شہباز شریف صاحب سے جب بھی سرراہ ملاقات ہوئی ہمیشہ عزت واحترام سے ملے۔ محنتی اور پرجوش آدمی ہیں۔ ان کی نمایاں خصوصیات کے باوجود میں نے انہیں بنیادی طورپر ایک سیاست دان نہیں بلکہ متحرک منیجر ہی شمار کیا ہے۔
خاص نوعیت کے ٹیکنوکریٹ جو اقتصادی ترقی کی خاطر میگاپراجیکٹ سوچنے کے بعد انہیں برق رفتاری سے قابل عمل بنانے کی راہ بھی ڈھونڈلیتے ہیں۔ اس خوبی نے انہیں ایک دلیر فیصلہ سازکی شہرت فراہم کی۔ جس دن سے تاہم انہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے "فیصلہ ساز" والی شہرت بہت تیزی سے ضائع ہوتی نظر آرہی ہے۔
عمران خان کے اندازِ سیاست کی بابت ہزاروں تحفظات کے باوجود اس کالم کے ذریعے میں فریاد کرتا رہا ہوں کہ انہیں مانگے تانگے کے ووٹوں سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ نہ کیا جائے۔ سیاستدانوں کی مگر اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ان صحافیوں کے خیالات کو ان دنوں ویسے بھی کوئی وقعت نہیں دی جاتی جو محض اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔ ٹی وی پرگراموں میں "سینئر تجزیہ کار" کی صورت نمودار نہیں ہوتے۔ یوٹیوب پر "اپنا چینل" بناکر لوگوں کی "ذہن سازی" کے ذریعے ڈالر نہیں کماتے۔
عمران خان صاحب کی "کسی کوبھی نہیں چھوڑوں گا" والی ضد سے اُکتاکر اگست 2018ء سے اپوزیشن میں بیٹھی جماعتیں باہمی اختلافات بھلاکر گزشتہ برس کے وسط سے بتدریج متحد ہونا شروع ہوگئیں۔ دریں اثناء سابق وزیر اعظم کے خودپرست رویے نے ان کی جماعت کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے چند اراکین اسمبلی ہی نہیں بلکہ "اتحادی" جماعتوں کو بھی ناراض کرنا شروع کردیا۔ حکومتی جماعت قومی اسمبلی کے اجلاس رواں رکھنے کے لئے کورم کے لئے درکار 86اراکین بھی ایوان میں موجود رکھنے کے قابل نہ رہی۔ بہتر یہی تھا کہ اسے اپنے فطری انجام کی جانب بڑھنے دیا جاتا۔
اس برس کا آغاز ہوتے ہی عمران حکومت کو بے تحاشہ معاشی مشکلات بھی درپیش آنا شروع ہوگئیں۔ آئی ایم ایف نے اسے "منی بجٹ" لانے کو مجبور کیا۔ اس کے علاوہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے لئے کامل خودمختاری کو یقینی بنانے والے قانون کا تقاضہ بھی ہوا۔ آئی ایم ایف کی کامل جی حضوری بھی لیکن عمران حکومت کے کام نہیں آئی۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ بڑھانے کا تقاضہ جاری رہا۔ عمران حکومت یہ نرخ بڑھاتے ہوئے سیاسی اعتبار سے کمزور تر ہونا شروع ہوجاتی۔
سابق وزیر اعظم کو اس امر کا بخوبی علم تھا۔ وہ "بھولے"تو ہیں مگر اتنے بھی نہیں۔ گزشتہ برس کے وسط سے یہ جان چکے تھے کہ ان کی فراغت کی "دیگ" چولہے پر رکھ دی گئی ہے۔ ہونی کا ٹالنا مشکل نظر آیا تو ایک دن ٹی وی پر قوم سے براہ راست خطاب فرماتے ہوئے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں کو منجمد کردیا۔
رواں برس کی فروری کے آخری ہفتے میں روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ روس تیل وگیس کے ذخائر سے مالا مال ہونے کے علاوہ گندم پیدا کرنے والے ممالک میں بھی سرفہرست ہے۔ یوکرین بھی گندم کے علاوہ بے تحاشہ غذائی اجناس پیدا کرتا ہے۔ روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل اور غذائی اجناس کا بحران پیدا ہونا شروع ہوگیا۔
پاکستان کے لئے اس کے اثرات سے محفوظ رہنے کی کوئی راہ ہی موجود نہیں تھی۔ بہتر یہی تھا کہ سنگین تر ہوتے بحران سے عمران حکومت ہی کو نبردآزما ہونے دیا جاتا۔ "وسیع تر قومی مفاد" کے نام پر بلکہ سابقہ حکومت کو معاونت کی پرخلوص یا منافقانہ یقین دہانی کروائی جاتی۔
ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر کئی برسوں سے گوشہ نشین ہونے کے باوجود میں پورے اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ لندن میں مقیم نواز شریف بھی ذاتی طورپر کم از کم رواں برس کے آغاز تک عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی تجویز پر رضا مند نہیں ہورہے تھے۔ غالباََ انہیں رام کرنے کو منظم سرگوشیوں کے ذریعے اسلام آباد میں افواہ یہ پھیلائی گئی کہ سابق وزیر اعظم 29مئی 2022ء کے بعد کسی بھی روز موجودہ آرمی چیف کے جانشین کے نام کا اعلان کردیں گے۔ اس سے قبل 1991ء میں جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل آئے جون میں آصف نواز جنجوعہ کے نام کا اعلان ہوا تھا۔ کہانی یہ پھیلائی گئی کہ اس بار "تاریخ" چھ ماہ قبل ہی دہرادی جائے گی۔
متوقع جانشین کے حوالے سے جو نام نمایاں تر رہا اپوزیشن جماعتوں ہی نہیں اتحادی جماعتوں کی اکثریت بھی ان سے خوفزدہ محسوس کرتی ہے۔ ایک ریاستی ادارے کے اہم افسر کی حیثیت میں انہوں نے 2018ء میں ہوئے انتخاب کے دوران کمال کی جلوہ گیری دکھائی تھی۔ بعدازاں جب وہ اس کے سربراہ بنے تو "سیم پیج" کے ڈھول بجادئیے۔ 29مئی کے حوالے سے ان کے نام نے اپوزیشن ہی نہیں "منحرف" حکومتی اراکین اور اتحادی جماعتوں کو بھی بقول منیر نیازی "ان کے گھر میں " ڈرادیا۔ نامعلوم کے خوف میں مبتلا ہوئے افراد عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کو لہٰذا یکجا ہوگئے۔
پارلیمانی جمہوریت میں وزرائے اعظم کی تحریک عدم اعتماد کی بدولت فراغت معمول تصور ہوتی ہے۔ ہماری "جمہوریت" مگر ہمیشہ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہی رہی ہے۔ کہنے کو ہمارے ہاں "تحریری آئین" بھی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے بھی تاہم قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو سامراجی سازش ٹھہراتے ہوئے "مسترد" کردیا۔ تحریک عدم اعتماد پر ہمارا "تحریری آئین"جس گنتی کا تقاضہ کرتا ہے اسے بروئے کار لانے کے لئے 9اور دس اپریل کی درمیانی رات حیران کن واقعات رونما ہوئے۔ بالآخر شہباز شریف صاحب 11اپریل کے روز پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے میں اصرار کرتا ہوں کہ اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی شہباز شریف صاحب کو اپنی کابینہ تشکیل دینے کے بجائے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر واضح الفاظ میں قوم کو بتادینا چاہیے تھا کہ ملکی معیشت کو سری لنکا جیسے بحران سے بچانے کے لئے لازمی ہے کہ چند سخت اور سیاسی اعتبار سے غیر مقبول فیصلے لئے جائیں۔
"بھان متی کا کنبہ" دِکھتی حکومت ایسے فیصلے اٹھا نہیں سکتی۔ نئے انتخاب کرانا ہوں گے۔ ان کی بدولت جو حکومت بھی معروض وجود میں آئے ایسے اقدامات لینے کی مجاز ہوسکتی ہے۔ وہ یہ اعلان کردیتے تو اس وقت تک ملک میں عبوری حکومت قائم ہوچکی ہوتی۔ اس میں بیٹھے "ٹیکنوکریٹ" آئی ایم ایف سے وقتی رعایتیں بھی حاصل کرلیتے۔ سیاسی جماعتیں دریں اثناء انتخابی مہم میں مصروف ہوجاتیں۔
شہباز صاحب کو غالباََ اپنی قوت فیصلہ پر کامل یقین تھا۔ موجودہ اسمبلی کی "آئینی مدت" مکمل کرنے کے گماں میں مبتلا ہوگئے۔ حکومتی ذمہ داریوں سے آزاد ہوجانے کے بعد مگر عمران خان صاحب اب شہر شہر جاکر امریکی سامراج اور پاکستان میں موجود اس کے "میر جعفروں " کے خلاف مہم چلانا شروع ہوگئے ہیں۔
یہ بات زیر بحث ہی نہیں آرہی کہ اگست 2018ء سے اپریل 2022ء کے درمیان ان کی حکومت کی کارکردگی کیسی رہی۔ عمران خان صاحب اپنے جلسوں کی گرم جوشی سے مرغوب ہوکر اب وہ "حدیں " بھی پار کرنا شروع ہوگئے ہیں جو ہمارے سیاستدانوں کے لئے "ممنوعہ" تصورہوتی رہی ہیں۔ اعلیٰ ترین عدلیہ اور فوجی قیادت ان کی مسلسل زد میں ہے۔
شہباز صاحب انہیں "لگام ڈالنے" کی راہ مگر دریافت نہیں کرپارہے۔ پیر کی شام قومی اسمبلی سے ہوا ان کا خطاب"بے بسی" کی بھرپور مثال تھا۔ اب بھی وقت ہے۔ تسلیم کرلیں کہ "بھان متی کے کنبہ" کی قیادت کرتے ہوئے وہ اپنی فیصلہ ساز ہونے کی شہرت برقرار نہیں رکھ سکتے۔ دلیری سے نئے انتخاب کی جانب بڑھیں اور "تاریخ" بنائیں۔