مولانا فضل الرحمن سے "باغی" ہوئے بلوچستان کے مولانا شیرانی اس ضمن میں اکیلے نہیں۔ لاہور کا PDMوالا جلسہ "ناکام" ہوجانے کے بعد میں نے عمران خان صاحب کے کئی مخالفین کو بھی "آف دی ریکارڈ" یہ اعتراف کرتے سنا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو موجودہ حکومت نہ صرف اپنی آئینی مدت مکمل کرلے گی بلکہ 2023میں ہوئے انتخابات کے بعد پانچ سالہ اقتدار کی دوسری ٹرم یا باری لینے کے قابل بھی بن جائے گی۔
ایسے افراد کو مزید افسردہ کرنے کے لئے عمران حکومت کے مشیروں نے کمال مہارت سے مارچ2021میں سینٹ کی خالی ہونے والی 52نشستوں کے لئے "قبل از وقت" انتخاب کا عندیہ دیا۔ وہ اپنے ذہن میں لگائی گیم کو من وعن بروئے کار لانے میں ناکام رہے تب بھی "بروقت"ہوئے سینٹ انتخاب کے ذریعے تحریک انصاف ایوان بالا میں بھی اکثریتی جماعت بن جائے گی۔ عمران حکومت کو اس کے بعد اپنی ترجیح کے مطابق قانون سازی کے لئے Walk Overجیسی آسانیاں فراہم ہوجائیں گی۔ ممکنہ تناظر میں PDMکا اسلام آباد پر لانگ مارچ کے ذریعے دھاوا بولنے والا منصوبہ بارآور ہوتا نظر نہیں آئے گا۔ عوام کی اکثریت کو بلکہ تحریک انصاف کے 2014والے دھرنے جیسا کار بے سود دکھائی دے گا۔
پاکستان کا "سیاسی" زائچہ" بناتے ہوئے مجھے خوف آتا ہے۔ ہمارے ہاں اقتدار کا کھیل بنیادی طورپر ایسے کئی عوامل کا محتاج رہا ہے جنہیں ان کی نموداری سے قبل تصور میں لانا تقریباََ ناممکن ہے۔ ساری عمر سیاسی رپورٹنگ کی نذر کردینے کے با وجود میں خود بھی ان عوامل کو بروقت تصور میں لانے سے قاصر رہا جنہوں نے جولائی 2018کے انتخاب میں تحریک انصاف کی جیت کو بالآخر یقینی بنایا۔ بطورصحافی مجھے ان انتخابات کی "شفافیت" وغیرہ پر سوال اٹھانے کا حق حاصل نہیں۔ کج بحثی سے گریز کی خاطر مان لیتے ہیں کہ وہ انتخاب "چرایا" گیا تھا۔ عمران خان صاحب اس کے نتیجے میں "Select" ہوئے۔ یہ انتخاب مگر جن سیاسی قوتوں سے مبینہ طورپر "چرایا" گیا تھا ان کے نمائندوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی "شکست" کو ٹھوس انداز میں تسلیم کرلیا۔ قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم تعداد میں موجودگی کے باوجود وہ اس ایوان میں ثابت قدم مزاحمت نہ دکھاپائیں۔ سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی فیصلہ کن دِکھتی "اکثریت" بھی صادق سنجرانی کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد مضحکہ خیز حد تک کھوکھلی اور بے اثر ثابت ہونا شروع ہوگئی۔
اپوزیشن کی بے وقعتی کو مزید اجاگر اس قانون کی تاریخ ساز عجلت سے منظوری نے کیا جس کے ذریعے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو آصف سعید کھوسہ صاحب کے حکم کے مطابق "باقاعدہ" بنایا گیا تھا۔ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF)کی گرے لسٹ سے باہر نکالنے کی غرض سے تیار ہوئے دس اہم ترین قوانین کو بھی ایسی ہی عجلت میں منظور کیا گیا۔
ہر حوالے سے "جی حضوری" والا رویہ اختیار کرنے کے باوجود اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنے لئے کوئی سہولت نہ حاصل کرپائیں۔ شریف خاندان اور آصف علی زرداری کی مبینہ "لوٹ مار اور منی لانڈرنگ" کو بلکہ پاکستان کو FATFکی گرے لسٹ میں پھینکنے کا موجب ٹھہرایا گیا۔ دونوں اب "جعلی اکائونٹس" اور "مشتبہ TTs" کے تحت قائم ہوئے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ شہباز شریف جیل میں ہیں۔ پاکستان میں موجود ان کے فرزند-حمزہ-بھی وہاں مقید ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور نوا زشریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے صدر کی اہلیہ اور بیٹیاں بھی ان الزامات کی زد میں ہیں۔ پارلیمان میں دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کی بھاری بھر کم تعداد انہیں مقدمات اور میڈیا کے ذریعے ہوئی بدنامی سے بچانے میں قطعاََ ناکام رہی ہے۔
