قیام پاکستان کے فوری بعد ہمارے حکمرانوں کا اولین فرض یہ تھا کہ برطانیہ سے آزاد کروائے ملک کو چلانے کے لئے آئین مرتب کیا جائے۔ اس فریضہ پر توجہ دینے کے بجائے لیکن ملک کو "بدعنوان سیاستدانوں " سے پاک کرنا اولین ترجیح بنالیا گیا۔ اس ضمن میں "پروڈا" نام کا قانون بنا۔ سندھ کے منتخب وزیر علیٰ ایوب کھوڑو اس کا پہلا نشانہ تھے۔
کھوڑو صاحب کا اصل گناہ مگر یہ تھا کہ وہ کراچی کو سندھ سے کاملاََ جدا کرکے وفاقی حکومت کے تصرف میں دینے کے حامی نہیں تھے۔ اس قضیے میں ان کی جانب سے برتی مزاحمت انہیں "بدعنوان" قرار دینے کا سبب ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعدازاں اسی "بدعنوان" شخص کو پاکستان کا وزیر دفاع بنادیا گیا۔ ان کے دستخطوں سے جنرل ایوب خان کو بطور آرمی چیف معیاد ملازمت میں توسیع دے کر ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کی کاوش ہوئی۔
کھوڑو صاحب "عبرت کی مثال" تونہ بن پائے۔ یہ روایت مگر چل بڑی کہ اگر کوئی سیاستدان اپنی "اوقات" سے باہر نکلنے کی کوشش کرے تو اسے "چور ڈاکو" پکارنا شروع ہوجائو۔ عدالتوں میں بالآخر یہ الزام ثابت ہوپائے یانہیں اس کی بابت سوچنے کی زحمت ہی کبھی نہیں اٹھائی گئی۔
وطن عزیز کے تمام مسائل کا سیاستدانوں کو واحد ذمہ دار ثابت کردینے کے بعد بالآخر اکتوبر1958میں جنرل ایو ب خان صاحب نے فیصلہ کیا کہ قدم بڑھاکر اقتدار پر قابض ہوجائیں۔ اپنے اقدام کو انہوں نے "انقلاب" پکارا۔ ان دنوں کے سرکردہ سیاست دانوں کو ایبڈو نامی قانون کے تحت سات برس تک سیاست میں حصہ لینے کے ناقابل ٹھہرادیا گیا۔ میری یادداشت کے مطابق چودھری ظہور لٰہی اور حسین شہید سہروردی ہی دو ایسے سیاستدان تھے جنہوں نے "ایبڈو" کے تحت اپنے خلاف ہوئی کارروائی کو عدالتوں میں چیلنج کیا اور کئی برسوں تک اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی تگ ودو میں مصروف رہے۔
حسین شہید سہروردی جیسے قد آور بنگالی کی سیاسی عمل سے جبری بدری کے بعد ان دنوں کے مشرقی پاکستان سے منعم خان جیسے"محبان وطن" ڈھونڈ کر انہیں کامل اختیارات کا مالک بنادیا گیا۔ بعدازاں سہروردی صاحب بیرون کے ایک ہوٹل میں پراسرار دل کے دورے کے سبب فوت ہوگئے۔ ان کے انتقال نے جو خلاپیدا کیا اسے شیخ مجیب الرحمن جیسے انتہا پسندوں نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندی کے رحجانات کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا۔ انجام اس کا دسمبر1971میں بنگلہ دیش کے قیام کی صورت برآمد ہوا۔
جولائی 1977میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد جنرل ضیا نے ایبڈو جیسے قوانین کے استعمال سے سیاستدانوں کو قابو میں لانے کی کوشش نہیں کی۔ فقط ذوالفقار علی بھٹو کو نشانہ بنایا۔ ان کے خلاف کرپشن کے بجائے اپنے ایک سیاسی مخالف کو قتل کروانے کا الزام لگانے کے بعد پھانسی پر لٹکادیا۔ بھٹو صاحب سے نجات کے بعد پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں "کالعدم" ٹھہرادی گئیں۔ یہ پابندی اکتوبر1979سے 1985کے وسط تک برقرار رہی۔ اس برس "غیر سیاسی بنیادوں " پر عام انتخاب بھی ہوئے۔
