ارشد وحید چودھری کی جواں سالی میں موت نے بوکھلا دیا ہے۔ وگرنہ ہفتے کی سہ پہر سے ذہن میں دو موضوعات طے ہوچکے تھے۔ مطمئن تھا کہ اتوار کی صبح اُٹھنے کے بعد ان میں سے کسی ایک کو زیر بحث لاتے ہوئے روانی میں کالم لکھ ڈالوں گا۔
عمر کے حوالے سے ارشد مجھ سے کئی برس جونیئر تھا۔ ہم دونوں نے کبھی کسی صحافتی ادارے میں ایک ساتھ کام بھی نہیں کیا۔ گزشتہ برس کے آغاز میں لیکن جب میں ٹی وی صحافت سے راندئہ درگاہ ہوکر پرنٹ صحافت کو لوٹا تو اس سے شناسائی کا رشتہ استوار ہونا شروع ہوگیا۔ پارلیمان کی عمارت اور وہاں ہوئے اجلاسوں نے قربت کے راستے بنائے۔ قومی اسمبلی یا سینٹ کا اجلاس جاری ہو تو بجائے پریس گیلری تک محدود رہنے کے میں پریس لائونج کے ایک صوفے پر "خلیفوں " کی طرح براجمان ہوجاتا ہوں۔ کئی جونیئر میرے گردجمع ہوکر پیشہ وارانہ دُکھڑے بیان کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔
ارشد وحید نے اس تناظر میں اپنی لگن، عاجزی اور انکساری سے مجھے حیران اور متاثر کیا۔ وہ "جیو" ٹی وی کا متحرک ترین رپورٹر تھا۔ موبائل فون کی مدد سے پارلیمان میں زیر بحث موضوعات کو ایک باقاعدہ پروگرام کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی راہ اس نے انتہائی تخلیقی انداز میں نکالی تھی۔ اپنی "ایجاد" کی بابت مگر وہ کبھی اِتراتا نظر نہیں آیا۔
ہم صحافیوں کی اکثریت کو اپنی فلاں خبر، ٹاک شو یا کالم کے ذریعے "تھرتھلی" مچانے کا زعم لاحق رہتا ہے۔ ارشد نے اپنے "کارنامے" سنانے سے مگر ہمیشہ گریز کیا۔ وہ میرے مقابلے میں کہیں زیادہ متحرک تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین پارلیمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا۔ اس کے باوجود پریس لائونج کے صوفے پر میرے ہمراہ بیٹھ کر پُرخلوص انکساری سے "رہ نمائی" کا طلب گار رہتا۔ کئی بار اس کی بہت محنت سے ڈھونڈی خبروں کو ان دنوں بہت ہی "ذمہ دار" ہوئی صحافت کی وجہ سے سکرین یا اخبار کے صفحے پر جگہ نہ ملتی۔ ایک مرتبہ بھی لیکن اس کی بابت وہ گلہ کرتا سنائی نہیں دیا۔ نہایت ثابت قدمی سے خبروں کی تلاش جاری رکھی۔"جوئے شیر" لانے کی ایسی مشقت بقول غالبؔ آپ کو "سخت جانی ہائے تنہائی" کا شکار بنادیتی ہے۔ میں یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ ارشد وحید چودھری بالآخر کرونا کی وجہ سے نہیں بلکہ "سخت جانی ہائے تنہائی" سے جانبرنہ ہوسکا۔ ساری عمر صحافت کی نذر کردینے والی حماقت دریافت کرلینے کے باوجود میں اپنے کئی جونیئر ساتھیوں پر ان دنوں نازل ہوئے کرب اور اذیتوں کو دھیان میں لاتا ہوں تو جی گھبراجاتا ہے۔ ربّ سے رحمت کی فریاد کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
"جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے" وہ مگر اس وقت مزید ناقابل برداشت محسوس ہوتے ہیں جب یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے بہی خواہوں نے "صحافت" کو بلااستثناء "لفافہ" ٹھہراکر اسے دورِ حاضر کا ایک رذیل پیشہ بنادیا ہے۔ ہم صحافیوں کا اجتماعی وقار اور ساکھ چھین لینے کے باوجود مگر ان کی تسلی نہیں ہورہی۔ اصرار ہورہا ہے کہ پاکستانی صحافی "قومی بیانیے" کو فروغ نہیں دے رہے۔ ہر حوالے سے "کرپٹ ثابت ہوچکے" نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری جیسے "طفلانہ وارثوں " کے سحر میں مبتلا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔"غیر ذمہ دارانہ صحافت" کی وجہ سے اُبھرے غم وغصے کو ذہن میں لاتا ہوں تو نہایت سنجیدگی سے اس دن کا انتظار کرنا شروع کردیتا ہوں جب صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرنے کے لئے کئی امتحانوں سے گزرنے کے بعد کوئی "لائسنس" حاصل کرنا لازمی ٹھہرادیا جائے گا۔