مذکورہ تناظر میں PDMکا قیام بھی شاید کوئی ہل مچل مچاتا نظر نہ آتا اگر اس کے تاسیسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لندن میں بیٹھے نواز شریف اپنے "غدار بیانیے" کو شدت سے برسرعام نہ لاتے۔ انہوں نے جس انداز میں "نام لئے"انہوں نے عوام کی اکثریت کو چونکا دیا۔ ان کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کے کئی اراکین کے دل مگر اس خطاب نے دہلادئیے۔ PDMمیں شامل دیگر جماعتوں کے اس ضمن میں تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں۔ شاید ایسے افراد کو "حوصلہ" دینے کے لئے نواز شریف PDMکے لاہور والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں "نام لینے" سے کتراتے رہے۔ ان کے حامیوں اور مخالفوں کی بے پناہ تعداد جبکہ یہ توقع باندھے ہوئے تھی کہ وہ" اپنے شہر" میں ہوئے خطاب کے دوران چند سنسنی خیز آڈیو وڈیوز سناتے اور دکھاتے ہوئے شاید "Next Level"کی جانب بڑھیں گے۔ میری دانست میں PDMکے لاہور والے جلسے کو "ناکام" ثابت کرنے کے لئے ان کے "نام لینے" سے گریز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان تک کسی بھی نوعیت کی رسائی کے بغیر میرے لئے یہ طے کرنا ممکن نہیں کہ وہ کب تک ایسے "گریز" پر کاربند رہیں گے۔
نواز شریف کا "گریز" مگر آج کے کالم کا عنوان نہیں۔ غور طلب وہ تاثر ہے جو عمران حکومت کو اپنی آئینی مدت مکمل کرتا ہی نہیں بلکہ 2023کے انتخابات کے بعد ایک اور ٹرم یا باری لیتا بھی دکھا رہا ہے۔ مستقبل کے سیاسی زائچے مرتب کرنے سے ذاتی طورپر گریز اختیار کرنے کی وجہ سے میں اس ضمن میں ڈھٹائی کے ساتھ کوئی بڑھک لگانے کا متحمل ہو نہیں سکتا۔ گاڑی چلاتے ہوئے "بیک مرر" پر بھی لیکن نگاہ رکھنا لازمی ہے۔ آئندہ کا سیاسی زائچہ سوچتے ہوئے لہٰذا اپنی سیاسی تاریخ کو ذہن میں لانا ہوتا ہے۔
آئینی اور کتابی اعتبار سے مثال کے طورپر ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت قائم ہوئی حکومت کے پانچ سال 1978میں مکمل ہونا تھے۔ 1970میں "آئین ساز" اسمبلی کے انتخاب ہوئے تھے۔ آئین کی تیاری اور اس کے لاگو ہوجانے کے بعد بھٹو حکومت کی "آئینی مدت" کا آغاز لہٰذا 1973میں ہوا تھا۔ ٹھوس سیاسی اور پارلیمانی اعتبار سے مذکورہ حکومت کے طاقت ور ترین حریف ان دنوں کی نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام تھے۔ بلوچستان اور آج کے خیبرپختونخواہ میں ان دونوں جماعتوں کی حکومت تھی۔ بلوچستان کی حکومت کو اس صوبے میں "شورش"کی وجہ سے برطرف کردیا گیا۔ اس کی برطرفی کے بعد ان دنوں کے صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت احتجاجاََ مستعفی ہوگئی۔ پیپلز پارٹی نے ان دونوں صوبوں میں خان عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ سے اتحاد کے ساتھ اپنی حکومتیں بنالیں۔ بعدازاں نیشنل عوامی پارٹی کو سپریم کورٹ کے روبرو "غدار"ٹھہراکر "کالعدم" ٹھہرادیا گیا۔ اس کی سرکردہ قیادت "حیدرآباد ٹربیونل"، کے تحت ریاست کیخلاف "مسلح بغاوت"کے سنگین الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا کرتی رہی۔
1974میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے بھٹو حکومت نے "90سالہ قضیہ" بھی حل کردیا۔ اس برس لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس بھی ہوا۔ پیٹروڈالرز کی رونق سے فائدہ ا ٹھانے کے لئے پاکستانیوں کی کثیر تعدا د خلیجی ممالک منتقل ہوکر Upward Mobilityکی جانب بڑھنا شروع ہوگئی۔ بھٹو صاحب نے قوم کو یہ نوید بھی سنائی کہ وہ پاکستان کو ہر صورت مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی قوت بنائیں گے۔
سیاسی اعتبار سے"گلیاں ہوون سنجیاں " لیکن معاشی اعتبار سے پُررونق نظر آتے ماحول میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل ہونے سے ایک سال قبل ہی مارچ1977میں نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔ بھٹو کے شدید ناقدین سمیت ہمارے سیاسی مبصرین کی اکثریت نے طے کردیا کہ ایک منتشر اور بے اثر اپوزیشن کے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی انتخابات بھاری اکثریت سے جیت جائے گی۔ بہت سنجیدگی سے سوچ یہ بھی پھیلی کہ 1977میں "دوتہائی اکثریت" حاصل کرنے کے بعد بھٹو صاحب آئین میں بنیادی تبدیلیاں لاتے ہوئے پاکستان کے طاقت ور ترین صدر بن جائیں گے۔ کئی اسلامی ممالک کے سربرہان کی طرح اس کی بدولت وہ شاید تاحیات اس عہدے پر فائز رہیں گے۔
نئے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی مگر راتوں رات نوجماعتوں پر مشتمل اتحاد قائم ہوگیا۔ مذکورہ اتحاد نے 1977کے انتخابات کے نتائج کو دھاندلی زدہ ٹھہراکر مسترد کردیا۔ اس کے بعد ایک تحریک چلی جو ضیاء الحق کے مارشل لاء پرمنتج ہوئی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانے سے کیا حاصل۔
اپنی تاریخ سے فقط "دیگ کا ایک دانہ" چنتے ہوئے عرض صرف یہ کرنا ہے کہ مستقبل کے سیاسی زائچے بناتے ہوئے محض نظر آنے والے عوامل ہی کو نگاہ میں نہیں رکھناچاہیے۔ جو نظر آتا ہے اسے Taken for Grantedشمار کرنے سے اجتناب ہی بہتر ہے۔