قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی بدولت وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب تسلسل سے دہائی مچائے چلے جارہے ہیں کہ انہیں مقامی مخالفین نے نہیں بلکہ امریکہ نے اقتدار سے محروم کیا ہے۔ اس ضمن میں وہ ایک مراسلے کا حوالہ بھی دیتے ہیں جو امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر کی واشنگٹن میں مقیم پاکستانی سفیر سے ملاقات کے بعد اسلام آباد بھیجا گیا تھا۔
حقائق جو بھی رہے ہوں ان کے حامیوں کی بھاری بھر کم تعداد ان کے لگائے الزام کو دل وجان سے قبول کئے ہوئے ہے۔ ہمارے ساتھ کئی برسوں سے برتی امریکی رعونت کی وجہ سے پاکستانی مبصرین کی مؤثر تعداد بھی مذکورہ کہانی کو یکسر مسترد کرنے سے گریز کرے گی۔ ذاتی طورپر میں بھی شاید اسے تسلیم کرنے کو آمادہ ہوجاتا۔
میری پریشانی مگر یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی رخصت کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت قائم ہوئی ہے امریکہ اسے گرم جوش تعاون فراہم نہیں کررہا۔ اس تناظر میں عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف کا رویہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ گزشتہ برس کے اگست سے آئی ایم ایف والوں نے شوکت ترین کے تیار کردہ اور ہماری قومی اسمبلی سے باقاعدہ منظورہوئے بجٹ میں کیڑے نکالنا شروع کردئیے تھے۔
ہمیں 500ملین ڈالر کی جو قسط ملنا تھی وہ روک دی گئی۔ تقاضہ ہوا کہ نظرثانی کے بعد "منی بجٹ" لایا جائے۔ یہ مختلف کاروباری افراد کو ٹیکس کے ضمن میں دی رعایتوں کو واپس لے۔ بجلی، پیٹرول اور گیس کے نرخ بتدریج بڑھائے جائیں۔ اس کے علاوہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری یقینی بنانے والا قانون ہماری پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے بسرعت منظور کروایا جائے۔
عمران حکومت نے تھوڑی لیت ولعل کے بعد مطلوبہ شرائط پوری کردیں۔ معاملہ اس کے باوجود حل نہیں ہوا۔ بالآخر عمران خان صاحب نے اُکتاکر قوم سے خطاب کیا اوربجلی وپیٹرول کی قیمتوں کو ایک سطح تک آنے والے بجٹ تک منجمد کردیا۔ آئی ایم ایف والے ہکابکارہ گئے۔ اس تناظر میں "امریکی سازش " والی داستان بھی نمودار ہوگئی۔
مبینہ "سازش" بالآخر کامیاب ہوگئی تو شہباز حکومت کے برسراقتدار آتے ہی ان کے لگائے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل واشنگٹن روانہ ہوگئے۔ ان کا یہ دورہ کسی بھی اعتبار سے "خصوصی" نہیں تھا۔ واشنگٹن میں اپریل کے آغاز میں Summer Meetingsکے عنوان سے دنیا بھر کے وزرائے خزانہ کی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے افسران سے غیر رسمی تصور ہوتی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ غیر رسمی ہونے کے باوجود وہ نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ پہلے سے طے شدہ ملاقاتوں کی وجہ سے اگر شوکت ترین ان دنوں بھی ہمارے وزیر خزانہ ہوتے تو ان میں شریک ہوتے۔ وہ چلے گئے تو مفتاح اسماعیل نے "خانہ پری"کا فائدہ اٹھایا۔
نظربظاہر مفتاح اسماعیل کی واشنگٹن میں ہوئی ملاقاتیں "کامیاب" رہیں۔ 2019میں ڈاکٹر حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف سے مختلف اقساط میں ستمبر2022تک 6ارب ڈالر کے حصول کے لئے جو معاہدہ کیا تھا اسے اگلے برس تک بڑھانے کی خبر آئی۔
