سیاسی مطلع وقت کے ساتھ ابرآلود سے بڑھ کر گرد آلود ہوتا جا رہا ہے، سیاسی افق پر چھائی گرد کی اس چادر کے دوسری طرف کچھ دکھائی دے رہا ہے نہ سجھائی دے رہا ہے، اپوزیشن کو زعم ہے حکومت مخالف ان کی تحریک جنوری میں کامیابی سے ہمکنار ہو گی جبکہ حکومتی بنچوں کا کہنا ہے کہ جلد بہت سے اپوزیشن رہنما نیب کے شکنجے میں ہوں گے اور ان کی چیخیں دور دور تک سنائی دیں گی، اس صورتحال میں کوئی درمیانی راہ دکھائی نہیں دیتی بلکہ سیاسی سطح آب پر اتھل پتھل میں مستقبل قریب میں تیزی آتی دکھائی دے رہی ہے، پی ڈی ایم کے کامیاب جلسوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ حکومت مخالف تحریک کا رخ جب اسلام آباد کی طرف ہو گا تو اس میں موجود شدت سے کوئی بڑا سیاسی زلزلہ بھی آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں کایا بھی پلٹ سکتی ہے اور اس کی زد میں کون کون آتا ہے اس بارے میں قیاس آرائی مشکل نہیں۔
اپوزیشن اتحاد کی بڑی جماعت ن لیگ کا المیہ یہ ہے کہ جس اسٹیبلشمنٹ سے وہ درد کی دوا طلب کر رہی ہے اور خواہش رکھتی ہے کہ یہ ادارہ وزیراعظم عمران خان کی پشتیبانی چھوڑ دے اسی ادارے کو چٹکی کاٹنے سے بھی باز نہیں آ رہی اور اپنی شرائط پر کام نکلوانا چاہتی ہے جو مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اس وقت حکومت سمیت تمام ریاستی اداروں کی توجہ کا مرکز کرپشن کا خاتمہ اور ماضی میں کرپٹ افراد سے لوٹی قومی دولت کی واپسی ہے، تحریک انصاف حکومت اگر اس مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے تو آئندہ الیکشن میں اس کی کامیابی بارے پیش گوئی کرنا غلط نہیں ہوگا لیکن اگر اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کے نتیجے میں افراتفری، بدامنی اور انتشار پھیلتا ہے تو یہ ملک و قوم، حکومت اپوزیشن، جمہوریت سب کے لئے نقصان دہ ہو گا۔
سابق وزیراعظم نوازشریف کی سیاسی جانشین مریم نواز نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر مشروط آمادگی تو ظاہر کر دی ہے مگر تحریک انصاف حکومت کو بات چیت سے پہلے گھر بھیجنے اور عمران خان کی پشت پناہی نہ کرنے کی شرط عائد کی ہے، بی بی سی کو انٹرویو میں بات چیت کے اگلے روز ہی سوات میں جلسہ عام کے دوران عوام کو اسلام آباد پر دھاوا بولنے کیلئے تیار رہنے کی ہدائت کر دی، واضح رہے کہ اس سے قبل ان کے والد محترم نوازشریف حساس ادارہ کے افسروں، جوانوں کو غیر آئینی احکامات تسلیم نہ کرنے کا کہہ چکے ہیں، اگرچہ ن لیگ کے اندر نوازشریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ پر مختلف آرا پائی جاتی ہے اس کے باوجود باپ بیٹی کی جارحانہ اور مزاحمانہ سیاست میں کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی، دلچسپ بات یہ کہ ن لیگ کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کا بھی مریم نواز اعتراف کر چکی ہیں، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر، خواجہ آصف نے آرمی چیف سے ملاقات کی ان ملاقاتوں میں کن باتوں پر تبادلہ خیال کیا گیا اس بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں، تاہم گمان ہے کہ بات ریفرنسز، مقدمات کے حوالے سے ہی ہوئی ہو گی۔
ن لیگ ہی نہیں نوازشریف کے بیانیے کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور جمعیت العلماءاسلام میں بھی گروپ بندی واضح ہو چکی ہے، بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) پہلے ہی بٹ چکی ہے اب جمعیت علمائے اسلام کے کئی راہنما بھی اس بیانیے کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس بیانیے کے ذریعے ن لیگ نے مک مکا شروع کر دیا ہے۔ دوسری طرف ن لیگ کی تقاریر سے بھارت میں ابھی تک بغلیں بجائی جا رہی ہیں، قوم میں بھی اس حوالے سے غم و غصہ میں ہے مگر نوازشریف اور مریم نواز اپنے جارحانہ بیانیہ پر نظر ثانی کے لئے تیار نہیں، مریم نواز نے پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں پارٹی کی انتخابی مہم تن تنہا چلائی اور بظاہر کامیاب بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن ان کے مقابل بلاول بھٹو نے زیادہ منظم اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، سروے رپورٹس میں تحریک انصاف کی کامیابی کی پیش گوئیاں ہو رہی ہیں، جی بی میں شیعہ ووٹ زیادہ ہے اور ان کی نمائندہ جماعتیں تحریک اسلامی اور وحدت المسلمین تحریک انصاف کی حمائت کا اعلان کر چکی ہیں، تاہم شیعہ ووٹ پیپلزپارٹی کو بھی ملے گا، اس تناظر میں انتخابی نتائج بارے حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں مگر روائت یہی ہے کہ جس کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے وہی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی حکومت بناتا ہے، ماضی میں ایسا ہوتا رہا اور اب بھی شائد ایسا ہی ہو مگر مخلوط حکومت کا بھی امکان ہے۔
جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ اڑھائی سال کے بعد بھی معاشی صورتحال کو یکسوئی اور دلجمعی سے مستحکم نہیں کر سکی، زراعت، صنعت تجارت، درآمد، برآمدکے شعبوں میں بہتری نہ لا سکی، کسان نے اس حکومت کو ووٹ دیا مگر پنجاب جیسے زرعی صوبے میں بھی کسان پس رہا ہے اور تو اور پنجاب اسمبلی کی طرف سے گندم کی سپورٹ پرائز دو ہزار کرنے کی قرار داد کو بھی وفاق نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔ ٹیکس وصولی کا انتظام درست نہ ہوا، سمگلنگ نہ رکی اور عام شہری کے مسائل حل نہ ہوئے تو پھر تحریک انصاف بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا اور جمہوری نظام پٹڑی سے اترنے کا بھی خدشہ ہے، سچ یہ کہ جمہوریت کے نام پر ملک میں 73 سال سے ڈرامہ ہو رہا ہے ایک تماشا لگا ہے ہر آنے والا اپنی مرضی کی جمہوریت قوم پرمسلط کر دیتا ہے۔ نتیجے میں جمہوریت آج بھی لولی لنگڑی اور بے یارومددگار ہے، حالت یہی رہی تو غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت سے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ شائد اپوزیشن فوری طور پر یہی چاہتی ہے تا کہ احتساب سے جان چھوٹ جائے مگر کیا آنے والے کرپٹ عناصر کو معاف کر دیں گے؟ حکومت کو اب ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، اب ان کو ڈلیور کرنا ہے، معاملات آگے تو بڑھ رہے ہیں مگر ان میں تیزی لانا ہو گی۔