تھانہ اور پٹوار کلچر، قانون کے مطابق درست راستے پر استوار ہو جائے تو اکثر لوگوں کو انصاف خود بخود ہی مل جاتا ہے، انہیں اس کے حصول کےلئے عدالتوں کے دروازے پر دستک دینا پڑتی ہے نہ کسی محتسب کے سامنے زنجیر عدل ہلانا پڑتی ہے اور یوں عوامی مسائل بھی رفتہ رفتہ دم توڑ جاتے ہیں۔ زمین، مکان، دکان پر غیر قانونی قبضہ کے معاملات کو بڑھاوا ہی اس لئے مل رہا ہے کہ ہمارا پٹوار کا نظام بگڑا ہوا ہے، یہی حال تھانوں کا بھی ہے ماتحت عدلیہ میں بھی صورتحال تشویشناک ہے مگر ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں اندھیر نگری چوپٹ راج رہتا ہے۔ موجودہ بزدار حکومت اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود صوبے کے اکثر انتظامی معاملات کو سٹریم لائن کر سکی ہے نہ کرپشن کے سامنے بند باندھ سکی ہے مگر کچھ محکموں میں بہتری کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان محکموں میں ریوینیو اور ایل ڈی اے بھی شامل ہیں، پنجاب بیوروکریسی کے دو تارڑ ان محکموں کے سربراہ ہیں، بڑے تارڑ یعنی گریڈ بائیس کے بابر حیات تارڑ نے تو بورڈ آف ریوینیو کی جون ہی بدل دی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اپنی محنت اور لیاقت کی وجہ سے وہ شائد پنجاب میں وزیر اعظم عمران خان کے سب سے پسنددیدہ افسر بن گئے ہیں، پچھلے چند ماہ میں وزیر اعظم نے بے شمار دفعہ انکی تعریف کی ہے اور اب وزیر اعظم ایل ڈی اے کے تعریفیں کرتے پائے گئے ہیں جس کے سربراہ چھوٹے تارڑ یعنی گریڈ بیس کے احمد عزیز تارڑ ہیں۔
ایل ڈی اے نے لاہور کے شہریوں کو اپنا گھر فراہم کرنے کے حکومتی منصوبے کو کامیابی سے آگے بڑھایا ہے، لاہور میں ایل ڈی اے کے زیر اہتمام بہت بڑا رہائشی منصوبہ رائیونڈ روڈ پر تیار کیا جا رہا ہے، جس میں بے گھر افراد کو مرحلہ وار ہزاروں بنے بنائے گھر الاٹ کیے جائیں گے۔ غریب اور کم آمدنی والے لوگوں کو پلاٹ اور گھر پہلی حکومتیں بھی دیتی رہی ہیں مگر موجودہ حکومت کی یہ بہت ہی کامیاب سکیم ہے جسکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ گھر کی ادائیگی اتنی آسان اقساط میں دیں گے جتنا اس گھر کا کرایہ ہوتا ہے اور اس کے لئے انتہائی کم شرح سود پر قرضہ پنجاب بنک دے گا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بے گھر افراد کو گھروں کے لئے قرضہ انتہائی کم شرح سود پر ملتا ہے اور اب پاکستان میں اس سکیم کا شروع ہونا قابل تعریف ہے۔
بے گھر افراد کیلئے گھر اور اپارٹمنٹس کی فراہمی منصوبہ میں بھی احمد عزیز تارڑپیش پیش ہیں اور لاہور میں متعدد مقامات پر زمین مختص کر دی گئی ہے، جبکہ 40ہزار فلیٹس کی تعمیر کے منصوبہ کا افتتاح گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے خود کیا، یہ فلیٹ مختصر وقت میں تعمیر کر کے درخواست گزاروں کو فراہم کئے جائیں گے، اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے منصوبہ پر بریفنگ لینے کے بعد ایل ڈی اے کی تعریف کی اور ان کی کوششوں کو سراہا۔
