ربّ کا سو بار شکر۔ 20جنوری 2021کا دن خیروعافیت سے گزر گیا۔ دُنیا بھر کے نجومی یکسوہوکر انتہائی اعتماد سے دعویٰ کررہے تھے کہ اس دن برج ثور میں مریخ اور یورینس کا ملاپ کسی "انہونی" کا سبب ہوگا جس کے اثرات سے نبردآزماہونے میں آئندہ بیس برس لگ جائیں گے۔ اس ضمن میں نائن الیون اور دسمبر 1979میں روسی افواج کی افغانستان پر چڑھائی کے حوالے بھی دئے گئے۔
مریخ اور یورینس کا ملاپ یا اتصال واقعتا کوئی "انہونی" برپا کرتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں عقل کا ضرورت سے زیادہ غلام ہونے کی وجہ سے کوئی رائے دینے سے معذور ہوں۔ مجھے شبہ ہے کہ 20جنوری 2021کے دن ہوئے ملاپ کی بابت خوف پھیلاتی کہانیاں غالباََ اس بنیاد پر سوچی گئیں کیونکہ اس دن جوبائیڈن نے امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھانا تھا۔ ٹرمپ نے اس کی جیت کو خوش دلی سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ دھاندلی کی دہائی مچاتے ہوئے اپنے حامیوں کو اشتعال دلاتا رہا۔ 6جنوری کے روز ان میں سے ہزاروں لوگ واشنگٹن میں جمع ہوگئے۔ وہاں پارلیمان کی عمارت میں داخل ہوکر "تاریخ" بنادی۔ ان کے رویے نے 20جنوری کو "ہولناک" بناکر دکھانے کی راہ نکالی۔
ہم پاکستانیوں کی اکثریت ویسے ہی امریکہ کے بارے میں "دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں " والی خواہش میں مبتلا رہتی ہے۔ 1950کی دہائی شروع ہوتے ہی اگرچہ ہم اس کے "اتحادی"بن گئے تھے۔ اس "اتحاد" نے ہمیں فیلڈ مارشل ایوب خان کی صورت ایک "دیدہ ور" دیا۔ موصوف کی "دیدہ وری" مشرقی پاکستان میں احساس محرومی کی آگ بھڑکاتی رہی۔ بالآخر 1971آگیا۔ ہم "ساتویں بحری بیڑے" کے منتظر رہے اور بھارت نے اپنی فوج کے ذریعے بنگلہ دیش بنوادیا۔
محض چھ برس گزارنے کے بعد مگر ہم نے امریکی "بے وفائی"کو فراخ دلی سے بھلادیا۔ دریں اثناء جنرل ضیاء الحق کی صورت ایک اور "دیدہ ور" رونما ہوچکے تھے۔ موصوف نے کمیونزم کو شکست دینے کے لئے افغانستان میں "جہاد" کی سرپرستی فرمانا شروع کردی۔ 1980کی دہائی ہم نے امریکی ڈالر اور اسلحے کی مدد سے افغانستان کو آزاد کروانے میں خرچ کردی۔ ہماری کاوشوں کی بدولت سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ گیا تو "اتحادی" نے ایک بارپھر ہمیں نظرانداز کردیا۔ اکتوبر 1999میں ایک نئے "دیدہ ور" نے اقتدار سنبھال کر اسے ہماری یاد دلائی۔ جنرل مشرف کے نوبرس افغانستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے میں خرچ ہوگئے۔
عمران خان صاحب بھی کئی حوالوں سے "دیدہ ور" ہی شمار ہوتے ہیں۔ جولائی 2019میں ان کی ٹرمپ سے وائٹ ہائوس میں ملاقات ہوئی تو امریکی صدر نے ازخود مسئلہ کشمیر حل کروانے میں "ثالث" کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں خوش گوار طورپر حیران کردیا۔"ثالثی" کی پیش کش تاہم 5اگست2019کے روز ہمارے کام نہیں آئی جب مودی سرکار نے ڈھٹائی سے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ"ہڑپ" کرلیا۔ یہ سانحہ ہوجانے کے باوجود مگر ہم ٹرمپ کے لگائے زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں "امن" کے قیام کے لئے بھرپور معاونت فراہم کرتے رہے۔
ہمیں یہ بھی گمان ہے کہ چین جیسے یارکے ہوتے ہوئے ہمیں امریکہ کی ضرورت نہیں رہی۔ آئی ایم ایف سے اگرچہ 6ارب ڈالر کی "امدادی رقم" حاصل کرنے کا معاہدہ بھی کررکھا ہے۔ اس کی بدولت کساد بازاری کی لہر آئی۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اپنی "خودمختاری" کا ہم مگرسینہ پھلاتے ہوئے ڈھول بجاتے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو دیکھنے کی جرأت نہیں دکھاتے کہ ہماری معیشت عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور اداروں کی کامل محتاج ہے۔ امریکہ کی "خانہ جنگی" کی وجہ سے ممکنہ بربادی ہمارے لئے بھی خیر کی خبر نہیں ہوگی۔
