ہوش سنبھالتے ہی میرے ذہن میں یہ بٹھایا گیا تھا کہ پاکستان کی ریاست اور عوام کو یکسو ہوکر کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کروانا ہوگا۔ وہاں آباد مسلمانوں سے مذہبی وابستگی کے علاوہ کشمیر ہماری شہ رگ یوں بھی ہوئی کہ ہمارے ہاں بہتے تمام دریائوں کے منبع بھی اسی خطے میں ہیں۔
بچپن میں آپ کے ذہن میں کئی باتیں جاگزیں کی جاتی ہیں۔ جوانی کی بدولت میسر ہوئی خودمختاری آپ کو ان میں سے کئی باتیں بھول جانے کو مجبور کردیتی ہے۔ چند خیالات کی بابت سوال اٹھاتے ہوئے آپ عمومی رائے سے مختلف سوچ بھی اپناسکتے ہیں۔ رزق کمانے کے لئے تاہم مجھے صحافت کا رخ کرنا پڑا۔ رپورٹنگ مقدر ہوئی تو پاک-بھارت تعلقات پر نگاہ رکھنا بھی میری صحافتی ذمہ داری بن گیا۔ اس تناظر میں طویل برسوں تک باقاعدگی سے بھارت جاتا رہا ہوں۔
مقبوضہ کشمیر کے بے تحاشہ افراد سے اس کی وجہ سے گہرے مراسم بھی قائم ہوگئے۔ صحافیانہ غیر جانب داری برقرار رکھنے کے باوجود ذاتی مشاہدے سے دریافت کرلیا کہ دلی میں بیٹھی سرکار کشمیر کو سامراجی ممالک کی طرح اپنی نوآبادی تصور کرتی ہے۔ اس کے جبر تلے محصور ہوئے کشمیریوں کی بے پناہ اکثریت انتہائی جذباتی انداز میں اپنی غلامی سے نجات حاصل کرنے کو پاکستان کی جانب دیکھتی ہے۔
اس رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے شدت سے یہ گماں لاحق رہا کہ پاکستان کی ریاست اور عوام اگست 2019میں مودی سرکار کے لئے اس فیصلے کو ہرگز برداشت نہیں کرپائیں گے جس کے ذریعے ماضی کی ریاست جموں وکشمیر کو آئینی اعتبار سے میسر خودمختاری ختم کردی گئی اور جغرافیائی اعتبار سے بھی اسے دوحصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ نہایت عاجزی سے اعتراف کررہا ہوں کہ ہماری جانب سے متوقع مزاحمت ٹھوس اعتبارسے ہوتی نظر نہیں آئی۔ فقط تقاریر سے بلکہ مٹی پائو والا رویہ اپنایا گیا۔
اپنی شہ رگ کہلاتے خطے کے ساتھ ہوئے سلوک کی بابت نظر آئی اس بے اعتنائی کے تناظر میں ہماری ریاست وحکومت کی افغانستان کے حوالے سے اپنائی فکرمندی اور بے چینی میرے جھکی ذہن کو اکثر تلملادیتی ہے۔ ہماری شدید خواہش ہے کہ نام نہاد عالمی برادری طالبان کی کابل واپسی کے بعد قائم ہوئے حکومتی بندوبست کو فوراََ تسلیم کرے۔ امریکہ نے اس ملک کے غیر ملکی ذخائر کو فریز کررکھا ہے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کے بینک دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کاروبارمیں شدید مندی ہے اور غیر جانب دار محققین وتبصرہ نگاروں کا اصرار ہے کہ طالبان کا مقاطعہ جاری رہا تو افغانستان کی آدھی آبادی فاقوں سے مرنا شروع ہوجائے گی۔ کم سن بچے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھو ں کی تعداد میں زندہ نہ رہ پائیں گے۔
افغانستان کے مستقبل کی بابت جو ہولناک خبریں آرہی ہیں انہیں کوئی پتھر دل ہی نظر ا نداز کرسکتا ہے۔ مجھ سے تو پرندوں اور جانوروں کی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی اور افغانستان کے حوالے سے لاکھوں افراد کی اموات کا ذکر ہورہا ہے۔ اس کے بارے میں بے اعتنائی اختیار کرنا مجرمانہ سنگ دلی ہے۔
یہ اعتراف کرنے کے بعد عالمی سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے لیکن آپ کو یاد دلانا بھی لازمی تصور کرتا ہوں کہ ریاستوں کے سینوں میں دل نہیں ہوتے۔ ان کے فقط مفادات وترجیحات ہوتے ہیں اور انتہائی سفاکی سے وہ اپنی پالیسیاں ان کے تحت ہی تشکیل دیتی ہیں۔ ہماری جانب سے افغانستان کے حوالے سے نام نہاد عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کی لہٰذا جو کاوشیں ہورہی ہیں مذکورہ تناظر میں کسی کام نہیں آئیں گی۔
