میرے اور آپ جیسے بے بس ولاچار پاکستانیوں کی روزمرہّ زندگی اجیرن بنانے والے فیصلے عموماََ نام نہاد"ٹیکنوکریٹس" کی جانب سے تشکیل دئیے جاتے ہیں۔ وہ امریکہ اور یورپ کی مشہور ترین یونیورسٹیوں کے طالب علم رہے ہوتے ہیں۔ ڈگری کے حصول کے بعد ملٹی نیشنل اداروں کے ملازم ہوجاتے ہیں۔ چند ورلڈ بینک یاآئی ایم ایف کے ساتھ مل کر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ وفروغ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ہم جیسے عالمی اداروں کی مہربانی کے محتاج ممالک اکثر اپنی معیشت کو سنوارنے کے نام پر ان ٹینکوکریٹس کو بہت چائوسے وطن بلاکر اہم ترین ریاستی اداروں کے مدارالمہام بنادیتے ہیں۔
ٹینکوکریٹس کے ناز نخرے اٹھانے کے لئے جواز یہ تراشا جاتا ہے کہ وہ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت کی طرح مبینہ طورپر چور اور لٹیرے نہیں۔ انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخاب نہیں لڑنا ہوتا۔ نوکری ان کی مجبوری نہیں۔ معاشی پالیسیاں بناتے ہوئے لہٰذا وہ کامل پیشہ وارانہ بنیادوں پر فیصلے کرتے ہیں۔ انہیں حکمرانوں کی چاپلوسی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
1980کی دہائی سے میں اسلام آباد کا کسی زمانے میں ضرورت سے زیادہ متحرک رپورٹر ہوتے ہوئے حکومتی فیصلہ سازی کے عمل کو بہت قریب سے دیکھتا رہا ہوں۔ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم پہلے ٹینکوکریٹ تھے جن کے ساتھ صحافت کے علاوہ کئی اور واسطوں سے بھی گہرا تعلق قائم ہوا۔ مرحوم معیشت کے ذہین ترین طالب علموں میں شمار ہوتے تھے۔ ایک سکول ماسٹر کا بیٹا ہوتے ہوئے وہ غریب اور کم آمدنی والے لوگوں کے روزمرہّ مسائل سے بھی ناآشنا نہیں تھے۔ ذاتی طورپر سادہ طرز زندگی کے عادی اور ایمان دار بھی تھے۔ نہایت دکھ سے مگر یہ بیان کرنے کو مجبور ہوں کہ وہ اکثر اقتدار کے اصل مالک ومختار اداروں اور افراد کے جی کو خوش کرنے کے لئے سہانے خواب دکھاتے تھے۔ میں تنہائی میں اکثر جھلاکر ان سے پھکڑپن میں الجھ جاتا۔ کھلے دل کے ساتھ وہ مسکراتے ہوئے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے کہ متوسط طبقے کے کسی فرد کی ذہانت کسی کام نہیں۔ اگر وہ صاحبان اقتدار کو خوش نہ کر پائے۔ معیشت ویسے بھی اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہے۔ فقط اعدادوشمار کو ذہانت سے پیش کرتے ہوئے آپ کسی بھی ملک کی معیشت کو تباہ یا خوش حال ثابت کرسکتے ہیں۔ میں ان کی صاف گوئی سے لاجواب ہوجاتا۔
ڈاکٹر رضا باقر ان دنوں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے آئی ایم ایف کے حکم پر انتہائی بااختیار گورنر بنائے گئے ہیں۔ سنا ہے تعلق ان کا بھی لاہور سے ہے۔ مجھے ان سے سرسری ملاقات کا بھی لیکن شرف حاصل نہیں ہوا۔ پاکستان آنے سے قبل وہ آئی ایم ایف کی جانب سے مصر کی معیشت سنبھالنے کے منصب پر فائز تھے۔ ان کی نگرانی میں اس ملک کی اشیائے صرف کی قیمتوں میں کئی برسوں تک مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ متوسط طبقے کا کچومر نکل گیا ہے۔ مصر کی نیم مارشل لاء حکومت میں تاہم احتجاج کی کوئی گنجائش نہیں۔ مصر کو اپنے تئیں معاشی اعتبار سے مستحکم بناکر وہ اب ہمارا مقدر سنوارنے وطن لوٹ آئے ہیں۔ ان کی نگرانی میں آئی ایم ایف کے تیار کردہ ایک نسخے پر عمل ہورہا ہے جو ہماری معیشت کو شفایاب کرنے کے لئے ستمبر2022تک ایسے فیصلے لیتا رہے گا جو کینسر کی زد میں آئے بدنصیب شخص کے لئے کیموتھراپی جیسے اذیت دہ ہوں گے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر بھی مذکورہ نسخے کا شاخسانہ ہے۔
علم معیشت کی مبادیات سے بھی قطعاََ نابلد ہوتے ہوئے میں یہ تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ شاید طویل المدت بنیادوں پر ہماری معیشت کو استحکام فراہم کرنے کے لئے پاکستانی روپے کی قدر کا کم ہونا لازمی ہے۔ پیشہ وارانہ دیانت داری کا مگر یہ تقاضابھی ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر کوگھٹانے والے فیصلے کو کڑوی گولی بتایا جائے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر مگر اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔
