حالیہ ضمنی الیکشن نے ملک میں انتخابی قوانین اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر بہت سے سوالات اٹھادئیے ہیں، خاص طور پر ڈسکہ کے این اے 75میں عجیب و غریب تماشے ہوئے، دو افراد زندگی کی بازی ہار گئے مگر بد قسمتی سے تفتیشی ادارے آج بھی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، الیکشن نتائج کا انعقاد ہی مشکوک نہیں ہواءبلکہ الیکشن کمیشن کی ساکھ بھی مشکوک ہو گئی ہے، رہے الیکشن قوانین تو ان پر کیا بات کی جائے کہ آج تک ان پر کسی بھی دور میں عملدرآمد کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی، اگر چہ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری پریس ریلیز خوشگوار تبدیلی تھی، انتخابی نتائج کا روک دیا جانا بھی خوش آئند ہے مگر اس کے بعد کچھوے کی چال سے پیش رفت معاملات کو گھمبیر بنا رہی ہے، 23کے قریب انتخابی عملہ کا لا پتہ ہونا بھی اب تک معمہ ہے، اتنی بڑی تعداد میں پولنگ عملہ کو اغواءکرنا اگر چہ ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہے، یہ لوگ پولنگ سٹیشن سے ایک ہی وقت میں نہیں نکلے ہونگے، پولنگ سٹیشن پر تعینات پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں اغواءممکن نہیں ہو سکتا، یہ سب لوگ کہاں گئے، کس سے ملے اور کیوں؟ ممکن ہے یہ لوگ ایک جگہ اکٹھے نہ ہوئے ہوں مگر ان کا بیک وقت صبح 6بجے ریٹرننگ افسر کے دفتر میں پہنچنا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
تحقیقات تو یہ ہونی چاہئے کہ یہ لوگ واقعی زبردستی کہیں لے جائے گئے، یا از خود لا پتہ ہوئے، اگر ان کے ساتھ زور زبر دستی کی گئی تو ریاست کے مقابلہ میں اقدام کرنے والا اتنا طاقتور کون ہے؟ اور اس کے کیا مقاصد تھے؟ اگر عملہ کے ارکان اپنی مرضی سے لا پتہ ہوئے کہاں گئے، کس کی ایماءپر فرائض سے غفلت برتی، مقاصد کیا تھے؟ اگر حکومت مستقبل میں واقعی شفاف اور پر امن انتخابات کی خواہشمند ہے تو حقائق کو منظر عام پر لانا ہو گا، ورنہ عارضی نوعیت کے اقدامات سے معاملہ کی تہہ تک پہنچا جا سکے گا نہ الیکشن میں دھونس اور دھاندلی کا خاتمہ کیا جا سکے گا، اگر چہ پاکستان واحد ملک نہیں جس میں الیکشن کے دوران غیر قانونی، غیر اخلاقی ذرائع اپنائے جاتے ہوں، تیسری دنیا کے تمام ممالک میں کسی نہ کسی سطح پر یہ پریکٹس ہوتی ہے، مگر دیگر ممالک میں الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ہوتے ہیں صرف انتظامی حوالے سے ہی نہیں بلکہ مالی اعتبار سے بھی خود مختاری ہوتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے، کسی دور میں بھی اس آئینی ادارہ کوآئین کا پابند بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ہمسایہ ملک بھارت میں بھی انتخابی امیدوار دھونس دھاندلی کے گر آزماتے ہیں مگر پولنگ اور ووٹوں کی گنتی میں ہیر پھیر کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، الیکشن کمیشن کسی بھی حلقے کے الیکشن یا نتائج روکنے کا اختیار رکھتا ہے، کسی امید وار کو اہل، ناہل قرار دینے کا بھی اسے مکمل اختیار حاصل ہے، الیکشن کمشنر کی تعیناتی اگر چہ حکومت ہی کرتی ہے مگر حلف اٹھانے کے بعد حکومتی احکامات کا نہیں بلکہ آئین اور قانون کا پابند ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، پولنگ سٹیشنوں کے باہر دھینگا مشتی دکھائی دیتی ہے مگر پولنگ سٹیشن کے اندر ماحول قانون کے دائرے میں رہتا ہے، مگر ہمارے ہاں حکومتی یا زور آور امیدوار کسی قاعدے قانون کی پرواہ نہیں کرتے، ان کی اپنی لاٹھی اور اپنی بھینس ہوتی ہے، اپنا قانون ہوتا ہے اور اس پر عمل درآمد کیلئے مسلح فورس بھی اپنی ہوتی ہے، نتیجے میں قانون قاعدے نظر انداز ہوتے ہیں بد قسمتی سے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ایسے لوگوں سے صرف نظر کر کے ان کو من مانی کا بھر پور موقع فراہم کرتے ہیں۔