تاثر یہ بھی ملا کہ ہمیں مزید دو ارب ڈالر فراہم کئے جائیں گے۔ جس رقم کا تاہم وعدہ ہوا ہے وہ فقط اس وقت مہیا ہوگی جب پاکستان پیٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں کمرتوڑ اضافہ کردے گا۔ اصرار ہورہا ہے کہ پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں کم از کم 30روپے کا اضافہ ہو۔ پیٹرول سے کہیں زیادہ جان لیوا یہ تقاضہ ہے کہ ڈیزل کی قیمت میں یکمشت 70روپے کا اضافہ ہو۔
شہباز حکومت اگر مطلوبہ اقدامات کو بروئے کار لائے تو ہمارے ہاں مہنگائی اور کسادبازاری کا ناقابل برداشت طوفان کھڑا ہوجائے گا۔ اقتدار سے فراغت کے بعد شہر شہر جاکر لوگوں کے دلوں کو گرماتے عمران خان صاحب اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھرپور عوامی تحریک کے ذریعے موجودہ حکومت کو استعفیٰ دینے پر مجبور بھی کرسکتے ہیں۔ فرض کیا کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام بھی رہیں تو آئندہ انتخابات کے دوران مسلم لیگ (نون) کی ٹکٹ پر کھڑے امیدوارں کو ووٹروں کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا ووٹ بینک جو بے تحاشہ مشکلات کے باوجود 2018کے بعد بھی استقامت سے برقرار رہا ہے ہوا میں تحلیل ہوجائے گا۔
لندن میں مقیم نواز شریف جائزبنیادوں پر یہ تصور کرتے ہیں کہ انہوں نے 1985سے اپنی جماعت کا ووٹ بینک بہت لگن سے تشکیل دینے کے بعد ثابت قدمی سے مسلسل بڑھایا ہے۔ ان کی دُختر مریم نواز جب کسی بھی شہر میں عوامی اجتما ع سے خطاب کرتی ہیں تو مذکورہ "بینک" اپنا جلوہ دکھادیتا ہے۔ شہباز شریف کی "دوٹکیاں دی نوکری"کی خاطر وہ اس ووٹ بینک سے محروم ہونے کو آمادہ نہیں۔ اسی باعث اپنے چھوٹے بھائی کو اپنی جماعت کے سینئر وزراء سمیت لندن طلب کرلیا۔ یہ کالم لکھنے تک وزیر اعظم اور ان کے ساتھی اسی شہر میں موجود تھے۔ صلاح ومشورے جاری ہیں۔ کوئی ٹھوس فیصلہ تاہم ابھی تک ہونہیں پایا ہے۔
کتابی معیشت کی بنیاد پر جناتی انگریزی میں مجھ جیسے جاہل کو اقتصادی امور سمجھانے والے ہمیشہ مصر رہتے ہیں کہ آئی ایم ایف بالآخر ایک بینک ہے۔ مقروضوں کے ساتھ اس کے رویہ ساہوکاروں جیسا جارح اور بے رحم ہی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں "دوستوں " کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ کتابی گفتگو کرنے والے پروفیسر حضرات مگر یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ پاکستان نے جب بھی امریکہ کی ترجیحات کا کھل کر ساتھ دیا ہمارے ہاں ڈالروں کی ریل پیل ہوگئی۔
جنرل ضیاء کے "افغان جہاد" کی وجہ سے ہمارے ہاں کئی برسوں تک معاشی رونق لگی رہی۔ جنرل مشر ف نے "وار آن ٹیرر" کے دنوں میں بھی خوب سیزن لگایا۔ آئی ایم ایف کا ہر فیصلہ امریکی اشارے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ وہ اگر عمران حکومت کو "سازش" کے ذریعے فارغ کروادینے کے بعد واقعتا اس کی جگہ لینے والی شہباز حکومت سے خوش ہوتا تو ہمارے عوام کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں کمر توڑ اور یکمشت اضافے سے بچانے کا راستہ بھی نکال لیا جاتا۔ ایسا مگر ہو نہیں رہا ہے۔
شہباز حکومت مگر عوام کو یہ سمجھانے کی زحمت ہی نہیں اٹھارہی کہ عمران حکومت کی طرح اس کے ساتھ بھی امریکہ کا رویہ "دوستانہ" اور شفقت بھرا نہیں۔ "امپورٹڈحکومت" کے طعنے برداشت کئے جارہی ہے۔