ان کے نتیجے میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آئیں۔ انہیں منظم اندازمیں چلانے کے لئے لازمی تھا کہ سیاسی جماعتیں بحال کردی جائیں۔ وہ بحال ہوئیں تو محض تین برس بعد مئی 1988میں جنرل ضیا نے اپنی ہی تشکیل کردہ اسمبلیوں کو "کرپشن" کے الزامات لگاکر فارغ کردیا۔ "اب کیا کریں " سوچ ہی رہے تھے کہ فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد انتخاب ہوئے اور سیاست کے حوالے سے ہم "آنے والی تھاں " پر واپس آگئے۔ صدر کو مگر آٹھویں ترمیم کی وجہ سے یہ اختیار میسر رہا کہ وہ جب چاہے منتخب وزیر اعظم کو کرپشن کے الزام لگاکر فارغ کردے۔
یہ اختیار محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف استعمال ہوا تو 1990میں نواز شریف پہلی بار ہمارے وزیر اعظم ہوئے۔ وہ اقتدار میں تین برس بھی مکمل نہیں کر پائے تھے کہ غلام اسحاق ان سے اکتا گئے۔ کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے انہیں بھی فارغ کردیا۔ نئے انتخاب کروانے کے لئے جو عبوری حکومت قائم ہوئی اس میں وزارت بجلی وتوانائی آصف علی زرداری کے حصے میں آئی۔ غلام اسحاق خان ان سے حلف لیتے ہوئے ایک لمحے کو بھی یاد کرتے نظر نہیں آئے کہ موصوف کوانہوں نے تین برس تک کرپشن کے الزامات کے تحت جیل میں رکھا ہوا تھا۔
محترمہ کی دوسری حکومت کو پیپلز پارٹی ہی کے لگائے صدر فاروق لغاری نے آٹھویں ترمیم کی بدولت میسر اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرپشن کے الزامات کے تحت نومبر1996میں فارغ کیا تھا۔ غلام اسحاق خان نے جب نواز شریف کی پہلی حکومت برطرف کی تھی تو نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے روزانہ کی سماعت کے بعد اسے بحال کردیا تھا۔ اس کے بعد ہم اس گماں میں مبتلا ہوگئے کہ صدر آٹھویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات کو استعمال کرنے سے قبل سو بار سوچے گا۔
نواز شریف حکومت کی بحالی کے لئے سپریم کورٹ نے جو "تاریخی فیصلہ" لکھا تھا وہ آج بھی پارلیمان کی دیواروں پر سنگ مر مر کی سلوں میں نمایاں انداز میں کنندہ ہوا دِکھتا ہے۔ سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے تاہم فاروق لغاری کے فیصلے کو "واجب" ٹھہرادیا۔ اس کے بعد جو انتخاب ہوا اس کے نتیجے میں نواز شریف صاحب "ہیوی مینڈیٹ" کے تحت وزارت عظمیٰ کے منصب پر واپس لوٹ آئے۔ جنرل مشرف نے بالآخر اکتوبر1999میں براہ راست اقدام کے ذریعے انہیں بھی گھر بھیج دیا۔
پاکستان کو کرپٹ سیاستدانوں سے پاک کرنا جنرل مشرف کا بنیادی مشن تھا۔ اپنے ہدف کے حصول کے لئے انہوں نے نیب جیسا ادارہ بنایا۔ انہیں اقتدار سے رخصت ہوئے 12برس گزرچکے ہیں۔ نیب مگر جاہ وجلال کے ساتھ ان کا مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ وطن عزیز کے بیشتر سیاستدان "چور اور لٹیرے"ہی تصور ہورہے ہیں۔ دریں اثناء ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں "صادق اور امین" ٹھہرائے عمران خان صاحب نمودار ہوگئے۔
رواں برس کے اپریل میں وہ بھی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھربھیج دئیے گئے۔ کرپشن کے خلاف دہائی مگر بدستور جاری ہے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ کرپشن سے انتہائی نفرت کے باوجود ہم اس سے نجات پانے میں اب تک کیوں ناکام رہے ہیں۔