ہارے ہوئے لشکر کو ہمدردی ظالم دُنیا میں شاذہی نصیب ہوتی ہے۔ "جیہڑا جتے اودے نال" کے عادی معاشرے میں بلکہ اس کا تمسخر ہی اُڑایاجاتا ہے اور میری دانست میں نام نہاد "انتہائی تجربہ کار" سیاستدانوں سے بھری ہماری اپوزیشن جماعتیں ان دنوں ایک ہارا ہوا لشکر ہیں۔ خود کو بہت کائیاں تصور کرتے ان کے رہ نما کمال سادگی سے اس گماں میں مبتلا رہے کہ ہمارے ہاں ایک "تحریری آئین" کی عملداری ہے۔ اس کا "احترام" ہر صورت واجب ہے۔ "آئین کی بالادستی"کے واہمے سے مغلوب ہوکر انہوں نے وزیر اعظم عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔ اس کی حمایت میں مطلوبہ تعداد سے کہیں زیادہ اراکین اسمبلی بھی اپنے ہم نوا بنالئے۔
کرکٹ سے سیاست میں آئے عمران خان صاحب نے مگر ڈاکٹر بابر اعوان اور فواد چودھری جیسے "ماہرین قانون" کی مدد سے ایسے حربے ڈھونڈ لئے جو بروئے کار آئے تو اپوزیشن ہکا بکا رہ گئی۔ تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں گنتی سے قبل پاکستان کے امریکہ میں تعینات سفیر کاایک "مراسلہ" بھی نمک مرچ لگاکر عوام کو سنایا گیا۔ اس کے ذریعے پاکستانیوں کی مؤثر تعداد کو قائل کردیا گیا کہ دُنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتا امریکہ عمران خان صاحب کی اپنائی "آزاد"خارجہ پالیسی سے پریشان ہوگیا ہے۔
یوکرین پر حملے سے ایک روز قبل وزیر اعظم صاحب نے روسی صدر سے ماسکو میں ملاقات کے بعد واشنگٹن کو مزید چراغ پا بنادیا۔ وہ انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کروانے کی تڑپ میں مبتلا ہوگیا۔ اپوزیشن جماعتوں میں بیٹھے "چور اور لٹیرے" جنہوں نے "حرام کی کمائی" سے کئی غیر ملکوں میں قیمتی جائیدادیں خرید رکھی ہیں امریکہ کی معاونت کو فی الفور آما دہ ہوگئے۔ انہوں نے عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے کی ٹھان لی۔
پاکستانی سفیر کی جانب سے مبینہ طورپر لکھے "مراسلے" کی بنیاد پر تحریک انصاف نے جو بیانیہ تشکیل دیا اپوزیشن جماعتوں نے اسے بے بنیاد ثابت کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ اپنی "گنتی" بڑھانے ہی میں مشغول رہے۔ بالآخر گزرے اتوار کے روز جب تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے روبرو آنا تھی تو فواد چودھری صاحب نے دھواں دھار تقریر کے ذریعے اسے "غیر ملکی سازش" ٹھہرادیا۔
ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اپوزیشن کو اپنے دفاع میں ایک لفظ ادا کرنے کی مہلت دینے کے بجائے فواد چودھری صاحب کے دلائل سے کامل اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو رعونت سے مسترد کردیا۔ مذکورہ تحریک ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی تو اس کے چند ہی لمحوں بعد عمران خان صاحب نے بطور وزیر اعظم صدر مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی "ایڈوائس" بھیج دی۔ وہ میدان ہی معدوم ہوگیا جہاں اپوزیشن نے عمران خان صاحب کو پچھاڑنا تھا۔
وزیراعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو جس دیدہ دلیری سے ردی کی ٹوکری میں پھینکا گیا اس نے سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کو مجبور کردیا۔ مذکورہ نوٹس لیتے ہوئے عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے تحریری فیصلے کے ابتدائیہ میں عندیہ بھی دیا کہ وہ اپنے ساتھی ججوں کی ایما پر یہ نوٹس لینے کو متحرک ہوئے ہیں۔ ان کے لکھوائے ابتدائیہ کو پڑھتے ہوئے مجھے گماں یہ ہوا کہ غالباََ وہ اپنے تئیں اتوار کے روز ہوئے ان واقعات کی عدالتی پڑتال کو تیار نہ ہوتے جنہیں اپوزیشن جماعتیں آئین کی دیدہ دلیرپائمالی ٹھہرارہی ہیں۔
ہمارا تحریری آئین اگر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے ہاتھوں واقعتا رسہ گیروں سے مختص ڈھٹائی کے ساتھ بے حرمت ہوا ہے تو وطن عزیز کی اعلیٰ ترین عدالت میں موجود تمام عزت مآب ججوں کو باہم مل کر اس کی عدالتی پڑتال کرنا چاہیے تھی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ جس انداز میں عدالتی پڑتال جاری ہے وہ اتوار کے روز ہوئے واقعات کا غیر معمولی تشویش کے ساتھ جائزہ لیتی محسوس نہیں ہورہی۔
دریں اثناء صدر مملکت نے تحلیل ہوئی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کو چٹھی لکھ دی ہے۔ اس کے ذریعے امریکہ کے "ایجنٹ" قرار دئے شہباز شریف سے درخواست ہوئی ہے کہ وہ عبوری حکومت کی سربراہی کے لئے کوئی نام تجویز کریں۔ تحریک انصاف اس تناظر میں حال ہی میں ریٹائر ہوئے چیف جسٹس گلزار صاحب کا نا م تجویز کرچکی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں میں بیٹھے "غدار" اب حواس باختہ ہیں۔ وہ پریشان ہیں کہ اگر انہوں نے عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے عارف علوی کے ساتھ "مشاورت" کے عمل میں حصہ نہ لیا تو عمران خان صاحب اپنی پسند کی عبوری حکومت حاصل کرلیں گے۔ ممکنہ حکومت کے ہوتے ہوئے انہیں "صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ" انتخاب نصیب نہیں ہوں گے۔ تحریک انصاف دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت میں واپس آجائے گی۔ اس کے بعد عمران خان صاحب کے لئے "گلیاں ہوون سنجیاں " والا ماحول پیدا ہوجائے گا۔ عارف علوی کا لکھا خط ان کے گلے میں چھپکلی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ وہ اسے تھوکنے یا نگلنے کی سکت سے محروم ہوئے نظر آرہے ہیں۔
دریں اثناء اپوزیشن رہ نمائوں کو یہ فکر بھی لاحق ہوچکی ہے کہ پاکستانیوں کی مؤثر تعداد کو عمران خان صاحب نے شدت سے قائل کردیا ہے کہ امریکہ ان کے خلاف ہوگیا ہے۔ اپوزیشن رہ نما قومی غیرت کے تحفظ کے لئے ان کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے امریکہ کی معاونت کو بے چین ہیں۔ "غداری" کی تہمت والے داغ کو مٹانے کے لئے وہ عسکری اور قومی سلامتی کے نگہبان اداروں سے فریاد کئے جارہے ہیں کہ امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کی جانب سے آئے "مراسلے" کی عوام کے روبرو "وضاحت" فراہم کردی جائے۔
وہ ذرائع جن پر میں عموماََ اعتماد کرتا ہوں یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ تین سرکردہ اپوزیشن رہ نمائوں نے مذکورہ بالا تناظر میں منگل کے دن ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کے سربراہ سے براہ راست رجوع بھی کیا۔ مبینہ طورپر جو ملاقات ہوئی میڈیا اس سے بے خبر رہا۔ یوں گماں ہورہا ہے تسلی کی جس امید کے ساتھ ان رہ نمائوں نے مبینہ طورپر جو ملاقات کی وہ کماحقہ تشفی فراہم نہ کرپائی۔ میرؔ کی طرح اتوار کے دن "غدار" قرار پائے افراد اب "خوار" ہوئے محسوس کررہے ہیں۔