اپنی سوچ کو ہر حوالے سے برحق ثابت کرنے کا مرض فقط دین کے نام پر سیاست کرنے والوں کو ہی لاحق نہیں ہے۔ نام نہاد ترقی پسند یا لبرل ہونے کے دعوے داروں نے بھی اس تناظر میں نہایت محدود دائرے کھینچ رکھے ہیں۔ ان کے معیار پر پورا نہ تریں تو بے جواز مذمت شروع ہوجاتی ہے۔
ذاتی طورپر میں خود کو غالبؔ کے اتباع میں "ہم کہاں کے دانا تھے" والا لکھاری ہی سمجھتا ہوں جو کسی بھی ہنر میں یکتا نہیں ہے۔ اردو میری مادری زبان نہیں۔ طالب علمی کے دوران اس کے مقابلے میں بلکہ انگریزی زبان سیکھنے کی مشقت سے گزرتا رہا۔ رزق کمانے کے لئے مگر اردو میں لکھنے کو مجبور ہوا۔ ایک دن کے لئے بھی اس گماں میں کبھی مبتلا نہیں ہوا کہ میری تحریر پڑھنے والوں کو کسی موضوع پر اپنی رائے بنانے میں مدد دیتی ہے۔ ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھتے ہی جو خیال ذہن میں آئے برجستہ بیان کردیتا ہوں۔ یوں میری دیہاڑی لگ جاتی ہے۔
منگل کی صبح جو کالم چھپا تھا وہ اتوار کی شام پاکستان اور بھارت کے مابین ورلڈ کپ کے ضمن میں کھیلےT-20کرکٹ میچ کے بارے میں تھا۔ طویل عرصے کے بعد میں نے وہ میچ تقریباََ آغاز سے اختتام تک دیکھا۔ پاکستان کی جیت نے طمانیت بخشی۔ مجھے کرکٹ کے رموز کی ککھ سمجھ نہیں۔ محض عام تماشائی ہوتے ہوئے بھی لیکن اتوار کا میچ دیکھتے ہوئے یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ ہماری جیت محض خوش بختی کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ ہمارے کپتان اور اس کے ساتھی نہایت اعتماد سے ایک مناسب حکمت عملی کو بروئے کار لاتے رہے۔ مخالف ٹیم کو اس کی بدولت مسلسل حواس باختہ رکھا۔ ان کی محنت اور لگن داد کی مستحق تھی۔ منگل کی صبح چھپے کالم میں اس حوالے سے اپنے خیالات بیان کردئیے۔
وہ میچ ختم ہونے کے بعد میں نے چند لمحوں کے لئے اپنا ٹویٹر اکائونٹ بھی دیکھا تھا۔ وہاں چھائے چند بھارتی شامی نام کے کھلاڑی کو اپنی ہار کا واحد ذمہ دار ٹھہرارہے تھے۔ یہ کہنے سے لہٰذا بازنہ رہ پایا کہ شامی کی مذہبی شناخت اس کی مذمت کا واحد سبب ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ بھارت کے کئی باوقار صحافیوں نے بھی ایسا ہی محسوس کیا۔ برکھادت اس ضمن میں بہت نمایاں رہی۔ میں ان صحافیوں کا البتہ ذکر نہ کرپایا۔ بھارتی کپتان نے جس وقار سے اپنی ہار کو تسلیم کیا اس کا اعتراف کرنا مگر لازمی تصور کیا۔
منگل کی صبح میرا کالم چھپ کر سوشل میڈیا پرپوسٹ ہوگیا تو روشن خیال اور متوازن ذہن کے مالک ہونے کے دعوے دار ایک صاحبِ بصیرت نے اسے "یک طرفہ" ٹھہرایا۔ مجھے یاد دلایا کہ ہماری جیت کے بارے میں شیخ رشید اور اسد عمر جیسے پاکستانی وزراء نے بھی متعصبانہ بیانات دئیے ہیں۔ مجھے ان کی بھی مذمت کرتے ہوئے خود کو "باشعور"ثابت کرنا چاہیے تھا۔
سچی بات یہ رہی کہ میں نے پیر کی صبح اپنا کالم لکھنے تک مذکورہ وزراء کے بیانات نہیں دیکھے تھے۔ اگر دیکھتا تو ان کا ذکر بھی شایدکردیتا۔"روشن خیال" دانشوروں کے مگر طعنے سنے تو سعادت حسن منٹو یاد آگئے۔ منٹو صاحب بلاشبہ اردو زبان کے نہایت جی دار افسانہ نگار تھے۔ اپنے دور کی محدودات کا غلام نہیں ہوئے۔ ناقابلِ اشاعت تصور ہوتے کئی موضوعات کو انتہائی جرأت و بے باکی سے بیان کرتے رہے۔ اس کی بدولت فحش نگاری کی تہمت حاصل کی۔ عدالتوں میں پیشاں بھگتے رہے۔
