میری نسل کے صحافیوں کے ذہن میں یہ سوچ شدت سے بٹھادی گئی ہے کہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر تبصرہ آرائی سے ہر صورت گریز کیا جائے۔ مذکورہ روایت کا عادی ہوا یہ کالم نگار لہٰذا اس جرأت سے قطعاََ محروم ہے جو مجھے یہ تصور کرنے کو اُکسائے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اتوار کے روز رونما ہوئے اہم ترین آئینی اور سیاسی امور کے بارے میں بالآخر کیا طے کرے گی۔
ملکی سیاست کا دہائیوں سے شاہد ہوتے ہوئے اس رائے کا اظہار کرنے کو تاہم مجبور محسوس کررہا ہوں کہ عمران حکومت کے گزرے اتوار کے دن لئے اقدامات کو عدالتی توثیق فراہم ہوگئی تو ہماری قومی اسمبلی آئندہ نمودار ہونے والے کسی بھی وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس کے منصب سے ہٹانے کے حق سے قطعاََ محروم ہوجائے گی۔
اس ضمن میں ہمارے تحریری آئین نے جو طریقہ کار طے کررکھا ہے وہ عملاََ مفلوج ہوجائے گا۔ مذکورہ طریقہ کار کا ممکنہ طورپر مفلوج ہوجانا مگر فی الوقت میراموضوع نہیں ہے۔ اہم ترین معاملہ یہ حقیقت ہے کہ اتوار کی صبح قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل ہی اپوزیشن جماعتیں 176اراکین کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئیں۔ یاد رہے کہ اس تعداد میں وہ اراکین قومی اسمبلی شامل نہیں تھے جنہیں تحریک انصاف ان دنوں "منحرف" پکاررہی ہے۔
وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو کامیابی کے لئے 342کے ایوان میں 172اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ اپوزیشن کے لئے مختص نشستوں پر اس تعداد سے چار زیادہ اراکین براجمان تھے۔ ہماری آنکھ نے لہٰذا تحریک عدم اعتماد کا انجام بھانپ لیا تھا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی مگر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے فواد چودھری کو مائیک فراہم کردیا۔
مذکورہ اجلاس سے ایک روز قبل وزارت قانون بھی ان کے سپرد کردی گئی تھی۔ اپنے اضافی اختیارات کو چودھری صاحب نے بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے داستان یہ سنائی کہ امریکہ عمران خان صاحب کی اپنائی "آزاد اور باوقار "خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے خلاف ہوگیا ہے۔ وطن عزیز کو اب وہ خلفشار کی جانب دھکیلنا چاہ رہا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد امریکہ کے مبینہ منصوبے کا پہلا حربہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 5کا احترام کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو لہٰذا مذکورہ تحریک پر گنتی کروانے کے بجائے اسے "مسترد" کردینا چاہیے۔
پارلیمانی روایات کا تقاضہ تھا کہ فواد چودھری صاحب کے لگائے الزامات کے بعد کم از کم قائد حزب اختلاف کو اپنے دفاع میں کچھ کہنے کا موقعہ فراہم کیا جاتا۔ سوری صاحب مگر "حب الوطنی" کی تپش سے مغلوب ہوچکے تھے۔ انہوں نے پھیپھڑوں کا پورا زور لگاتے ہوئے پہلے سے تیار شدہ ایک بیان پڑھتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل 5کے منافی قرار دے کر "مسترد" کردیا اور اجلاس برطرف کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔ ان کے فیصلے کے فوری بعد عمران خان صاحب نے صدر پاکستان کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھی جاری کردی۔
