پاکستان کی وزارت خارجہ نے نظر بظاہر امریکہ کے مشہور نشریاتی ادارے -سی این این- کی دی ہوئی ایک خبر کی تردید کردی ہے۔"نظر بظاہر" میں نے روانی میں نہیں لکھا۔ کافی سوچنے کے بعد لکھنے کو مجبور ہوا۔ مزید وضاحت سے قبل یاد دلانا ضروری ہے کہ سی این این نے اپنی خبر کے ذریعے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ ایک معاہدہ تیاری کے مراحل سے گزررہا ہے۔ اس کی حتمی منظوری اور اطلاق کے بعد امریکہ کو پاکستان کی فضائوں سے افغانستان پر ڈرون طیاروں کے ذریعے کڑی نگرانی کا اختیار مل جائے گا۔ ہماری فضائوں سے گزرے جہاز یا میزائل افغانستان میں القاعدہ یا داعش سے منسوب دہشت گردوں کو نشانہ بھی بناسکیں گے۔
سی این این کے تین رپورٹروں نے باہم مل کر مذکورہ خبر تیار کی تھی۔ اس کے لئے مواد انہوں نے امریکہ کے چند اراکین پارلیمان سے گفتگو کے بعد جمع کیا۔ ان اراکین کے لئے بائیڈن انتظامیہ نے گزرے جمعہ کے روز ایک خفیہ بریفنگ کا اہتمام کیا تھا۔ کیمروں سے خفیہ رکھی یہ بریفنگ چند دن قبل کیمروں کے روبرو ہوئی ایک اور بریفنگ کی دوسری کڑی تھی۔
اس سے قبل جو بریفنگ ہوئی تھی اس میں شامل زیادہ تر اراکین پارلیمان نے جن میں سے اکثر کا تعلق سابق امریکی صدر ٹرمپ کی ری پبلکن جماعت سے تھا اپنے جرنیلوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے 15اگست 2021کے روز سے شروع ہوئے ذلت آمیز انخلاء کا وہ کماحقہ دفاع نہ کر پائے۔ میں نے ڈاکٹروں کی سخت ہدایات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس ضمن میں ہوئی اس بریفنگ کو تفصیل اور بہت غور سے لیپ ٹاپ پر سنا ہے۔
مذکورہ بریفنگ کے دوران امریکی اراکین پارلیمان مصر رہے کہ قطریا متحدہ عرب امارات سے اڑائے ڈرون طیارے افغانستان تک پہنچنے میں بہت دیر لگاتے ہیں۔ دہشت گردوں کی بروقت سرکوبی کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں سے کسی ایک سے یہ جہاز اڑائے جائیں۔ پاکستان اور ایران افغانستان کے قریب ترین ہمسائے ہیں۔ ایران سے امریکہ کے سفارتی تعلقات بھی موجود نہیں ہیں۔ 1980کی دہائی سے پاکستان البتہ امریکہ کا افغانستان کے حوالے سے قریب ترین حلیف رہاہے۔ نائن الیون کے بعد ازبکستان اور خاص کر تاجکستان بھی امریکہ اور نیٹو ممالک کی افواج کے مددگار رہے۔ یہ دونوں ممالک مگر روس کی سرپرستی کے محتاج ہیں اور روس ان دنوں امریکہ سے خارکھائے ہوئے ہے۔
مذکورہ حقائق امریکی اراکین پارلیمان نے اپنے جرنیلوں کے روبرورکھے تو انہوں نے تجویز پیش کی کہ ایک خفیہ بریفنگ کا ہتمام ہوجائے تو وہ بیان کردیں گے کہ مذکورہ بالا تناظر میں کونسے ملک سے بات چیت جاری ہے اور اس کے نتیجے میں کیا حاصل ہونے کی امید ے۔ گزرے جمعہ کے روز مجوزہ بریفنگ ہوگئی۔ سی این این کے رپورٹروں نے اس میں موجود چند اراکین پارلیمان سے رابطہ کیااور پاکستان کے تعاون کی امید دلادی۔ ہماری وزارت خارجہ نے مگر اس کی تردید کردی ہے۔ اس تردید کو "نظربظاہر" میں نے تردید کے لئے استعمال ہوئے جملوں کی ساخت کو غور سے پڑھنے کے بعد ہی کہا ہے۔