منٹو صاحب کے زمانہ میں ہمارے ادب اور میڈیا پر نام نہاد ترقی پسندوں کا تقریباََ اجارہ تھا۔ قیام پاکستان کے دوران وحشیانہ ہندو مسلم فسادات کے بے شمار درد ناک پہلوئوں کو لیکن فقط منٹو ہی نے نہایت درد مندی سے اپنے اچھوتے انداز میں بیان کیا۔ حکومت پنجاب نے ان پر اس کی وجہ سے ایک سنگین مقدمہ دائر کردیا۔ ہمارے روشن خیال ترقی پسند مگر ان کی حمایت میں کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہوئے۔ اپنی صفائی کے لئے منٹو نے فیض احمد فیض کی گواہی بھی پیش کرنا چاہی تھی۔ وہ عدالت میں لیکن ان کا بھرپور انداز میں دفاع نہ کرپائے۔ منٹو کی حمایت میں سب سے طاقت ور گواہی بلکہ عابد علی عابد صاحب کی جانب سے آئی۔ وہ قدامت پرست اور رجعت پسند شمار ہوتے تھے۔ عدالت میں کھڑے ہوکر اردو ادب کے مستند استاد نے مگر ڈٹ کر تسلیم کیا کہ منٹو کے جس افسانے کو زیر عتاب لانے کی کوشش ہورہی ہے اسے پڑھنے کے بعد انہوں نے اپنی بیٹی کو بھی اسے پڑھنے کی جانب راغب کیا تھا۔ زیر بحث افسانہ اگر واقعتا فحش ہوتا تو ان جیسا باپ اپنی بیٹی کو اسے پڑھنے کی ترغیب نہ دیتا۔ سعادت حسن منٹو کو بالآخر ترقی پسندوں نے اپنے دائرہ ایمان سے بھی خارج کردیا۔ منٹو مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اپنی روش پر ڈٹے رہے۔
امریکہ اور سوویت یونین کے مابین دریں اثناء سرد جنگ شدید تر ہونا شروع ہوچکی تھی۔ سعادت حسن منٹو ترقی پسندوں کے بنائے دائرے سے خارج ہوئے تو امریکی پراپیگنڈہ کے لئے مامور اہلکاروں نے ان سے رابطہ کیا۔ منٹو مرحوم کو ایک افسانہ لکھنے کے ان دنوں پچاس سے زیادہ روپے نہیں ملتے تھے۔ اس رقم کے حصول کے لئے بھی انہیں اشاعتی اداروں کے کئی چکر لگانا پڑتے تھے۔ امریکی پیغامبروں نے انہیں مناسب رقم ایڈوانس کے طورپر پیش کی۔ منٹو نے ڈھٹائی سے اسے وصول کیا مگر "انکل سام کے نام" خطوط لکھنا شروع ہوگئے۔ آج بھی ان خطوط کو پڑھیں تو حیرانی ہوتی ہے۔ امریکہ کا عاجزانہ ساتھ دینے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں جو بحران سنگین سے سنگین تر ہورہا ہے۔ اسے منٹو کے تخلیقی ذہن نے آج سے کئی دہائیاں قبل ہی بھانپ لیا تھا۔ ترقی پسندوں کی اکثریت اگرچہ "امریکہ کا جو یار ہے…" والے نعرے ہی لگاتی رہی۔
پاکستان کی ادبی تاریخ کو زیر بحث لانا اس کالم کا مقصد نہیں۔ فقط اصرار کرنا ہے کہ ریاست پاکستان کی جانب سے لاگو قوانین کے تحت چلائے اخبارات کے لئے کچھ لکھتے ہوئے آپ کو بہت احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے۔ برجستگی کو برقرار رکھتے ہوئے چند خیالات اس تناظر میں بیان ہوسکیں تو انہیں فتوے بازی کا نشانہ نہیں بلکہ کھلے دل سے سراہنے میں کوئی حرج نہیں۔ خود کو عقل کل اور ہر اعتبار سے متوازن اور روشن ذہن کے حامل تصور کرنے والے افراد مگر ایسی کشادہ دلی دکھانہیں سکتے۔ ان کا رویہ بلھے شاہ اور منٹو جیسی جرأت کا تقاضہ کرتا ہے جس سے میں قطعاََ محروم ہوں۔