مسلمان عورت کے بارے میں کئی صدیوں سے یہ باور کیا جاتا ر ہا ہے کہ وہ پردے میں چھپی اپنے گھر کے کسی کونے میں دبک کر بیٹھی رہتی ہے۔ اس کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ ساری عمر باپ بھائیوں اور بعدازاں خاوند کی خدمت گزاری میں مصروف رہتی ہے۔ بھارتی خواتین کی جواں نسل نے تاہم حیران کن جرأت وبہادری سے مذکورہ تاثر کو جھٹلانا شروع کردیاہے۔
منگل کی صبح سے انٹرنیٹ پر ایک وڈیو وائرل ہورہی ہے بھارتی صوبہ کرناٹک کی ایک طالب علم سکوٹر پر بیٹھی اپنے کالج پہنچتی ہے۔ اپنے چہرے اور بدن کو اس نے برقعہ اور نقاب سے ڈھانپ رکھا ہے۔ سکوٹر کھڑا کرنے کے بعد وہ جب کالج میں داخل ہوتی ہے تو اوباش جنونیوں کا ایک گروہ ہندو انتہا پسندوں کے پسندیدہ رنگ والے رومال اور مفلر لہراتے ہوئے اس پر آوازے کسنا شروع ہوجاتا ہے۔ خود کو اوباش لونڈوں میں گھرا پاتے ہوئے بھی وہ بچی خوفزدہ نہیں ہوتی۔ غنڈوں کو للکارنے کے لئے کامل سرشاری سے "اللہ اکبر" پکارنا شروع ہوجاتی ہے۔ تنہا بچی کی یہ للکار جنونیوں کو تقریباََ مفلوج بنادیتی ہے۔
مذکورہ واقعہ سے تین برس قبل مسلمان بچیوں کی جرأت وبہادری کی بے تحاشہ وڈیوز بھارتی دارالحکومت سے بھی نمودار ہوئی تھیں۔ مودی سرکار نے ان دنوں شہریت کے نام پر ایک ایسا قانون پارلیمان سے منظور کروایا جس کا واضح ہدف بھارتی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا تھا۔ دہلی کی تاریخی جامعہ ملیہ سے مذکورہ قانون کے خلاف طلباء نے احتجاجی جلوس نکالا۔ پولیس نے روایتی وحشت کے ساتھ اسے لاٹھیوں کی برسات سے روکنے کی کوشش کی۔
زخمی طلباء کو حوصلہ دینے جامعہ ملیہ کی طالبات ڈھال کی صورت اختیار کرنا شروع ہوگئیں۔ ان کی اکثریت نے اپنے چہرے نقاب یا برقعہ میں نہیں چھپارکھے تھے۔ ان کی اکثریت ٹی شرٹ اور جینز پہنے ہوئے تھی۔ اس تحریک کی بدولت مسلمان خاتون کی ایک نئی شناخت بھرپور انداز میں دنیا کے سامنے آرہی تھی جسے اجاگر کر نے کے لئے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کے علاوہ پرانے دلی کی ہزاروں گھریلو خواتین رات بھر جاری رہے دھرنوں میں بیٹھی رہتیں۔ کرونا سے حفاظت کے نام پر مودی سرکار کے لگائے لاک ڈائون نے اگرچہ اس تحریک کو منطقی انجام تک پہنچنے نہیں دیا۔ مجھے گماں ہے کہ کرناٹک کے کالج میں ہوا واقعہ 2019میں دبائی تحریک کے احیاء میں مددگارثابت ہوسکتی ہے۔
مذکورہ تحریک کاا حیاء تاہم ہندوانتہا پسندی کی لگائی آگ کو بھی مزید بھڑکاسکتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے بھارت کے سب سے بڑے صوبے یوپی میں مقامی اسمبلی کے لئے انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے۔ 20کروڑ آبادی کا یہ صوبہ گزشتہ پانچ برسوں سے ایک "یوگی" وزیر اعلیٰ کی گرفت میں ہے۔ اپنے اقتدار کے دوران اس نے تمام تر سرکاری وسائل کو تاریخی اعتبار سے "اودھ" کہلاتے صوبے کی تاریخی شناخت مٹانے پر مرکوز رکھی۔ کئی شہروں کے "اسلام" کی یاد دلانے والے نام بدلے۔
گنگ وجمن کے ملاپ پر ہونے والی یاتراکو کرونا کے باوجود پرہجوم بنانے کے انتظامات کئے۔ بے شمار کٹرہندو بھی سرگوشیوں میں تسلیم کرتے ہیں کہ کرونا کی دوسری لہر کے دوران جو قیامت خیز مناظر دیکھنے کو ملے ان کے کلیدی اسباب میں وہ یاترا بھی شامل تھی جسے کمھب کا میلہ بھی پکارا جاتا ہے۔ کرناٹک میں بلند ہوا "اللہ اکبر" کا نعرہ یوگی کے جنونی حامیوں کو چراغ پا بھی بناسکتا ہے۔ یوپی کے بڑے شہروں اور قصبا ت میں ہندو مسلم فسادات کی اس کی وجہ سے شدید ترین لہر بھی نمودار ہوسکتی ہے۔
