پرویز ملک صاحب سے میری دوستی نہیں شناسائی تھی۔ پیر کی صبح مگر کالم لکھ کر دفتر بھیجنے لگا تو ان کے انتقال کی خبر آئی۔ جی اس کے بعد بہت اداس ہوگیا۔ غالباََ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ جو کالم لکھا تھا وہ بھی جہان فانی سے رخصت ہوئی ایک اور شخصیت کے بارے میں تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم کے برعکس قومی اسمبلی کے لاہور سے کئی باررکن رہے پرویز ملک صاحب میرے شہر کے ایک محاورے کے مطابق نیوے نیوے رہ کر زندگی گزارنے والی شخصیت تھے۔ تعلق ان کا لاہور کے ایک معروف اور بااثر خاندان سے تھا۔ ایسے خاندانوں کے چند افراد فطری طورپر کم گو اور منکسر المزاج ہوتے ہیں۔ رنگ بازی کے عادی نہیں ہوتے۔ ان کی متانت ووقار ہی ان کی اصل شناخت ہوتے ہیں۔ مجھ ایسے گلیوں سے اٹھے لہوری بھی انہیں جبلی طورپر جان لیتے ہیں۔ بڑھک بازی ان کا شیوہ نہیں ہوتی۔
ملک صاحب نے پھنے خانی دکھائے بغیر اچھے اور بُرے وقتوں میں نواز شریف اور ان کے خاندان کا ثابت قدمی سے ساتھ نبھایا۔ ان کی اہلیہ محترمہ شائستہ پرویز بھی قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔ ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہتی ہیں۔ قومی اسمبلی کی راہداری میں کبھی مل جائیں تو میں لہوری تعلق کی بنا پر انہیں نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت میں مزاحمت یا مفاہمت کے حوالے سے ہوئی تفرق پر جگت بازی سے تنگ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لاڈلی بہن کی طرح وہ مجھے خاموش کروادیتی ہیں۔ ربّ کریم انہیں صبر عطا فرمائے۔ جس دُکھ کا سامنا کررہی ہوں گی اس کا تصور بھی ذہن میں لاتے ہوئے اگرچہ گھبرارہا ہوں۔
ملک صاحب کے انتقال پر ملال کی خبر نے ذہن کو مائوف نہ کردیا ہوتا تو ارادہ باندھا ہوا تھا کہ 12اکتوبر کی صبح اُٹھ کر اسی دن 1999ء میں ہونے والے چند واقعات کا ذکر کروں گا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس دن کی سہ پہر جنرل مشرف کی بطور آرمی چیف برطرفی کا اعلان کیا۔ ان کی جگہ ضیاء الدین صاحب کو چیف آف آرمی سٹاف کے ستارے لگادئیے۔ یہ سارا عمل پی ٹی وی پر چل گیا تو میں ردعمل کا جائزہ لینے گھر سے نکل گیا۔ ذات کے رپورٹر کو بخوبی علم تھا کہ وہ کیا کریں گے جواب میں اور بالآخر وہی ہوا جس کی مجھے توقع تھی۔
نواز شریف کی سیاست کا میں ہرگز مداح نہیں تھا۔ ان کے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مارکہ چند مصاحبین نے بلکہ میری زندگی ان کے دور اقتدار میں کئی اعتبار سے اجیرن بنارکھی تھی۔ اس کے باوجود ردعمل آیا تو مجھے قطعاََ خوشی نہیں ہوئی۔ جی اداس ہوگیا۔ بے بسی سے فقط یہ طے کرپایا کہ وطن عزیز میں جمہوریت نام کا جانور دائروں ہی میں سفر کرنے کو مجبور ہے۔ پنجابی محاورے والی گدھی کی طرح ہم برگد کے اس درخت تلے اِدھر اُدھر گھوم کر واپس لوٹ آتے ہیں جہاں سے "میرے عزیز ہم وطنو" کا اعلان ہوتا ہے۔ 1999ء کا بارہ اکتوبر یا دآتا ہے تو بے تحاشہ واقعات بھی اس دن کے تناظر میں ذہن میں امڈ آتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے واقعات بھی ہیں جنہیں بیان کرنے کا ہنر دریافت کرلوں تو کھڑکی توڑ رش لینے والا کامیڈی ڈرامہ لکھا جاسکتا ہے۔ لوکیشن اس ڈرامے کی پاکستان ٹیلی وژن کا اسلام آباد مرکز ہوسکتا ہے۔ پھکڑپن کی مگر اب تاب نہیں رہی۔ میرے اندر موجود مخولیہ مرچکا ہے۔
