پارلیمانی جمہوریت کی مسلمہ روایات کو ڈھٹائی سے نظرانداز کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنے قائد جناب عمران خان صاحب سے وفاداری بشرط استواری نبھائے چلے جارہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قائم ہوئی شہباز حکومت پارلیمان کے ذریعے صدر کا مواخذہ کرنے کی قوت سے محروم ہے۔
سرجھکائے ذلیل ہوئے جانے کے سوا اس کے پاس کوئی اور راستہ ہی موجود نہیں۔ اب مگر ایک ایسا مقام بھی آچکا ہے جہاں عارف علوی عمران خان صاحب کے ساتھ وفاداری نبھانے کو ڈٹے رہے تو اس کا خمیازہ حکومت کو نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کو بھگتنا ہوگا کیونکہ معاملہ دنیا کی واحد سپر طاقت کہلاتے ملک کے ساتھ روایتی سفارتی تعلقات کو معمول کے مطابق جاری رکھنے سے متعلق ہے۔
عمران خان صاحب کے دور اقتدار میں امریکہ نے کئی مہینوں تک پاکستان میں اپنا سفیر ہی تعینا ت نہیں کیا تھا۔ بالآخر بائیڈن انتظامیہ نے اپنے ایک تجربہ کار افسر ڈونلڈبلوم کی تقرری کا فیصلہ کیا۔ امریکی صدر کی جانب سے ہوئی سفارتی تقرری کی وہاں کی پارلیمان سے منظوری لازمی ہے۔ اس کے حصول کے لئے نامزد کردہ سفیر کو ایک خصوصی کمیٹی کے روبرو پیش ہوکر بے تحاشہ سوالات کاجواب دینا ہوتا ہے۔ ڈونلڈ بلوم اس مرحلے سے گزر کررواں برس کے اپریل کی 11تاریخ کو بطور سفیر اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھاچکے ہیں۔ باقاعدہ تعیناتی کے بعد وہ گزشتہ ماہ کے وسط میں اسلام آباد بھی پہنچ گئے۔
سفارتی روایات کے مطابق جب کسی ملک کا سفیر پاکستان کے دارالحکومت پہنچ جاتاہے تو اس کے چند ہی دن بعد ایوان صدر میں ایک تقریب منعقد ہوتی ہے۔ ٹی وی خبروں میں آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ یہ تقریب درباروں سے مختص تزک واحتشام سے برپا ہوتی ہے۔ مہمان سفیر کی ایوان صدر آمد پر بگل بجائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد موصوف کو بگھی میں بٹھاکر ایوان صدر کے مرکزی دروازے تک لایا جاتا ہے۔ وہاں سے وہ صدر کے روبرو پیش ہونے کو لے جایا جاتا ہے اور کورنش بجاکر اپنے کاغذات نامزدگی مہمان ریاست کے سربراہ کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔
جب تک یہ تقریب منعقد نہ ہوجائے مہمان سفیر اپنے کاغذات نامزدگی میزبان ملک کے صدر کے روبرو پیش نہ کرسکے تو تعینات ہوئے فرد کو "باقاعدہ" تصور نہیں کیا جاتا۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اس کا رتبہ "سرکاری" نہیں بلکہ بنیادی طورپر کاغذات نامزدگی کی منظوری کے "منتظر" شخص جیسا ہی رہتا ہے۔ مہمان ملک کی حکومت سے سرکاری معاملات طے کرنا سفارتی روایات کے مطابق اس کا "اختیار" تصور نہیں ہوتا۔ واشنگٹن میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد امریکی وزارت خارجہ کے نمائندہ کی حیثیت میں گزشتہ ماہ اسلام آباد پہنچے ڈونلڈبلوم کو تاہم ابھی تک ایوان صدر سے کاغذات نامزدگی پیش کرنے کے لئے مدعو نہیں کیا گیا ہے۔
عملی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا میں ریٹائر ہوچکا ہوں۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ڈونلڈبلوم کو کاغذات نامزدگی پیش کرنے والی تقریب کے لئے مدعو کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر سے کام لیا جارہا ہے یا نہیں۔ اگر تاخیر واقعتا دانستہ برتی جارہی ہے تو "باعث تاخیر" صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ہیں یا ہماری وزارت خارجہ اس ضمن میں جلدی نہیں دکھانا چاہ رہی۔
