تعلق ان کا حکومتی پارٹی سے ہو یا حزب مخالف کی جماعتوں سے۔ موجودہ قومی اسمبلی کے تمام اراکین "کام کے نہ کاج کے" والے محاورے کی عملی مثال نظر آرہے ہیں۔ اس محاورے کا دوسرا حصہ میں نے جان بوجھ کر نہیں لکھا کیونکہ میرے اور آپ کے ووٹوں کی بدولت منتخب ایوان میں آئے افراد کو میرے اور آپ کے ادا کردہ ٹیکسوں سے فقط اناج ہی فراہم نہیں ہوتا۔ انہیں اسلام آباد آنے کے لئے جہازوں کے ٹکٹ دئیے جاتے ہیں۔ اس شہر میں ان کی رہائش کے لئے پارلیمان ہائوس سے محض چند قدم کے فاصلے پر حفاظتی دیواروں کے حصار میں جدید اور آرام دہ فلیٹ تعمیر کئے گئے ہیں۔ ان کی تن خواہیں اور مراعات بھی افسرانہ ہیں۔
اسلام آباد میں شاہی مہمانوں کی طرح رکھے اراکین قومی اسمبلی مگر گزشتہ کئی دنوں سے اپنی راحت بھری قیام گاہوں سے نکل کر ایوان میں تشریف لانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کررہے۔ اجلاس وقت پر شروع نہیں ہوتا۔ اس کے آغاز کے چند ہی منٹ بعد لیکن کورم کی نشاندہی ہوجاتی ہے اور یوں اجلاس کو دوسرے دن کے لئے مؤخر کردیا جاتا ہے۔ بغیر کوئی کام کئے ایوان میں موجود اور وہاں سے غیر حاضر اراکین کی دیہاڑی البتہ لگ جاتی ہے۔ ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت کو جبکہ ان کے برعکس دو وقت کی روٹی کے حصول کے لئے بھی خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔
چوتھے پارلیمانی سال کا آغاز ہوتے ہی عمران حکومت نے اچانک قومی اسمبلی کا اجلاس اس لئے طلب کیا تھا کیونکہ وہ آئندہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے اپنے تئیں انقلابی بندوبست مہیا کرنا چاہ رہی تھی۔ غیرملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو گھر بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ دینے کا حق عطا کرنے کے علاوہ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ وطن عزیز میں پولنگ اسٹیشنوں میں جاکر بیلٹ پیپر پر ٹھپے لگانے کے بجائے رائے دہندگان اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر نصب ہوئے بٹن دبادیں۔
تحریک انصاف اپنے تمام سیاسی مخالفین کو چور اور لٹیرے شمار کرتی ہے۔ وہ انہیں نظام کہنہ کے طفیلی بھی ٹھہراتی ہے جو پاکستان کے عوام کو ڈیجیٹل معجزوں سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ برطانوی سامراج جب ہمارے خطے پر قابض ہوا تو اس نے بھی یہاں آباد لوگوں کو فرسودہ رسومات کا اسیر قرار دیا۔ انہیں مہذب بنانے کیلئے اصلاحات کے سلسلے شروع ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد فقط فوجی وردی پہنے ایوب خان اور جنرل مشرف جیسے دیدہ وروں ہی نے مزید اصلاحات متعارف کروائیں۔ 2008کے انتخابات کے بعد مگر یہ سلسلہ رک گیا۔ عمران حکومت نے اصطلاحات کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں ٹوٹا تھا۔
حکومت کی مجبوری مگر یہ ہے کہ 2018کے شفاف ترین انتخابات کے باوجود وہ ہماری پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں خاطر خواہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی ہے۔ قومی اسمبلی سے وہ زور زبردستی ہمیں جدید نظام کی طرف دھکیلنے والے قوانین منظور کروابھی لے تو اسے سینٹ منظوری دینے میں لیت ولال سے کام لیتا ہے۔ ایوان بالا کے نخروں سے اُکتا کر فیصلہ لہٰذا یہ ہوا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے۔ اس کے ذریعے ایک قرارداد منظور ہو۔ وہ سفارش کرے کہ آئندہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کامشترکہ اجلاس ہو۔ وہاں انتخابی اصلاحات کے نام پر تیار ہوئے قوانین فی الفور منظور کرلئے جائیں۔
قومی اسمبلی کا اجلاس بلالینے کے بعد مگر چند حکومتی نورتنوں کو خدشہ لاحق ہوا کہ وہ پالیمان کے مشترکہ اجلاس میں مطلوبہ اکثریت جمع نہیں کر پائیں گے۔ مذکورہ خدشے سے مغلوب ہوکر حزب مخالف کی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ ہوا۔ بات یہ چلائی گئی کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں موجود سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ کمیٹی انتخابی اصلاحات کے نام پر متفقہ قوانین تیار کرے۔