بورڈآف ریونیو کے سینئر ممبر با بر حیات تارڑ نے جب سے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے محکمہ کو خود کار بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں، بابر تارڑ نے شہریوں کی شکایات کے فوری ازالہ کا بھی بہترین بندوبست کیا ہے، محکمہ میں کرپشن کو ختم کرنے کیلئے بھی حقیقی اقدامات بروئے کار لائے ہیں، حکومت نے صوبہ میں اراضی کی کمپیوٹرائزیشن کا اہتمام کیا مگر یہ نظام پرانے نظام سے بھی زیادہ خرابی کا باعث بنا، زندہ شخص کو مردہ اور مردہ کو زندہ قرار دے دیا گیا، باپ کو بیٹا اور بیٹے کو باپ بنا دیا گیا، کسی کا رقبہ کسی کے نام چڑھا دیا گیا، اب بھی نقل حاصل کرنے یا فرد بنوانے کیلئے پٹواریوں کے رجسٹروں سے ہی مدد لینا پڑتی ہے، مگر بابر تارڑ نے اس نظام میں پائی جانے والی کوتاہیوں اور خرابیوں کا سختی سے نوٹس لیا، اور رجسٹرارآفس میں پٹواریوں کی موجودگی یقینی بنائی تاکہ فرد لینے یا انتقال کرانے کیلئے آنے والے سائل کو کئی کئی ہفتے دھکے نہ کھانا پڑیں، کمپیوٹرائزیشن کے نظام کو بھی بہتر سے بہترین بنانے کیلئے نتیجہ خیز اقدامات کئے جس کے نتیجے میں کمپیوٹرائزیشن نظام کے فوائد عوام کو ملنا شروع ہو گئے، بابر تارڑ کا قبضہ گروپوں سے لاکھوں ایکڑ قیمتی سرکاری اراضی واگزار کرانا بہت بڑا کارنامہ ہے، ان میں ایسے قبضہ گروپ بھی شامل ہیں جو سابق حکومتوں کے چہیتے تھے اور جن کی بد معاشی قائم تھی، شہری تو شہری پولیس بھی ان کا دم بھرتی اور ان کے خلاف کسی بھی درخواست پر کارروائی سے گریز کرتی تھی، بلکہ مظلوم شہری کو قبضہ گروپ سے مل بیٹھ کے معاملات طے کرنے پر زور دیا کرتی تھی، مگر آج محکمہ ریونیو میں بہتری آ چکی ہے اور ہر کام استحقاق کی بنیاد پر بغیر سفارش اور رشوت انجام پاتا ہے۔
راقم اس سے پہلے بھی یاد دہانی کرا چکا ہے کہ اچھے، قابل، تجربہ کار اور محنتی افسروں کی کمی نہیں، تاہم اس کیلئے باریک بینی سے تلاش کی ضرورت ہے، بیوروکریسی کے افسروں کی ماضی کی کارکردگی، سیاسی وابستگی، تربیت اور تعلیم کو مد نظر رکھ کر ان کی تعیناتی کی جائے انکو کام کرنے کیلئے اچھا ماحول اور فری ہینڈ دیا جائے، مگر ٹاسک بھی دیا جائے، اور ان کی کارکردگی پر نظر رکھی جائے تاکہ افسر کو کام کرنے کا موقع ملے گا مگر ٹاسک دیا جائیگا تو وہ کارکردگی بھی دکھا سکے گا، اور اگر افسر کو فری ہینڈ ملے گا تو اسے سیاسی دباؤ میں آئے بغیر فرائض منصبی ادا کرنے کا موقع ملے گا، جس سے بیوروکریسی کو ہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی فائدہ ہو گا، حکومت عوام سے انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کی تکمیل بھی کر سکے گی۔
دنیا مانتی ہے بیوروکریسی انتظامیہ اور اصل حکمرانی بھی انتظامیہ ہی کی ہوتی ہے اگر انتظامی افسران کو با اختیار کیا جائے، ان پر اعتماد کیا جائے تو حکومت کیلئے انتظامی معاملات کو چلانا بہت آسان ہو جائے گا، جب بیوروکریسی اپنے فرائض منصبی قانون کے مطابق انجام دیگی تو کوئی وجہ نہیں کہ عوامی مسائل کا فوری تدارک نہ کیا جا سکے، جیسے بابر حیات تارڑ اور احمد عزیز تارڑ کو فری ہینڈ دیا گیا تو انہوں نے نتائج بھی دئیے، اور ایسی کارکردگی دکھائی کہ خود وزیر اعظم عمران خان بھی انکی تعریف پر مجبور ہو گئے، اسی طرح دیگر قابل افسروں پر بھی اعتماد کیا جائے تو مثبت نتائج نہ ملنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