Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Good Governance, Fifty Fifty

Good Governance, Fifty Fifty

میاں منظور وٹو تکنیکی طور پر پنجاب کے تین دفعہ وزیر اعلیٰ رہے مگر ان کا دور حکومت دو اڑھائی سال سے زیادہ نہ رہا، انہوں نے مسلم لیگ جونیجو گروپ سے الیکشن لڑا جس کے اٹھارہ ارکان پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے صوبے میں ان سے دو بڑی پارٹیوں کی حیثیت سے الیکشن جیتا۔ ایک ڈیل کے نتیجے میں مرکز اور پنجاب میں پیپلز پارٹی اور جونیجو لیگ کی مخلوط حکومتیں بنیں تو میاں منظور وٹو پنجاب میں مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔

گزشتہ دنوں نیشنل پبلک فورم کے روح رواں امجد وڑائچ کا فون آیا کہ اس مرتبہ فورم میں میاں منظور وٹو گڈ گورننس کے موضوع پر گفتگو کریں گے اور محترم مجیب الرحمان شامی میزبان ہوں گے۔ وٹو صاحب نے اپنی سیاست کا آغاز یونین کونسل سے کیا، وہ پنجاب کے تین بار سپیکر اور تین بار ہی وزیر اعلیٰ بعد ازاں وفاقی وزیر بھی رہے۔ اپنی سپیکر شپ اور وفاقی وزارت شپ کے دوران انہوں نے بڑی محنت کی جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے انہوں نے صوبے میں گڈ گورننس کے فروغ کے لئے کافی کوشش کی جس کے لئے وہ یاد رکھے جاتے ہیں۔

ہر آئے روز ہم بحیثیت پاکستانی مسائل در مسائل سے دوچار ہیں، اس کی واحد اور واحد وجہ گڈ گورننس کا فقدان ہے، ہر سیاسی جماعت بطور اپوزیشن جن حکومتی اقدامات پر تنقید کرتی ہے اقتدار میں آکر ان سے نجات کے بجائے انہی کو من و عن اپنا لیتی ہے، اپوزیشن میں رہتے حکمرانوں پر تنقید کی جاتی ہے اور حکومت میں آکر جانے والوں کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے، نتیجے میں مسائل حل ہونے کے بجائے مزید سنگین ہو جاتے ہیں، پنجاب میں پچھلی چار دہائیوں میں غلام حیدر وائیں اور میاں منظور احمد وٹو سے اب تک کئی وزیر اعلیٰ آئے مگر چال وہی بے ڈھنگی رہی، میاں منظور وٹو کو اس وقت کی اپوزیشن ن لیگ اور خود انکی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے چین کا سانس نہ لینے دیا اور وہ خواہش اور کوشش کے باوجود کوئی بڑے کارہائے نمایاں نہ انجام دے سکے مگر پنجاب کے دیہات میں انتہائی غریب، بے زمین لوگوں کو انکے رہنے کے لئے تین اور پانچ مرلہ کے پلاٹ دینے کا بڑا کام انہوں نے کیا تھا۔

وٹو صاحب اپنے آپ کو اٹھارہ ارکان اسمبلی کے ساتھ ایک کامیاب وزیر اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گڈ گورننس کے لئے ایک وزیر اعلیٰ کو آئین اور قانون کی بالا دستی قائم رکھنا پڑتی ہے اور انہوں نے اپنی مثال دی کہ قانون کی بالا دستی کے لئے جنرل ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق کو اسلحہ لہرانے پر میں نے گرفتار کر نے کا حکم دے دیا تھا۔ وٹو صاحب نے یہ بھی بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب مجھے وزیر اعلیٰ بنایا تو کہا کہ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور جونیجو لیگ کا حصہ بقدر جثہ ہو گا مگر میں نے اس سے اختلاف کیا اور ففٹی ففٹی کی تجویز پیش کی جو محتر مہ نے مان لی۔ میاں منظور وٹو ماضی میں مختلف جماعتوں کا حصہ رہے، ان دنوں انکی فیملی کے کچھ لوگ تحریک انصاف کا حصہ ہیں مگر انہوں نے اپنے آپ کو تحریک انصاف سے الگ کر لیا ہے، وہ اسکی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ اب وہ کسی اور جماعت میں شامل ہونے کا سوچ رہے ہیں، شائد پیپلز پارٹی انکی اگلی منزل بنے یا کوئی اور جماعت وہ اس سلسلے میں ابھی ففٹی ففٹی ہیں۔