یہ کالم لکھنے سے قبل تازہ ترین جاننے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا تو سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی نظر آئی۔ ڈاکٹر رضا باقر اس میں برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ہوئی ایک تقریب سے خطاب کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ عمران خان صاحب کے قریبی دوست تصور ہوتے انیل مسرت صاحب بھی پینل پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں تحریک انصا ف کے چند متحرک کارکن بھی اس تقریب میں نمایاں ہیں۔ نظر بظاہر یہ تقریب ہر اعتبار سے سیاسی نظر آرہی ہے۔ مقصد اس کا عمران حکومت کے بارے میں مثبت اور اچھی باتوں کوپھیلانا ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ ایک نام نہاد ٹینکوکریٹ نے جو سیاست سے مبرا اور فقط پیشہ وارانہ ماہر ہونے کادعوے دار ہے مذکورہ تقریب سے خطاب کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ رضا باقر صاحب کے دوستوں کا تاہم اصرار ہے کہ مذکورہ تقریب سیاسی نہیں تھی۔ پاکستان کے ایک مشہور بینک نے پاکستان کی معیشت کے نمایاں پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے لئے اس کا اہتمام کیاتھا۔ میں یہ دعویٰ تسلیم کرلیتا ہوں۔ اس کے باوجود یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ اپنی تقریر کے ذریعے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر عمران حکومت کے فرمانبردار ترجمانوں کی طرح اعدادوشمار کے ساتھ بددیانتی سے کھیلتے ہوئے سنائی دئیے۔
وطن عزیز میں ان دنوں ڈالر کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں مسلسل بڑھتی ہوئی قدر کی بابت دہائی مچ رہی ہے۔ ڈاکٹر رضا باقر مگر اسے "اچھی خبر"ثابت کرنے کو تلے ہوئے تھے۔ وہ مصر رہے کہ 90لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے عزیز اور پیاروں کو جو رقم بھیجتے ہیں انہیں اس کے عوض اب پہلے سے زیادہ روپے ملتے ہیں۔ یوں ان کے کنبوں میں خوش حالی پھل رہی ہے۔ آدھے گلاس کو لہٰذا بھرا ہوا دیکھو۔ اسے خالی ٹھہراکر خواہ مخواہ کا واویلا نہ مچائو۔
یہ بات درست کہ اگر مجھے کوئی عزیزباہر سے ڈالر یا دیگر غیر ملکی کرنسی میں کوئی رقم بھیجے گا تو مجھے ماضی کی نسبت اس کے بدلے اب زیادہ پاکستانی روپے ملیں گے۔ مجھے لیکن اپنے بجلی اور گیس کا بل ادا کرنے کے لئے بھی پہلے سے کہیں زیادہ روپے خرچ کرنا ہوں گے۔ گاڑی یا موٹرسائیکل کی ٹینکی بھروانا بھی زیادہ روپوں کا طلب گار ہوگا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر مجھے روزمرہّ اخراجات سے نبردآزما ہونے کی سکت تو فراہم کردے گی مگر بچت کی کوئی صورت ہرگز فراہم نہیں کرے گی۔
پاکستان کی آبادی 22کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے نوے لاکھ بیرون ملک مقیم ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ یہ افراد اور ان پر انحصار کرنے والے کنبے ہماری اجتماعی آبادی کا کتنے فی صد ہیں۔ فرض کیا 20فی صد بھی ہوں تو باقی 80فی صد کس بنیاد پر پاکستانی روپے کی قدر کم ہوجانے پر شادیانے بجائیں۔ یہ سوال مگر رضا باقر صاحب سے کوئی اٹھائے گا نہیں۔ وہ فیصلہ سازی میں خودمختار ہیں۔
عوام کو جوابدہ تصور نہیں کرتے۔ ہماری پارلیمان میں بیٹھی اپوزیشن جماعتوں میں اتنی ہمت نہیں کہ اپنی کسی کمیٹی کے روبرو انہیں طلب کریں اور عوام کے دلوں میں ابلتے سوالوں کے جواب ٹی وی سکرینوں پر براہ راست دکھائی نشریات میں طلب کریں۔ ایسی "عیاشی" صرف امریکہ کے اراکین پارلیمان کو میسر ہے جو ریاستی اداروں کے اہم ترین افراد کو پارلیمانی کمیٹی میں طلب کرکے انہیں پے در پے سوالات سے زچ کردیتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں غلط بیانی سنگین ترین خطا تصور ہوتی ہے۔ پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد نواز شریف کے وہاں دئیے ایک بیان کو ہمارے ذہن ساز اور بلند آہنگ اینکر خواتین وحضرات نے اپنے پروگراموں میں بارہا دہرایا تھا۔ رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے ایک اور ٹینکوکریٹ وزیر خزانہ بارہا دہراتے رہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کردے گا۔ گزشتہ چھ ہفتوں میں لیکن بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بتدریج پانچ روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف مگر اب بھی مطمئن نہیں۔ ڈومور کا تقاضا ہورہا ہے۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے ہمارے سب پہ بالادست "نمائندے" مگر اس کے بارے میں فدویانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