بہرحال 20جنوری 2021کا دن آیا اور خیروعافیت سے گزرگیا۔ جوبائیڈن نے امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھالیا ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی اس نے کئی احکامات پر دستخط کردئیے جو ٹرمپ کی نسل پرست اور خودغرض Legacyکا تریاق ثابت ہوسکتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کی اکثریت مصر ہے کہ اقتدار کے کھیل سے کامل آشنا جوبائیڈن اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر امریکہ کو اس جنونی "گروہ بندی" سے نجات دلوائے گا جو نسل پرستوں نے امریکی سفید فام آبادی کے دلوں میں دہائیوں سے موجود تعصبات کو بھڑکاتے ہوئے مسلط کی ہے۔ ٹرمپ اس جنون کا بھرپور نمائندہ تھا۔ جوبائیڈن اس کے مقابلے میں ایک "زیرک بزرگ" کے طورپر لیا جارہا ہے۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ "دانش مند بابے" کی فراست کو بروئے کارلاتے ہوئے وہ امریکی عوام کو خاندان کی صورت متحدہونے کو آمادہ کردے گا۔
جوبائیڈن کا اصل چیلنج مگر امریکہ کو دُنیا کے سامنے ایک Role Modelکے طورپر اجاگر کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ پسپا ہوتا دِکھ رہاہے۔ کمیونزم کی شکست کے بعد جو "عالمی نظام"، قائم ہوا تھا وہ دُنیا میں امن، چین اور خوش حالی کو یقینی نہ بناپایا۔ اس نے جومایوسی پھیلائی وہ نریندر مودی جیسے انتہاپسندوں کے کام آئی۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے جدائی کا باعث ہوئی۔ ترقی کو خلافت عثمانیہ کے "احیائ" کے راستے پر ڈال دیا۔ پولینڈ اور ہنگری متعصب آمروں کی گرفت میں چلے گئے۔
ہیجان اور افراتفری کے اس ماحول میں ہمارا یار چین یقینا استحکام اور ترقی کا خیرہ کن ماڈل بن کر اُبھرا ہے۔ کرونا کی وباء وہاں کے شہر ووہان میں پھوٹی تھی۔ دُنیا بھر میں اس نے تباہی مچادی۔ چین نے کمال سرعت سے مگر اس وباء پر قابو پالیا اور اپنی معیشت کو ناقابلِ برداشت دھچکوں سے بچایا۔ چین کا استحکام، ترقی اور خوش حالی دُنیا بھر کے کئی ملکوں میں سیاسی نظام کی بابت غوروفکر میں مبتلا افراد کو یہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ "آزادیٔ اظہار" اور سیاسی جماعتوں پر مشتمل "جمہوریت" خلقِ خدا کے کام نہیں آتی۔ بہتر یہی ہے کہ ریاست ایک سخت گیر والد کی طرح لوگوں کو ڈنڈا دکھاتے ہوئے سیدھی راہ پر چلاتی رہے۔ جوبائیڈن کا امریکہ اس سوچ کا مؤثر Counterفراہم کرسکتا ہے یا نہیں فی الوقت طے کرنا کم از کم میرے لئے ممکن نہیں۔
کرونا کی وباء نے سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں ہزاروں سوال اٹھادئیے ہیں۔ امیر اور غریب کے مابین تفریق اس نے دل دہلاتے ہوئے واضح کردی ہے۔ اوبامہ نے 2008میں جب اقتدار سنبھالا تب بھی عالمی سرمایہ دارانہ نظام بحران سے دو چار تھا۔"تبدیلی" کا نعرہ لگاکر برسراقتدار آئے اوبامہ کو ریاستی خزانے سے بھاری بھر کم Bailout Packagesدیتے ہوئے "پرانے" نظام ہی کو بچانا پڑا۔ کرونا نے مگر اس نظام کی بے ثباتی کو ایک بار پھر بے نقاب کردیا ہے۔ جوبائیڈن امریکی معیشت کو بحال کرنے اور کم آمدنی والوں کی زندگی آسان بنانے کے لئے ایک بار پھر قومی خزانے سے بھاری بھر کم Stimulusدینے کا ارادہ باندھے ہوئے ہے۔ نظام کی کامل شکست وریخت وہ برداشت نہیں کرسکتا۔"پرانے نظام" کی بحالی غالباََ اس لئے درکار ہے کہ دُنیا ابھی تک اس کا مؤثر متبادل نہیں ڈھونڈ پائی ہے۔
متبادل کی مؤثر تلاش پُرخلوص سے توجہ دینے کی بجائے نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت مگر اپنے دلوں میں اُبلتے غصے کو فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے بیان کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ ان دونوں Appsکی بدولت دُنیا بھر کے معاشرے جنونی گروہوں میں تقسیم ہورہے ہیں۔ انہیں چلانے والی کمپنیاں وباء کے موسم میں بھی ریکارڈ توڑمنافع کمارہی ہیں۔ خلقِ خدا کی بہتری کی بابت کلیدی سوالات پر سنجیدہ بحث کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ایسی بحث کی "بحالی" کے بغیر Stimulusکے ذریعے معاشی نظام کی "بحالی" بالآخر کسی کام نہیں آئے گی۔