دنیا کے کئی ممالک اور خطوں میں کسی نہ کسی نوع کے دنگافساد ہمہ وقت ہورہے ہوتے ہیں۔ ہماری اکثریت کو مگر اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔ یہ بڑھک لگانے کی لیکن ہمیں بیماری ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہوئے پاکستان کی ریاست، حکومت اور عوام یکسو ہوکر دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں کی فکر میں مسلسل مبتلا رہتے ہیں۔ کاش یہ دعویٰ مبنی بر حقیقت ہوتا۔
مذکورہ دعویٰ پر سوال اٹھانے کی جسارت اس لئے کی ہے کہ چند دہائیاں قبل تک قائم رہے برطانوی ہند کا ایک علاقہ برما بھی ہوتا تھا۔ رنگون اس کا دارالحکومت تھا جہاں ایک مشہور فلمی گیت کا پیا بھی چلاگیا تھا اور وہاں سے فون کرکے اپنی محبوبہ کو بتاتا کہ "تری یاد ستاتی ہے "۔ مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی اپنی معزولی کے بعد زندگی کے آخری ایام وہاں بسر کرنا پڑے تھے۔ برما کو اب میانمار کہا جاتا ہے۔
مذکورہ ملک کا جو حصہ بھارتی صوبہ آسام اور بنگلہ دیش سے ملحق یا سمندری راستے سے قریب پڑتا ہے وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوا کرتی تھی۔ برما کی نسل پرست فوج ان کی جداگانہ شناخت سے مگر ہمیشہ خفارہی۔ بالآخراس نے بدھ ازم کے چند انتہا پسند عناصر کی سرپرستی کرتے ہوئے ایسی فضا بنائی جس نے روہنگیا مسلمانوں کو دہشت گردی کی علامت بنا دیا۔ المیہ یہ بھی ہوا کہ کئی برسوں تک جمہوری جدوجہد کی علامت شمار ہونے کی وجہ سے نوبل امن انعام کی حقدار ٹھہری آنگ سان سوچی بھی ان مسلم دشمن تعصبات کو فروغ دینے لگی۔
برما کو روہنگیا مسلمانوں سے پاک کرنے کا لہٰذا ریاستی فیصلہ ہوا اور ان کے گھر، دیہات اور کھیت کھلیان گھیرے میں لے کرجلا ڈالنے کے واقعات شروع ہوگئے۔ کئی علاقوں سے انہیں زبردستی سمندر کی جانب بھی دھکیل دیا گیا۔ دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان اب بنگلہ دیش میں مقیم ہیں۔ اس ملک کے مرکزی شہروں سے کٹے ہوئے جزیروں جیسے بے آباد علاقوں تک محدود کئے ان مسلمانوں کا کوئی والی وارث نہیں۔ وہ ٹینوں کی چھتوں تلے آباد ہوئی بستیوں میں گزشتہ کئی برسوں سے خود کو بے سہارا محصور محسوس کررہے ہیں۔ پاکستان اور عالمی میڈیا میں شاذ ہی کبھی آپ نے ان کا ذکر سنا ہوگا۔
شام کی خانہ جنگی کا تذکرہ یقینا ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مگر پچاس لاکھ سے زائد شامیوں کی وہ دل دہلا دینے والی تعداد ہے جو پناہ کی تلاش میں دربدر گھوم رہی ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے دعوے دار ہوئے اردوان نے ابتداََ خود کو شامیوں کا واحد سرپرست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جرمنی جیسے امیر یورپی ممالک سے مطالبہ کیا کہ اگر اسے خاطر خواہ رقم فراہم کردی جائے تو وہ شامیوں کو یورپ کا رخ نہیں کرنے دے گا۔ اسے مطلوبہ سے زیادہ رقم فراہم ہوئی۔ شامیوں کی ترکی آمد کا سلسلہ مگر تھم نہ پایا۔ ترکی کے معاشی حالات بھی دریں اثناء دُگرگوں ہونا شروع ہوگئے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترکی کا لیرا اپنی قدر مسلسل کھورہا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ محدود آمدنی والوں کی بساط سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ حکومتی مدد سے قائم ہوئے سستی روٹی کے تندوروں کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگی ہیں۔
جان کی امان پاتے ہوئے فقط ایک فقرہ بھارت کے قبضے میں رکھے کشمیر کے بارے میں بھی لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اگست 2019ء کے دن سے مودی سرکار نے وہاں بسے لاکھوں مسلمانوں کو دنیا سے کاٹ کر ایک وسیع تر جیل تک محدود کررکھا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہوئے پاکستان نے کشمیر کو ہمیشہ اپنی شہ رگ پکارا۔ مودی سرکار کے جوتوں تلے سلگتی اس شہ رگ کی حفاظت کے لئے ہماری حکومت مگر اسلامی ممالک کی تنظیم جسے او آئی سی پکارا جاتا ہے کا اجلاس تک بھی نہ بلوا پائی۔
