں، یہی وجہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کے تمام ارکان نے اب تک استعفے قیادت کے حوالے نہیں کئے۔
لیگی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 80فیصد ارکان استعفے دے چکے ہیں، مطلب 20فیصد لیت و لعل کا شکار ہیں، ان حلقوں کے مطابق باقی ارکان بھی مقررہ تاریخ سے پہلے استعفے جمع کرا دیں گے لیکن جو فگردیا گیا اس کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیاجبکہ باقی ارکا ن کے استعفے دینے بارے بھی کوئی یقینی بات نہیں کی گئی، لیگی حلقوں کے مطابق اب تو حلقوں کے عوام بھی اپوزیشن جماعتوں کے ارکان سے سوال کرتے ہیں کہ استعفیٰ جمع کرایا؟ اس لئے مقبول نظرئیے کیساتھ چلنا ارکان کی مجبوری ہے، اس فیصلہ سے کسی کے انحراف کا کوئی امکان نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پارٹی قیادت مکمل طور پر پی ڈی ایم کے فیصلوں پر من و عن عمل کر رہی ہے، وفاق، سندھ، پنجاب اور دیگر اسمبلیوں سے بیشتر ارکان کے استعفے وصول ہو چکے ہیں، 26دسمبر کو پارٹی کے مجلس عاملہ کے اجلاس میں بھی اس بات کا جائزہ لیا جائے گا جن ارکان نے استعفے نہیں دئیے اس کی وجہ کیا ہے، اور ان سے فوری استعفے دینے کا کہا جائے گا۔ ن لیگ اور پی پی پی کے دعو ؤں کے باوجود اطلاع ہے کہ پنجاب سے مسلم لیگ ن کے 45ایم پی ایز اور 25ایم این ایز استعفیٰ نہیں دینا چاہتے ابھی تک ان ارکان نے اسی سوچ کے تحت استعفے نہیں دئیے، مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ارکان پارٹی قیادت کے فیصلہ کیخلاف فارورڈ بلاک تشکیل دیکر بغاوت کر سکتے ہیں، اطلاعات ہیں استعفیٰ نہ دینے والوں کو پارٹی نائب صدر مریم نواز نے فوری استعفے دینے کیلئے پیغام بھی بھجوایا مگر ان ارکان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، اور مبصرین کے مطابق ان کی طرف سے استعفوں کا امکان بھی نہیں ہے۔
ن لیگ میں شہباز اور حمزہ گروپ مریم نواز کی ہدایت پر استعفے دینے کو تیار نہیں، بلاول بھٹو کی جیل میں شہباز شریف سے ملاقت میں بھی شہباز شریف نے بلاول کو استعفے نہ دینے کا مشورہ دیا، اور کہا استعفے آخری آپشن ہے اس لئے جلد بازی نہ کی جائے، آصف زرداری بھی فوری استعفوں کے حق میں نہیں اور چاہتے ہیں کہ حکمت عملی سے کام لیا جائے اور استعفوں کے اعلان کو حکومت پر دباؤ کیلئے استعمال کیا جائے، اگر چہ پیپلز پارٹی کے حلقے استعفوں کے معاملہ پر زرداری اور بلاول میں اختلافات کی خبروں کو افواہ قرار دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ باپ بیٹے میں اس حوالے سے اختلافات ہیں، اس معاملہ پر ن لیگ میں نواز اور مریم گروپ اور شہباز اور حمزہ گروپ میں بھی اتفاق رائے کا فقدان ہے، اس اعلان کا انجام کیا ہو گا اس کا فیصلہ 31جنوری کو سامنے آجائیگا، مگر اپوزیشن کی یہ دھمکی انکی مرکزی پارٹیوں کی قیادت میں اختلافات کی نذر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
ادھر تحریک انصاف کے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے متعدد ارکان کے حکومت سے رابطے ہیں، جو پارٹی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے الگ دھڑا یا گروپ بنانے کے خواہش مند ہیں جس کا جلد اعلان متوقع ہے، واضح رہے کہ مریم نواز نے لاہور جلسہ کے بارے کہا تھا کہ یہ جلسہ آر یا پار ہو گا مگرآثار بتا رہے ہیں کہ استعفوں کا اعلان خود اپوزیشن کیلئے آر یا پار ثابت ہو گا، حکومت کی بھی کوشش ہے کہ اپوزیشن ارکان کو کسی بھی طریقے سے استعفے دینے سے روکا جائے، تاہم اگر ایسا ممکن ہو جاتا ہے کہ اپوزیشن ارکان استعفے پارٹی قیادت کے سپرد کر دیتے ہیں تو اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ پارٹی قیادت یہ استعفے متعلقہ سپیکر کے حوالے کرے، با ا لفرض کر دئیے گئے تو سپیکر صاحبان ان کو قبول نہیں کریں گے اور جیسے نواز دور میں تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے قبول نہیں کئے گئے تھے ایسے ہی اپوزیشن کے استعفے بھی سپیکر صاحبان کے پاس فائل میں دفن رہیں گے۔
حکومت نے پورے کورم کیساتھ سینیٹ الیکشن کرانے کا فیصلہ کر رکھا ہے اس مقصد کیلئے بھی اپوزیشن ارکان کے استعفوں کو قبول نہیں کیا جائیگا، اپوزیشن نے 31جنوری تک وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے، امید ہے کہ فروری یا مارچ میں لانگ مارچ کی کال دی جائیگی، اس سے پہلے حکومت نے الیکشن کمیشن کو سینیٹ کے الیکشن کرانے کا گرین سگنل دیدیا ہے، آصف زرداری سینیٹ الیکشن میں بھی حکومت کو فری ہینڈ نہیں دینا چاہتے جس کی وجہ سے وہ فوری استعفوں کیخلاف ہیں، شہباز شریف بھی سینیٹ میں حکومت کو اکثریت حاصل کرنے سے روکنا چاہتے ہیں تا کہ حکومت مرضی کی قانون سازی نہ کر سکے، اگر سیاسی اعتبار سے سوچا جائے تو آصف زرداری اور شہباز شریف کی سوچ سیاسی اور جمہوری ہے جبکہ نواز شریف نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دینگے کی پالیسی پر گامزن ہیں، فضل الر حمٰن کے پاس تو کھونے کو کچھ نہیں اور نواز شریف کو کچھ ملنے کا امکان نہیں اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ کھیل بگڑا رہے مگر زرداری کے پاس سندھ حکومت ہے اور شہباز شریف پنجاب پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، خواہش ہے کہ بزدار حکومت کیخلاف عدم اعتماد کامیاب کرا لی جائے امکان اس کا بھی نہ ہونے کے برابر ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