جہاں تک گڈ گورننس کا تعلق ہے تو آئین کے مطابق معاملات کو چلانا اداروں کی ذمہ داری ہے، اگر کوئی حکومت ماضی میں اداروں کو مضبوط مستحکم اور خود مختار بناتی تو بہت سے ایسے کام جن میں ہر حکومت نے وقت اور وسائل ضائع کئے بچ جاتے، اور عوام کو ریلیف مل جاتا قانون کی حکمرانی قائم ہو جاتی اور گڈ گورننس فروغ پاتی۔ وزیر اعظم عمران خان کرپشن کیخلاف اور احتساب کیلئے ایک مدت سے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں مگر نتائج کے اعتبار سے ان دونوں محاذوں پر خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی، بد قسمتی سے ہم آج تک احتساب کا بھی کوئی شفاف نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں، اچھی حکومت میں عوام کے جان مال آبرو کو تحفظ روزگار اور انصاف کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر کسی حکومت نے ان کو اپنا ہدف نہ بنایا، ادارے مستحکم اور با اختیار نہ ہونے کی وجہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کا جن بے قابو ہے، کہیں حکومت کا کنٹرول دکھائی نہیں دیتا۔

تحریک انصاف کی بزدار حکومت نے انتظامی افسروں کی اجارہ داری کے خاتمہ کیلئے طویل عرصہ سے ایک ہی علاقہ میں ایک پوسٹ پر تعینات افسروں کا تبادلہ کر کے گڈ گورننس کے قیام کی ایک کوشش کی مگر اس افراتفری میں بے گناہ افسر بھی زد میں آگئے جس سے بیوروکریسی میں بے دلی پھیلی اور خوف و ہراس کی فضاء قائم ہو گئی جس سے حالات میں بہتری آنے کے بجائے مزید خرابی آئی کچھ عرصہ کیلئے تو انتظامی مشینری مفلوج ہو کر رہ گئی جو نیک شگون نہ تھا اور اس کے اثرات بھی بہت برے برآمد ہوئے، بزدار دور میں کسی ایک ضلع پر تمام فندز خرچ کرنے کے بجائے تمام اضلاع میں ضرورت کے مطابق تقسیم کئے گئے، دور دراز اور پسماندہ علاقوں پر زیادہ توجہ دی گئی، اس کے باوجود عثمان بزدار حکومت کرنے کیلئے مشکلات سے دو چار رہے۔ ان کے دور میں تحریک لبیک کا لانگ مارچ اور اس احتجاج کو خونیں بنانے کی کوشش سب سے زیادہ سنگین تھی۔

ابتداء میں ہی اگر سوچا جاتا کہ عام انتخابات میں تیسرے نمبر کی جماعت بن کر ابھرنے والی تحریک لبیک تشدد پر کیوں مجبور ہوئی، بہت صاف اور سامنے کی بات ہے ماضی میں ان کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر انکی روح سے عمل نہیں ہوا، حکومت نے اس کی قیادت کو گرفتار کر کے جماعت پر پابندی عائد کر کے کالعدم قرار دیدیا، جبکہ معاہدہ کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی، عدالت نے سعد رضوی کی رہائی کا حکم دیا مگر انہیں رہا نہ کیا گیا، ضرورت ان عناصر کی نشاندہی کی تھی جنہوں نے حکومت کو ایسے بے اعتدال فیصلے کرنے پر مجبور کیا۔ اب تحریک لبیک بحال ہو چکی، یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ دوسری طرف اس احتجاج کے دوران انتظامیہ عملی طور پر بھی ناکام رہی، کیوں؟ اس پر بھی سوچا جانا چاہئے۔ ڈپٹی کمشنر کے دفتر کو اب بھی اگر مضبوط نہ کیا گیا تو انتظامی معاملات اور لا اینڈ آرڈر مستقبل میں بھی بہتر نہیں ہو گا۔

خدا را، گورننس کے معاملات پر توجہ دیں، گورننس کو ففٹی ففٹی کے بجائے سو فیصد کریں اگر چہ حکومت کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے، سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو اس عرصہ میں گڈ گورننس قائم کرنا نا ممکن نہیں، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار گڈ گورننس کے بہت بڑے داعی ہیں اور اس ضمن میں اپنی کوششوں میں بھی مصروف ہیں، دونوں نے اچھی ٹیم بھی تشکیل دے لی ہے اب ان سے کام لینے کی ضرورت ہے، ہدف دیں، اختیار دیں نتائج لیں، جس کو ہدف دیں اس پر اعتماد بھی کریں، اس کے بغیر گڈ گورننس ممکن نہیں۔