رواں ہفتے کی 19تاریخ کو پاکستان اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے ایک ہنگامی اجلاس کی میزبانی کرنا چاہ رہا ہے۔ ایسی کانفرنس ہم اگست 2019کے فوراََ بعد کرنے میں ناکام رہے۔ مودی سرکار کے لئے اقدامات کی کماحقہ مذمت اس فورم کے ذریعے نہیں کر پائے۔ افغانستان کی بابت دہائی مچانے کو اگرچہ ہمارے برادر ملک آمادہ ہوگئے ہیں۔ یہ سوال تاہم اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ مذکورہ کانفرنس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کونسے ٹھوس اقدامات کے ذریعے افغانستان کے بارے میں نرم دلی اختیار کرنے کو مائل کرسکتی ہے۔
ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں نے ہمیں فروعات میں الجھا کر کنوئیں کے مینڈک بنارکھا ہے۔ 15اگست 2021کے دن سے امریکہ اور اس کے اتحادی جس ذلت آمیز انداز میں افغانستان سے فرار ہوئے اس نے واشنگٹن میں بیٹھی اشرافیہ کو چراغ پا کردیا۔ امریکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بیٹھے کئی سرکردہ اراکین نے ٹی وی سکرینوں پر براہ راست دکھائے اجلاسوں کے دوران اپنے جرنیلوں کو سخت ترین سوالات اٹھاتے ہوئے دیوار سے لگائے رکھا۔
امریکی صدر بائیڈن کی بھی اس ضمن میں مسلسل بھد اڑائی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں فقط طالبان ہی نہیں پاکستان کو بھی ان کا سرپرست بتاتے ہوئے امریکی ذلت ورسوائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ طیش وغضب کے اس عالم میں سفاک اشرافیہ انسانی مسائل پر غور کے قابل نہیں رہتی۔ امریکہ کی فیصلہ ساز اشرافیہ کی اجتماعی سوچ کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیں تو بآسانی دریافت کیا جاسکتا ہے کہ وہ افغانستان کو اپنا درد سر تصور نہیں کرتی۔ وہ مصر ہے کہ طالبان اور ان کے حامی امریکہ کو افغانستان کا قابض ملک شمار کرتے تھے۔
اس قبضے سے نجات کے لئے 20سال تک پھیلی جنگ ہوئی۔ اس جنگ کے دوران جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال ہوا۔ فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے بربریت کی آخری حدوں تک چلے گئے۔ بالآخر امریکہ کو ذلت ورسوا ہوکر افغانستان سے فرار ہونا پڑا۔
ذاتی طورپر عرصہ ہوا میں نے خارجہ امور کی بابت عملی رپورٹنگ ترک کررکھی ہے۔ میرے جو ساتھی ان پر نگاہ رکھتے ہیں ان میں سے کئی ذمہ دار افراد نے کامل پریشانی سے مجھے بتایا ہے کہ کابل، اسلام آباد یا واشنگٹن میں جب ان کی امریکی حکام سے گفتگو ہوئی تو ان کا اجتماعی رویہ پاکستان کے بارے میں شدید مخاصمانہ تھا۔ طالبان کی کابل میں فاتحانہ واپسی کے بعد ہمارے وزیر اعظم نے ایک بیان دیا تھا۔ اس کے ذریعے انہوں نے اعلان کیا کہ افغانوں نے بالآخر غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ میرے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ واشنگٹن میں بیٹھے کئی اہم فیصلہ سازوں نے مذکورہ بیان کو واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیا۔
ان فیصلہ سازوں کا عمومی رویہ اب یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کو جدید جمہوری ملک بنانے میں یقینا ناکام رہا ہے۔ امریکی شکست کو مکارانہ انداز میں تسلیم کرنے کے بعد مگروہ کندھے اچکا کر یہ پیغام دینے کو بھی بضد رہتے ہیں کہ افغانستان چونکہ طویل مزاحمت کے بعد آزاد وخودمختار ملک بن گیا ہے تو اب وہاں جو مسائل ابھررہے ہیں ان کا حل فراہم کرنابھی طالبانی بندوبست کی ذمہ دار ی ہے۔ طالبانی بندوبست اگر اپنے عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو نئی خانہ جنگی کے اثرات یقینا افغانستان کے ہمسایہ ممالک تک بھی پہنچیں گے۔
پاکستان، ایران، ازبکستان اور تاجکستان اس ضمن میں سرفہرست ہیں۔ روس اور چین کے لئے بھی وہ تشویش کا باعث ہوں گے۔ امریکہ سات سمندر پار ہوتے ہوئے لیکن ممکنہ اثرات سے محفوظ رہے گا۔ اسے افغانستان کی بابت فکر مند ہونے کی لہٰذا ضرورت نہیں۔ اب افغانستان جانے اور اس کے ہمسائے۔ امریکہ اس کے حالات سدھارنے کے لئے مزید وقت اور سرمایہ ضائع کیوں کرے۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ اسلام آباد میں بہت تگ ودو کے ذریعے ہونے والا او آئی سی کا وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس مذکورہ بالا رویے کو کیسے بد ل سکتا ہے۔