اقتدار کے ایوانوں تک مؤثر رسائی کے بغیر میرا وسوسوے بھرادل اگرچہ یہ سوچنے کو مجبور ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی صاحب ہی اس تناظر میں تاخیر کا بنیادی سبب ہیں۔ ان کے قائد جناب عمران خان صاحب نے مارچ کے اختتام میں اسلام آباد میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک لفافہ لہرایا تھا۔ اسے لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر کو امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر ڈونلڈلو نے باقاعدہ"تڑی" لگائی تھی۔ اسے دھمکی دی گئی کہ اگر عمران حکومت نے امریکہ کے ساتھ اپنا رویہ نہ بدلا تو اسے تبدیل کردیا جائے گا۔
امریکہ نے بقول عمران خان صاحب انہیں جو دھمکی آمیز پیغام بھیجا تھا اسے سرکاری مراسلے کی صورت ہمارے سفیر نے قلم بلند کرکے اسلام آباد بھیج دیا۔ اس مراسلے کے وصول ہونے کے چند ہی دن بعدعمران حکومت تحریک عدم اعتماد کی بدولت گھر بھیج دی گئی۔ وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب شدت وتواتر سے یہ دعویٰ کئے چلے جارہے ہیں کہ ان کی فراغت کا واحد سبب "امریکی سازش" تھی۔ ہمارے "چور اور لٹیرے" سیاستدانوں کے علاوہ ریاستی اداروں کے کئی "میر جعفروں " نے بھی مبینہ سازش کو بروئے کار لانے کے لئے ا مریکہ کی غلامانہ معاونت کا کردار ادا کیا۔
غیر ملکوں میں تعینات ہمارے سفیر اہم معاملات کی بابت جو "مراسلہ" خفیہ زبان میں اسلام آباد بھیجتے ہیں اسے "قومی راز" قرار دیا جاتا ہے۔ ہماری ریاست وحکومت کے پانچ سے زیادہ افراد کو ایسے مراسلے کے مندرجات کی تفصیلات کا ہرگز علم نہیں ہوتا۔ 9اپریل کی رات تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے چند گھنٹے قبل تاہم عمران خان صاحب نے ان دنوں کی وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بلواکر "دھمکی آمیز"مراسلے کی نقل سپیکر قومی اسمبلی کو بھجوانے کا فیصلہ کیا۔
3اپریل کی رات مذکورہ مراسلے کی بنیاد پر ہی ان دنوں قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو "مسترد" کردیا تھا۔ وہ مسترد ہوئی تو عمران خان صاحب نے صدر علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد نئے انتخاب کروانے کی تجویز پیش کردی۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے البتہ ان تمام فیصلوں کو "غیر آئینی" ٹھہرادیا اور تحریک عدم اعتماد پر ہر صورت گنتی کا تقاضہ کیا۔ دماغ کی دہی بناتے بحران کے بعد بالآخر وہ گنتی ہوگئی تو عمران خان صاحب ہمارے وزیر اعظم نہ رہے۔
عمران خان صاحب کی طرح عارف علوی بھی تاہم "مراسلے" کو بھولے نہیں ہیں۔ بطور صدر مملکت انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو مذکور مراسلے کی نقل بھیج رکھی ہے۔ یہ درخواست کرتے ہوئے کہ وہ مراسلے کے مندرجات کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی فیصلہ سنائیں۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے اگرچہ ابھی تک اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں دکھائی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ طے کئے بغیر کہ عمران حکومت واقعتا "امریکی سازش" کے ذریعے ہٹائی گئی تھی یا نہیں عارف علوی صاحب حال ہی میں تعینات ہوئے امریکی سفیر کو کاغذات نامزدگی پیش کرنے کی تقریب کے لئے مدعو کرنے کو ٹالتے محسوس ہورہے ہیں۔ ڈونلڈبلوم تام جھام کے ساتھ بگھی میں بیٹھ کر ایوان صدر پہنچے۔ صدر عارف علوی نے ان سے ہنستے مسکراتے کاغذات نامزدگی وصول کرلئے تو عمران خان صاحب کے جانثار ان کے لگائے شخص سے ناراض ہوجائیں گے۔
انہیں یہ بات ہضم نہیں ہوگی کہ اسی ملک کے سفیر کو بہت چائو سے ایوان صدر مدعو کرنے کے بعد اس سے کاغذات نامزدگی ہنستے مسکراتے ہوئے وصول کئے جارہے ہیں جس نے عمران حکومت کو فارغ کرنے کی "سازش" رچائی تھی۔ ڈونلڈ بلوم کو لہٰذا نجانے مزید کتنے دن تک انتظار کرنا ہوگا۔ ممکنہ انتظار غالباََ انہیں یہ پیغام بھی مؤثر انداز میں پہنچا دے گا کہ پاکستان اب "غلام" ملک نہیں رہا۔ عمران خان صاحب کی ولولہ انگیز قیادت میں "حقیقی آزادی" کے سفر پر گامزن ہوچکا ہے۔