ہمارے اپوزیشن والے ٹی وی شوز میں بیٹھے ہوں تو سینہ پھلاکر بقول ان کے سلیکٹروں کی مسلط کردہ حکومت سے کسی بھی نوع کا تعاون نہ کرنے کی بڑھکیں لگاتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر مگر جب بھی انہیں مشاورت کرنے کے بہانے اپنے چیمبر میں طلب ہونے کا اشارہ کریں تو سرجھکائے حاضر ہوجاتے ہیں۔ اب کی بار بھی ایسے ہی ہوا۔ سپیکر سے ملاقات کرنے والے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے نمائندوں نے اسد قیصر کو عندیہ دیا کہ وہ انتخابی اصلاحات کے لئے تجویز کردہ پارلیمانی کمیٹی میں اپنے نمائندے بھیجنے کو تیار ہوں گے۔ مجوزہ کمیٹی کی تشکیل کے لئے مگر قومی اسمبلی کے اجلاس سے منظوری لینا لازمی تھا۔ اس اجازت کے حصول کے لئے ایک قرارداد کا مسودہ تیار ہوا۔ وہ ایوان میں پیش ہوا تو پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے اعتراض اٹھادئیے۔
اپوزیشن کو سپیکر کے دفتر میں جھانسہ دیا گیا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے لئے جو پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اس میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں موجود ہر سیاسی جماعت کو نمائندگی ملے گی۔ حکومتی وزراء نے مگر جو قرارداد تیار کی وہ مصر تھی کہ ہر جماعت کی نمائندگی اس کے جثے کے مطابق ہوگی۔ یوں بہت ہوشیاری سے تحریک انصاف کے لئے واک اوور کو یقینی بنانے کی کوشش ہوئی۔ پیپلز پارٹی اعتراض اٹھانے کے بعد خاموش ہوگئی۔
نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ مگر پی ڈی ایم نامی ایک اتحاد میں بھی شامل ہے۔ یہ اتحاد نظر بظاہر "ووٹ کو عزت دو" والے بیانیے کو فروغ دینا چاہ رہا ہے۔ اس ضمن میں ہوئے جلسوں کی رونق بڑھانے کیلئے مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام کے نظریاتی کارکنوں کی بھاری بھر کم تعداد درکار ہوتی ہے۔ اپنے تئیں عمران حکومت کے خلاف 2018سے تخت یا تختہ والے معرکے کو بے چین مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی کے سپیکر کے دفتر میں ہوئے مک مکا سے ہکا بکا رہ گئے۔ انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا عمل لہٰذا مفلوج ہوگیا۔ حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کوبہلانے کے لئے اب مزید وقت درکار ہے۔ مک مکا مگر قومی اسمبلی کے فلور پر ہونہیں سکتے۔ ایسے سودے خاموشی سے ہوتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے پاس کرنے کو اب کوئی کام نہیں۔ اجلاس مگر تواتر سے منعقد ہورہے ہیں تانکہ آئین کے حکم کے مطابق یہ ایوان ایک پارلیمانی سال میں جلد از جلد کم ازکم 130مرتبہ مل سکے۔ آئین کا احترام مگر حقیقی وجہ نہیں ہے۔ بنیاد ی مقصد اراکین اسمبلی کی کوئی کام کئے بغیر دیہاڑیاں لگانا ہے۔ مفت کی دیہاڑی لگانے والے اس جرم میں اپوزیشن اراکین برابر کے شریک ہیں۔ ان کی حکومت مخالف بڑھکیں ٹی وی سکرینوں کے لئے ہوئی رنگ بازی کے سوا کچھ نہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کو میرے اور آپ جیسے لاوارث پاکستانیوں کی مشقت بھری زندگی کی واقعتا فکر ہوتی تو اب تک وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب ایوان میں تشریف لاچکے ہوتے۔ گزشتہ پیر کی شام پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے تحریک التوا کے ذریعے پیٹرول کی قیمت میں ہوئے حالیہ اضافے کی وجوہات جاننا چاہیں تھیں۔ وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر بابر اعوان صاحب نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ شوکت ترین صاحب بذات خود ایوان میں آکر انہیں تسلی بخش جواب فراہم کردیں گے۔ وہ دن مگر یہ کالم لکھنے تک آیا نہیں ہے۔"سب پہ بالادست" ہونے کے دعوے کرتا ایوان اگر شوکت ترین جیسے غیر منتخب مشیر سے میرے اور آپ کی زندگی اجیرن بنانے والے اقدامات کا جواب طلب نہ کر پائے تو وہ مبینہ طورپر ووٹ کو عزت نہ دینے والے طاقت وروں کا کیا بگاڑپائے گا۔