افغانستان کو مذکورہ بالا تناظر میں کسی حد تک خوش نصیب تصور کرتا ہوں۔ وہ او آئی سی جو روہنگیا، کشمیر اور شام کے مسلمانوں کے لئے ایک لمحے کے لئے بھی فکر مند نہ ہوپائی افغانستان کے حالات سے گھبرا گئی ہے۔ آج سے چھ ماہ قبل ہی اگرچہ طالبان نے 20 برس کی طویل مزاحمت کے بعد دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے امریکہ کو وہاں سے ذلت آمیز انداز میں بھاگنے کو مجبور کیا تھا۔ غلامی کی زنجیریں توڑ دینے کے بعد طالبان کو مگر دریافت ہوا کہ ان کے پاس حکومت چلانے کے لئے سرمایہ ہی موجود نہیں۔ سرکاری ملازموں کو تنخواہیں ادا نہیں ہوپارہیں۔ ہسپتالوں میں ہنگامی ضروریات کی ادویات بھی میسر نہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کا بندوبست برقرار کھنا بھی ناممکن ہورہا ہے۔ ویسے بھی ان اداروں میں مخلوط تعلیم کی بدولت فحاشی پھیل رہی تھی۔ مغرب کے متعارف کردہ دین دشمن خیالات فروغ پارہے تھے۔
عورتوں کو گھروں میں بٹھا دینے کے باوجود مگر انہیں کھانا بھی تو کھلانا ہوتا ہے۔ افغانستان میں تاہم گزشتہ دو برس سے قحط سالی کا آغاز ہوچکا تھا۔ کھانے پینے کی بے تحاشہ بنیادی اشیاء غیر ملکوں سے منگوانا لازمی ہوگیا اور انہیں خریدنے کے لئے طالبان حکومت کے پاس کوئی رقم ہی موجود نہیں ہے۔
اسلام کے نام پر قائم ہوئے پاکستان کی ریاست اور حکومت نے نہایت لگن سے لہٰذا او آئی سی کو قائل کرلیا ہے کہ اس کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اسلام آباد میں تین دن تک سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایسی راہیں تلاش کریں جو افغان عوام کی بے پناہ اکثریت کو فاقہ کشی سے محفوظ کر پائیں۔ اس ملک میں کاروبار حیات بحال ہو۔ تعلیمی ادارے اور ہسپتال باقاعدگی سے چلیں۔ حالات کو قابو میں رکھنے والا سرکاری بندوبست عملی زندگی میں نظر آئے۔ یہ تمام اہداف حاصل کرنے کے لئے اگرچہ سرمایہ درکار ہوگا۔ کئی مسلمان ممالک مطلوبہ سرمایہ بآسانی فراہم کرسکتے ہیں۔
مصر میں نام نہاد عرب بہار کے بعد جب اخوان المسلمین کی منتخب حکومت قائم ہوئی تو اسے چلانے کے لئے قطر خاطر خواہ رقوم فراہم کرتا رہا۔ صدر مورسی کی مبینہ مذہبی شدت پسندی مگر دنیا کے نام نہاد مہذب ممالک کو پسند نہیں تھی۔ مصر کی فوج نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ اوبامہ نے اگرچہ اس عمل کو فوجی بغاوت کہنے سے انکار کردیا۔ نئے بندوبست کی معیشت کو آئی ایم ایف کے رضا باقر نے مبینہ طورپر مستحکم بنایا۔ اس کے باوجود مصر کو باقاعدگی سے سعودی خیرات بھی ملا کرتی ہے۔ مصر کی معیشت کو مستحکم کرنے کے بعد رضا باقر صاحب اب ہمارا مقدر سنوارنے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر لگادئیے گئے ہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ افغان معیشت کو بحال کرنے کی کوئی صورت نکالنے کے لئے بھی ان کی فراست سے رجوع کرنا ہوگا۔
افغانستان کو کامل انتشار اور قحط سالی سے بچانے کے لئے مگر لازمی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی بھی اس ضمن میں کوئی کردار ادا کریں۔ ربّ کریم سے درد بھری فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ اسلام آباد میں اسلامی وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو افغانستان کے بارے میں انسان دوست اور ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے کو مائل کرنے کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار کر پائے۔