ہماری وزارت خارجہ درحقیقت یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے نام نہاد عالمی برادری سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تعاون فراہم کررہا ہے۔ اس تعاون کے لئے تیار ہوا بندوبست اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ مختصراََ یوں کہہ لیں کہ پاکستان کی وزارت خارجہ دعویٰ کررہی ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی نگرانی کے لئے امریکہ سے کسی نئے معاہدے کی ضرورت نہیں ہے۔"تعاون برائے انسداد دہشت گردی" کے نام پر لیکن ماضی میں جو بندوبست ہوا تھا اس کی بدولت امریکہ کوہماری سرزمین پر جیکب آباد میں واقعہ ایک ہوائی اڈہ کا وسیع رقبہ بھی دیا گیا تھا۔ افغانستان کی نگرانی کرنے والے طیارے قطر یا متحدہ عرب امارات کے بجائے وہاں سے پرواز کرتے تھے۔ جنرل مشرف کا دور ختم ہوا تو اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے امریکہ کو وہ اڈہ استعمال کرنے کی مزید اجازت دینے سے انکار کردیا۔
سفارت کاری کا طالب علم ہوتے ہوئے میں یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ امریکہ اپنے جاسوسی طیاروں کو بروقت اور سرعت سے افغانستان بھیجنے کے لئے ماضی میں طے ہوئے مذکورہ بندوبست کے احیاء کا متلاشی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب اگرچہ اس تناظر میں چند ہفتے قبل Absolutely Notکا اعلان کرچکے ہیں۔ مذکورہ اعلان کا ضرورت سے زیادہ حوالہ دینے کی مگر ضرورت نہیں۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے عمران خان صاحب یہ بھی اعلان کیا کرتے تھے کہ وہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات کے حل کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے۔ اگست 2018میں اقتدار میں آنے کے بعد مگر وہ فقط چند مہینوں تک ہی آئی ایم ایف کو نظر انداز کرپائے۔ اپنے چہیتے اور معاشیات کے حوالے سے انتہائی ذہین وفطین تصور ہوتے وزیر خزانہ اسد عمر صاحب کو انہوں نے واٹس ایپ پر دئیے ایک پیغام سے فارغ کیا۔ ان کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ تعینات ہوئے۔ انہوں نے ستمبر2022تک لاگو رہنے والے ایک معاہدے کا آئی ایم ایف سے اہتمام کیا۔ امریکی ڈالر کے بدلے پاکستانی روپے کی قدر مذکورہ معاہدے کی وجہ ہی سے مسلسل گررہی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ بھی اسی معاہدے کا شاخسانہ ہے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ بھی اب فارغ ہوچکے ہیں۔ ان کی جگہ شوکت ترین تعینات ہوئے۔ رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وہ نہایت اعتماد سے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر دہراتے رہے کہ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہوا ہے وہ پاکستانی معیشت کا کباڑہ نکال دے گا۔ ہم بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اگست کے وسط سے اب تک مگر بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت میں پانچ روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔
مذکورہ اضافے کے باوجود آئی ایم ایف ہمیں ایک ارب ڈالر کا سہارا فراہم کرنے کو آمادہ نہیں ہورہا۔ مصر ہے کہ ا ٓئندہ چھ مہینوں میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بتدریج 30روپے جی ہاں دہرارہا ہوں مزید 30روپے کا اضافہ کیا جائے۔ یہ اضافہ ہوگیاتو ہم اپنے گھرں میں بجلی کا ایک بلب بھی جلانے سے قبل سو بار سوچیں گے۔ ہمارے کار خانوں میں تیار ہوئی مصنوعات عالمی منڈی میں مقابلے کے قابل نہیں رہیں گی۔ آئی ایم ایف کے اصرار پر نہایت توجہ سے غور کریں تو آپ بآسانی "لسے دا کی زور" والامصرعہ یاد کرسکتے ہیں اور شاید یہ سوچنے کو مجبور بھی کہ سی این این کی دی ہوئی خبر اتنی غلط بھی نہیں تھی۔