جس سفاکیت کے ساتھ حافظ الاسد اور اس کے خاندان نے شام پر 1970ء سے اپنی بادشاہی مسلط رکھی تھی اس کا دفاع کسی بھی صاحبِ دل کے لئے ممکن نہیں۔ مذکورہ خاندان کے خلاف 1980ء کی دہائی سے مزاحمت کی کئی۔ تحاریک چلیں۔ ان سب کو نہایت بربریت سے کچل دیا گیا۔ فضائی بمباری سے کئی تاریخی مقامات کے نشان تک مٹادئے گئے۔ مزاحمت کے مرکز ہوئے قصبات وہاں کے باسیوں سمیت نیست ونابود ہوگئے۔
بذاتِ خود ایک اقلیتی مسلک سے تعلق رکھنے کی وجہ سے حافظ الاسد اور اس کاخاندان "سیکولر" ہونے کا دعوے دار تھا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اکثریت کے دلوں میں اسرائیل کی وجہ سے امریکہ کے خلاف اُبلتے جذبات کو مگر مکاری سے بھانپتے ہوئے وہ امریکہ کے خلاف انتہا پسند رویہ اپنائے رکھتا تھا۔ شام کے حقائق سے ناواقف سادہ لوح مسلمان اسے اپنا خیرخواہ گردانتے رہے۔
یہ سب لکھنے کے باوجود مگر یہ تسلیم کرنے کو رضا مند نہیں کہ اس کی مخالف قوتیں "یکدم" اس قابل ہوگئیں کہ دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں انہوں نے ایران اور روس کی مدد سے تیار ہوئی شامی افواج کو پسپا ہونے کو مجبور کردیا۔ جس تنظیم نے "انقلاب" کی قیادت کی نام ہے اس کا "حیات تحریر الشام "۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سنی اس کے حامی ہیں۔ یہ چند عرب ملکوں کی سرپرستی میں بنائی "اسلامی تنظیموں" کے مقابلے میں معتدل مزاج سمجھی جاتی ہے۔ ترکی پر اس تنظیم کا سرپرست ہونے کا شبہ ہے جس کے صدر اردوان بھی معتدل مزاج سنی مسلک کے ترجمان ہیں۔
اپنی "معتدل" تاریخ کے باوجود مذکورہ تنظیم کا موجودہ سربراہ ابو محمد الجولانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اصل نام اگرچہ اس کا احمد ہے۔ شنید ہے کہ موصوف سعودی عرب کے شہر ریاض میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا کا تعلق شام کے "گولان(جولان)پہاڑوں کے اس سلسلے سے تھا جو برسوں سے اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ جولان سے بے دخل ہوکر ان کا خاندان سعودی عرب منتقل ہوگیا جہاں ان کے والد کو پٹرولیم انجینئر ہونے کی وجہ سے خوش حالی وراحت نصیب ہوئی۔ اپنے خاندان کی راحت بھری زندگی کے باوجود جولانی عراق پر امریکہ کے قبضے کے بعد ابو مصعب الزرقاوی کی سربراہی میں قائم ہوئی "القاعدہ" سے منسلک ایک تنظیم میں شامل ہوگیا۔ عراق ہی سے گرفتار ہوکر امریکہ کی قید میں پانچ سال گزارے۔ 2011ء میں رہا ہوا تو شام کو اسد خاندان کے قبضے سے آزاد کروانے کی جنگ میں مصروف ہوگیا۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری بخوبی جانتے ہیں کہ میں سازشی کہانیوں سے خارکھاتا ہوں۔ اس کے باوجود الجولانی کی امریکی افواج کے ہاتھوں پانچ سال لمبی قید مجھے بہت کچھ سوچنے کو اُکسانا شروع ہوگئی۔ بغیر کسی ثبوت کے انگریزی محاورے والا نکتے سے نکتہ ملاتا چلا گیا اور بالآخر یہ افسانہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ الجولانی کو بالآخر امریکی افواج نے ترکی کی مدد سے "نیٹو" نامی فوجی اتحاد کا کارندہ بنالیا ہے۔ گزشتہ مہینے کے صدارتی انتخاب کی بدولت ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ ماہ کی 20جنوری کو وائٹ ہائوس پہنچ جائے گا۔ اس نے وعدہ کررکھا ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی "ڈیپ سٹیٹ" کو لگام ڈال دے گا۔ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز اختیار کرتے ہوئے دنیا کو بلاوجہ مسلط ہوئی جنگوں سے محفوظ رکھنا چاہے گا۔
نجانے کیوں میرا وسوسوں بھرا دل الجولانی کی شخصیت سے تھوڑی آگہی کے بعد یہ سوچنے کو مجبور ہورہا ہے کہ موجودہ امریکی صدر بائیڈن نے اپنے اقتدار کے آخری ہفتوں میں "ڈیپ سٹیٹ" کے ساتھ مل کر الجولانی کو ترکی کے صدر کو ساتھ ملاکر "تھاپڑا" لگایا۔ روس یوکرین کی جنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے اس خاندان کی مدد کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ ایران محض حزب اللہ کے رضا کار ہی اسد خاندان کی حفاظت کے لئے میدان میں اتارسکتا ہے۔ گزشتہ دو مہینوں سے مگر اسرائیل نے تابڑتوڑ حملوں کے ذریعے حزب اللہ کی کمر توڑ دی ہے۔
حسن نصراللہ سمیت اس کے اہم ترین کمانڈروں کو شہید کردیا گیا ہے اور ایران بذاتِ خود اس قابل نہیں تھا کہ بشارالاسد کے خلاف برق رفتاری سے دمشق کو بڑھتی مزاحمتی افواج کو روکنے کے لئے اپنی زمینی افواج دمشق میں اتارسکتا۔ ایران اور روس کی محدودات کو ذہن میں رکھتے ہوئے نہایت مہارت سے گیم لگی اور اسد خاندان کی طویل حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں فقط سوالات ہی سوالات ہیں۔ فی الوقت یہ دُعا ہی مانگی جاسکتی ہے کہ شام جیسے تاریخی، تہذیب کے مرکز اور خوب صورت ملک کا انجام صومالیہ، یمن اور سوڈان جیسا نہ ہو جہاں سفاکانہ آمریت کے خاتمے کے بعد سے استحکام ابھی تک ناپید ہے۔ مختلف شہر مختلف دھڑوں کے قبضے میں ہیں اور وہ ایک دوسرے کو نیست ونابود کرنے کیلئے ہر نوعیت کا مہلک خیز اسلحہ استعمال کررہے ہیں۔
شام پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے بطور پاکستانی ہمیں ایک اور حوالے سے بھی ہوشیار وخبردار رہنا ہوگا۔ ہمارے سوشل میڈیا پر کئی پاکستانی ایسی تصاویر لگارہے ہیں جن سے یہ تاثر ابھررہا ہے کہ جیسے حافظ الاسد محض سنی مسلک کو شدت سے دبانا چاہ رہا تھا اور اس ضمن میں اسے اور اس کے بیٹے کو ایران کی بھرپور معاونت میسر تھی۔
دوسری جانب ایک گروہ یہ تاثر پھیلانے میں مصروف ہے کہ فتح کے خمار میں دمشق میں داخل ہوئے انقلابی کچھ ایسے مقامات کی بے حرمتی میں مصروف ہیں جو ایک اور مسلک کے لئے مقدس گردانی جاتی ہیں۔ نہایت منظم انداز میں پھیلائی ایسی تصاویر کا واحد مقصد پاکستان میں مسلکی اختلافات بھڑکانا ہے۔ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ شام میں بھڑکتی آگ سے خود کو محفوظ رکھیں۔ اپنے حالات پر توجہ مرکوز رکھیں او اس امر کو یقینی بنائیں کہ ہمارے ہاں جمہوری نظام قائم دائم رہے تاکہ "سوطرح کے پھول اپنی بہار دکھاتے رہیں"۔