ممکنہ لہر مگر "مسلم شناخت" اجاگر کرنے کی خواہش کو دبا نہیں پائے گی۔ اسے محض بھڑکاہی سکتی ہے۔ بھارت کی مسلم خواتین اس کا ہر اوّل دستہ شمار ہوسکتی ہیں۔ بھارت ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک ان دنوں قوم پرست جنونیوں کے نرغے میں گھرچکے ہیں۔ برطانیہ میں برکسٹ ہوا۔ امریکہ میں ٹرمپ کو کامیابی نصیب ہوئی۔ ہنگری وکٹراوربان نامی دیوانے کی گرفت میں ہے اور پولینڈ میں بھی قوم پرست جنونیت انتہا کو چھورہی ہے۔ فرانس جیسا "مہذب" ملک بھی اسلام دشمن لہر کی زد میں ہے۔
یورپی قوم پرستوں کی احمقانہ نقالی کرتے ہوئے بھارت کے ہندوانتہاپرست مگر یہ حقیقت فراموش کئے ہوئے ہیں وہ اپنے ہاں کئی صدیوں سے آباد مسلمانوں کو اجنبی اور بیگانہ قرار دیتے ہوئے غلامی یا جلاوطنی کو مجبور نہیں کرسکتے۔ آبادی کے ٹھوس اعدادوشمار یہ حقیقت عیاں کرتے ہیں کہ بھارت کا ہر چھٹا شہری مسلمان شناخت کا حامل ہے۔ اس بھاری بھر کم تعداد کو دیوار سے لگانا ممکن ہی نہیں۔ وہ جرمنی میں آباد ہوئے یہودیوں جیسے نہیں جن کا ہٹلر نے "حتمی حل" ڈھونڈنے کی حماقت کی تھی۔
بھارت اپنے "امیج" کے بارے میں بہت فکر مند رہتا ہے۔ منگل کے دن اس کی وزارتِ خارجہ نے جنوبی کوریا کے سفیر کو طلب کیا۔ اس سے احتجاج ہوا کہ پاکستان میں کوریا کا متعارف کروایاایک برانڈ بنانے والی کار کمپنی نے 5فروری کے روز مقبوضہ کشمیر میں محصور ہوئے لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کیاہے۔ مذکورہ احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ نے نہایت ڈھٹائی سے یہ حقیقت نظرانداز کردی کہ حال ہی میں روس کے سرکاری ٹیلی وژن نے بھی ایک ڈاکومینٹری تیار کی ہے جو متاثر کن انداز میں مقبوضہ کشمیر کو ایک اور فلسطین کی صورت اختیار کرتا دکھارہی تھی۔ وزارت خارجہ اس امر کی بابت بھی بے خبر ہونے کا ڈھونگ رچارہی ہے کہ امریکہ کا ایک مؤثر ترین اخبار -نیویارک ٹائمز-کئی دنوں سے مسلسل ایسے تفصیلی مضامین برسرزمین جاکر چھاپ رہا ہے جو مسلمانوں اور مسیحی برادری کے خلاف سرکاری سرپرستی میں پھیلائے تعصب کو بے نقاب کررہے ہیں۔
عالمی سطح پر کرناٹک کی اصل پہچان اس کا شہر بنگلور ہے۔ اسے انٹرنیٹ کا مرکز تسلیم کرتے ہوئے "بھارت کی سلیکون وادی" پکارا جاتا ہے۔ خوش گوار حقیقت یہ بھی ہے کہ مذکوہ شہر کوانٹرنیٹ کا مرکز بنانے میں چند مسلم نابغوں نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ وہ شہر ہندوانتہا پسندی کی وحشیانہ علامت میں تبدیل ہوگیا تو بھارت کے امریکہ جسے دوستوں کے لئے منافقانہ لاتعلقی برقرار رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ ان کی جانب سے سنکیانگ کے مسلمانوں تک محدود رکھی "ہمدردی" یوں بے نقاب ہونا شروع ہوجائے گی۔"انٹرفیتھ ہارمونی" کے نام پر دھندا چلانے والے مجبور ہوجائیں گے کہ بنگلور کی ان سافٹ وئیر کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم چلائیں جو ہندو انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں۔
کرناٹک کے ایک کالج میں اوباش لونڈوں کے غول میں گھری مسلمان بچی کو دیکھتے ہوئے ذاتی طورپر مجھے مزید دھچکا اس وجہ سے بھی لگاکیونکہ 1990کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر پر حاوی ہوئی شورش کی وجہ سے کشمیری مسلمان بچیوں کی خاطر خواہ تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بنگلور وغیرہ منتقل ہونا شروع ہوگئی تھی۔ بنیادی وجہ اس کی یہ حقیقت تھی کہ مذکورہ صوبے میں اردو بھی ان زبانوں میں شامل ہے جو اعلیٰ تعلیم کے لئے استعمال ہوسکتی ہیں اور یہ زبان 5اگست 2019تک ریاست جموں وکشمیر کی کئی دہائیوں سے سرکاری اور تعلیمی زبان رہی ہے۔
کرناٹک کے جنونی لونڈوں نے درحقیقت اپنے صوبے کی رواداری والی پہچان ہی کو دھچکا لگایا ہے۔"اللہ اکبر" پکارنے والی بچی کو تو وہ دھمکانہ سکے۔ کرناٹک میں آباد مسلمانوں کی تعداد فقط 13فی صد ہے۔ ہندو وہاں کم از کم 83فی صد اکثریت کے حامل ہیں۔ ایسی تعداد کے ہوتے ہوئے بھی حجاب سے خوفزدہ ہونے کی حماقت انتہا پسندی کے ہاتھوں کند ہوئے ذہنوں ہی سے برپا ہوسکتی ہے۔