حکومت قانون سازی کرتے وقت بھی ایسے سقم رکھتی ہے جن کو اپنا کر ذاتی، پارٹی اور اپنے امیدواروں کے مفادات کو تحفظ دیا جا سکے، مثلاً نواز شریف نے اپنے دور میں سینٹ الیکشن میں کامیابی یقینی بنانے کیلئے ارکن اسمبلی کو 14ویں ترمیم کے ذریعے مزارع بنا لیا تھا، کوئی رکن پارٹی پالیسی کیخلاف لب کشائی نہیں کر سکتا تھا، پارٹی اقدامات پر تنقید کے دروازے بند کر دئیے گئے، ارکان اپنی مرضی سے ضمیر کی آواز پر ووٹ بھی نہیں دے سکتے تھے، مشرف نے 17ویں ترمیم کر کے ارکان کوآزادی دیدی، نواز شریف کا مقصد اپنی اجارہ داری کا قیام اور ارکان کی بغاوت روکنا تھا، مشرف مخالفین کے ووٹ بھی دھونس سے حاصل کرنا چاہتے تھے، نواز شریف اور زرداری نے مل کر 18ویں ترمیم متعارف کرائی جس کے تحت ارکان کو مشرف کی دی ہوئی آزادی سلب نہیں کی گئی مگر اس کیخلاف ریفرنس بھیجنے کا اختیار پارٹی سربراہ کو تفویض کر دیا گیا، لیکن یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ کسی مخالف کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس پر کارروائی نہ کی گئی، کسی بھی دور میں ہارس ٹریڈنگ کے قانون پر اس کی روح کے مطابق الیکشن کمیشن نے عملدرآمد نہ کیا، نتیجے میں وفاداریاں بدلنے کی روائت جڑ پکڑتی گئی۔
ڈسکہ میں الیکشن کے بعد رونماءہونے والے ناخوشگوار واقعہ کے حوالے سے عوام الناس میں خاصی تشویش ہے، اگر عوامی مینڈیٹ کو منتخب ارکان یا حکومت نے یونہی پامال کرنا ہے تو ووٹ کی توقیر خود امیدوار اور ارکان کے ہاتھوں ملیا میٹ ہو رہی ہے، اگر حالیہ واقعہ کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے بیان کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کی کوئی حیثیت نہیں اگر ان کے رابطہ پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تو ریٹرننگ افسر یا کمتر درجہ کے ملازمین کو کون گھاس ڈالے گا؟ پریزائیڈنگ افسران کی پر اسرار گمشدگی کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے چیف سیکرٹری پنجاب، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کیا مگر کسی نے فون نہ اٹھایا اور کسی نے گول مول بات کر کے ٹال دیا، دلچسپ بات یہ کہ لاپتہ پریزائیڈنگ افسروں میں سے بھی ایک سے ریٹرننگ افسر کا فون پر رابطہ ممکن ہو سکا، ریٹرننگ افسر کے مطابق چار پولنگ سٹیشنوں کے رزلٹ محفوظ اور درست ہیں یعنی 16پولنگ سٹیشنز کے رزلٹ میں ٹمپرنگ ہوئی، ریٹرننگ افسر نے پریزائیڈنگ افسروں کی گاڑی خراب ہونے بارے الیکشن کمیشن کے سوال کہ ڈرائیوروں سے اس حوالے سے تصدیق کی گئی تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا، یہ خاموشی معاملہ کو مزید پر اسرار بناتی ہے، دھند بارے محکمہ موسمیات سے معلوم کر نے کے سوال پر بھی ریٹرننگ افسر خاموش رہے، تاہم انہوں نے کہا کہ پولیس نے ان سے مکمل تعاون کیا، ریٹرننگ افسر کے مطابق سارا ریکارڈ محفوظ ہے۔
یہ صورتحال بیانات میں تضاد سے پر اسراریت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، یہی صورتحال رہی تو سینیٹ الیکشن کی شفافیت بھی مشکوک رہے گی، اس حوالے سے بہت سے اقدامات ضروری ہیں، اگر چہ وزیر اعظم نے شفاف الیکشن کیلئے شو آف ہینڈ کی تجویز دی ہے مگر اپوزیشن کی طرف سے کھلی مخالفت کی جا رہی ہے، یہ مخالفت شفافیت کو مشکوک بناتی ہے اور واضح ہوتا ہے کہ اپوزیشن حکومتی ارکان میں سے کچھ کیساتھ سودے بازی کر چکی ہے، یا کرنے کیلئے کوشاں ہے، ورنہ اوپن بیلٹنگ دھاندلی روکنے کا بہترین ذریعہ ہے۔