صحافت اور قومی بیانیے کا ذکر چھیڑنے کے بعد یہ اعتراف لازمی ہے کہ ہفتے کے دن وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک اہم ترین پریس کانفرنس سے خطاب کیا ہے۔ نہایت مہارت سے جمع کئے ٹھوس شواہد کے ذریعے یہ حقیقت اجاگر کردی گئی کہ ہمارا ازلی دشمن پاکستان میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے لئے کئی تنظیموں پر بھاری بھر کم سرمایہ خرچ کررہا ہے۔ ہفتے کے دن ہوئی پریس کانفرنس کے توسط سے منکشف ہوئے حقائق کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوں کہ مذکورہ حقائق کو منظرِ عام پر لانے کے لئے اس دن کا انتخاب کیوں ہوا جو عالمی میڈیا کے لئے "ویک اینڈ" شمار ہوتا ہے۔ بھارت کو بھی حقائق کی بدولت شرمندہ کرنے کے لئے یہ دن اس لئے غیر مناسب تھا کیونکہ وہاں دیوالی کا تہوار منایا جارہا تھا۔ ایک اہم ترین پریس کانفرنس لہٰذا مناسب پذیرائی اور ردعمل سے محروم رہی۔ غالباََ بہتر یہی تھا کہ بتائے گئے حقائق کو منظرِ عام پر لانے کے لئے 16نومبر2020والی پیر کا انتظار کرلیا جاتا۔ نظر بظاہر عجلت برتی گئی ہے۔ ریاستی فیصلہ سازوں تک رسائی سے قطعاََ محروم ہوتے ہوئے اگرچہ میں یہ سوچنے کو بھی مجبور ہورہا ہوں کہ "عجلت" اگر واقعتا برتی گئی ہے تو کوئی ٹھوس اطلاع اس کا باعث ہوسکتی ہے۔
خود کو نظر آتی "عجلت" کے اسباب پر غور کیا تو یاد آیا کہ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے جوبائیڈن سے شکست کھانے کے باوجود اپنے وزیر دفاع کو فارغ کردیا ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتخاب ہوجانے کے بعد اہم ترین وزارتوں میں ایسی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں۔ حکومت خود کو 20جنوری کے دن نئے صدر کا حلف اٹھانے کا انتظار کرتے ہوئے روزمرہّ کے امور پر توجہ دینے تک محدود کرلیتی ہے۔
ٹرمپ نے امریکی وزارتِ دفاع کا نگہبان اب جن دو افراد کو بنایا ہے وہ دونوں چند اہم ترین معاملات کے حوالے سے Hawkشمار ہوتے ہیں۔ ایک شخص ایران کو ہمیشہ "سبق" سکھانے کو بضد رہا۔ قاسم سلیمانی کی عراق میں ڈرون حملے کے ذریعے ہلاکت اس کے کھاتے میں ڈالی جاتی ہے۔ ہمارے لئے اہم ترین مگر ایک اور شخص ہے جو ٹرمپ کی جانب سے "لاحاصل جنگوں " کی مخالفت کا پُرجوش حامی ہے۔ ٹرمپ نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ وہ آئندہ ماہ آنے والے کرسمس سے قبل افغانستان میں مقیم ہر امریکی فوجی کو وطن واپس لے آئے گا۔ امریکی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار لہٰذا اس شک میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ صدارتی انتخاب ہارجانے کے باوجود ٹرمپ افغانستان سے 2020والی کرسمس سے قبل امریکی افواج کو باہر نکالنے کے وعدے پر ڈٹا ہوا ہے۔ اپنے عزائم کو ہر صورت بروئے کار لانے کے لئے وہ جوبائیڈن اور اس کی جانب سے نامزد ہوئے ان افراد کو اہم ریاستی امور کی بابت بریفنگ کے ذریعے On Boardلینے کو بھی تیار نہیں جو نئے صدر کا حلف اٹھانے تک انتظامیہ کی Transitionکو "اچانک" نمودار ہوئے دھچکوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
افغان جنگ سے متعلق طالبان سمیت ہر مقامی اور غیر ملکی فریق کے ساتھ کسی معقول اور قابل عمل دکھائی دیتے معاہدے کے بغیر ٹرمپ نے کرسمس سے قبل اپنی افواج کو اس ملک سے واپس بلوالیا تو وہاں ایک خوفناک "خلا" نمودار ہوجائے گا۔ افغانستان اس کی وجہ سے ایک اور خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے جو 1980کی دہائی سے مسلط ہوئی خانہ جنگیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خونخوار ثابت ہوسکتی ہے۔
ہفتے کے دن ہوئی پریس کانفرنس واضح انداز میں بیان کررہی ہے کہ بھارت کے جاسوسی ادارے افغان حکومت میں سلامتی اور جاسوسی کے معاملات پر نگاہ رکھنے والے اداروں کو اپنا ہم نوابناچکے ہیں۔ افغانستان اس کی وجہ سے پاکستان کے خلاف "پراکسی جنگ" جاری رکھنے کا بلکہ ایک اہم مرکز بن چکا ہے۔ ہوشربا حقائق کو منظرِ عام پر لاتے ہوئے پاکستان نے غالباََ ٹرمپ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ فی الوقت امریکی افواج کو افغانستان سے اناپرستانہ عجلت میں نکالنے سے گریز کرے۔ بائیڈن انتظامیہ کو یہ موقعہ فراہم کرے کہ وہ افغانستان میں دائمی امن کی تلاش میں جاری عمل کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے۔
صدر ٹرمپ کے اتاولے پن کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہم مودی سرکار کے عزائم کی بابت بھی غافل نہیں رہ سکتے۔ صدارتی انتخاب کے نتائج کو بردباری سے تسلیم کرنے کے بجائے ٹرمپ نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ بھارت کو آئندہ دو سے تین ماہ تک پھیلی ایک ایسی Windowبھی دِکھاسکتا ہے جو اسے ہمارے خلاف کسی بڑے Adventureپر اُکسائے۔ داخلی ہیجان کی زد میں آئے امریکہ کے پاس اس کے عزائم پر نگاہ رکھنے کی فرصت ہی نہیں ہوگی۔"آپا دھاپی کے اس ماحول میں ہمیں بہت چوکنا رہنا ہوگا۔