سنجیدگی سے مگر سوچیں تو 2021ء کے 16اکتوبر سے بھی اسلام آباد میں کچھ ہورہا ہے جو 1999ء کے 12اکتوبرکو دہرانے کا خوف دلاتا ہے۔ اس ضمن میں تفصیلات سمیت اپنے دل میں جمع ہوئے خیالات بیان کرنے کی لیکن مجھ میں ہمت نہیں۔ عرصہ ہوا ویسے بھی کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے کا عادی ہوچکا ہوں۔ میرے اگرچہ کئی ساتھی ہیں جو ٹی وی سکرینوں پر اب بھی آئیں تو کھل کر بات کرتے ہوئے رونق لگادیتے ہیں۔ اپنی حق گو ئی اور بے باکی سے ریٹنگز کو شرطیہ یقینی بنانے والے یہ صاحبان بصیرت بھی تاہم مذکورہ معاملہ کی بابت "اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ" والی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
نوبت بہ ایں جارسید کہ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط عصر جواِن دنوں وزارت داخلہ کے مدارالمہام بھی ہیں پیر کے دن ایک پریس کانفرنس میں تشریف لائے۔ موصوف نے اپنی شہرت منہ پھٹ کی بنارکھی ہے۔ دیوار کے پاردیکھنے کی قوت سے مالال ہونے کے دعوے دار بھی ہیں۔ 2008ء سے 2013ء کے درمیان وہ ٹی وی اینکروں کو ون آن ون انٹرویو دینا شروع ہوگئے۔ ان کے دوران کامل رعونت سے ہمارے چند رعب دار اداروں کو ستو پینے کے طعنے دیا کرتے تھے۔ نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ سے ان دنوں میم اور شین نکلتے بھی دیکھ رہے ہیں۔ جس موضوع کا میں کامل احتیاط سے ذکر کررہا ہوں اس کی بابت پیر کی پریس کانفرنس میں سوال اٹھا تو یہ کہتے ہوئے غچہ دے گئے کہ حکومتی ترجمان جناب فواد چودھری سے اس کی بابت استفار کیا جائے۔ پرویز خٹک سے بھی رجوع کا مشورہ دیا۔
یہ بات برحق کہ خٹک صاحب پاکستان کے وزیر دفاع تصور ہوتے ہیں۔ وہ مگر اپنی وزارت کے بارے میں اتنے ہی باخبر ہوسکتے ہیں جتنا افغانستان میں طالبان حکومت کا کوئی وزیر بحری امور کے بارے میں۔ خٹک صاحب مگر "ہم کو عبث بدنام کیا" والا گلہ بھی نہیں کرتے۔ میری طرح کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتے ہیں۔ ان کا کونا اگرچہ بہت کشادہ اور راحتوں سے مالا مال ہے۔ دہی بھی یقینا بہت خالص اور ملائی کی موٹی تہوں والا ہوگا۔
دریں اثناء ہمارے وزیر اعظم دنیا کو سمجھائے چلے جارہے ہیں کہ امریکہ سے غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزاد ہوئی طالبان حکومت کو جلد از جلد تسلیم کرلیا جائے۔ اسے اگر استحکام نصیب نہ ہوا تو ہم 1997میں لوٹ جائیں گے۔ طالبان حکومت کی وکالت کرتے ہوئے عمران خان صاحب کو شاید ابھی تک کسی نے یہ اطلاع فراہم نہیں کی ہے کہ مذکورہ بندوبست کے وزیر ہوا بازی ہماری پی آئی اے سے ان دنوں شدید ناراض ہیں۔ ان کی دلجوئی کے لئے ہمارے وزیر ہوا بازی جناب غلام سرور خان کو ذاتی پیش قدمی لینا ہوگی وگرنہ پی آئی اے کے ذریعے پاکستان سے افغانستان کا سفر دشوار تر ہوسکتا ہے۔