قاسم سوری نے جس انداز میں تحریک عدم اعتماد کو "مسترد" کیا ہے وہ تحریک انصاف کے اس بیانیے کی فدویانہ تائید تھی کہ عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کے منصب سے ہٹانے کے خواہاں تقریباََ 198اراکین قومی اسمبلی درحقیقت امریکہ کے سہولت کار تھے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ وہ "غدارانِ وطن" ہیں۔ یاد رہے کہ مبینہ "غداروں " میں ہمارے سابق صدر آصف علی زرداری بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ کے راولپنڈی میں برسرعام قتل کے باوجود "پاکستان کھپے" کا نعرہ بلند کیا تھا۔
فواد چودھری اور قاسم سوری کی جانب سے "غداروں " کی تیار کردہ فہرست میں اس ملک کے دو سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔ قائد حزب اختلاف تین بار آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری بھی ہیں جن کے نانا نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور ان کی والدہ نے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس میزائل کو دشمن ملک تک پہنچانے والی ٹیکنالوجی کے حصول میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
سوال اٹھتا ہے کہ ہر وقت قومی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والے کئی متحرک اداروں کے ہوتے ہوئے بھی امریکہ ایسے قدآور افراد کو اپنا "ایجنٹ" بنانے میں کیوں اور کیسے کامیاب ہوا۔ عمران حکومت نے مذکورہ افراد پر "غداری" کے جو الزامات لگائے ہیں اگر وہ درست ہیں تو انہیں اب تک گر فتار کرنے کے بعد تفتیش کے مراحل میں جکڑا کیوں نہیں گیا۔
عمران خان صاحب اور ان کے مصاحبین مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ 7مارچ 2022کے دن امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر نے واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے دوران عمران حکومت کے خلاف جارحانہ الزامات لگائے گئے۔ اسے "سبق سکھانے" کی دھمکی بھی دی گئی۔ عمران خان صاحب اور ان کے مصاحبین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ "دھمکی بھرے پیغامات" پر مبنی پاکستانی سفیر نے اسلام آباد کو جو مراسلہ بھیجا اسے کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہماری عسکری قیادت اور قومی سلامتی کے نگہبان اداروں کے سربراہان کے روبرو رکھا گیا۔ وہ مبینہ مراسلے کے ذریعے آئے پیغامات کو مبنی برحقیقت تسلیم کرتے ہیں۔
عمران حکومت کا "غدارانِ وطن" کے خلاف جو بیانیہ ہے اس کی توثیق اگر ہمارے عسکری اور قومی سلامتی کے اداروں نے مبینہ طورپر "فراہم" کردی ہے تو صدرِ مملکت نے "غدار" ٹھہرائے قائد حزب اختلاف سے عبوری حکومت کی سربراہی کے نام کیوں مانگے ہیں۔
اپریل 2016کا آغاز ہوتے ہی "پانامہ پیپرز" ایک دھماکے کی صورت منظر عام پر آئے تھے۔ عمران خان صاحب نے اسے بنیاد بناتے ہوئے سپریم کورٹ کو مجبورکیا کہ وہ ازخود ریاست پاکستان کے تفتیشی اور جاسوسی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کے ذریعے حقائق کا پتہ لگائے۔ مذکورہ کمیٹی نے جو رپورٹ تیار کی اس کی بنیاد پر نواز شریف وزارت عظمیٰ سے فارغ کردئیے گئے۔ انہیں کسی بھی الیکشن میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل بھی ٹھہرادیا گیا۔
ملک سے "غداری" مبینہ مالی بدعنوانیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ترین جرم ہے۔ تحلیل ہوئی قومی اسمبلی کے 198اراکین مگر اس کے مرتکب قرار دئیے جاچکے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اب کی بار کوئی ایسا اعلیٰ سطحی بندوبست کیوں نظر نہیں آرہا جو "پانامہ پیپرز" کے حقائق جاننے کے نام پر رونما ہوا تھا۔
عمران حکومت نے اپنے تئیں "غداروں " کی نشاندہی کردی ہے۔ اب وہ اس امر کی خواہاں ہے کہ "غدار" اپنے گھروں کو لوٹیں تو ان کے حلقوں کے افراد ان کا گھیرائو کرنے کے بعد انہیں عبرت کا نشان بنائیں۔ یوں "غداروں " کی جان صفائی کا موقعہ فراہم کئے بغیر خطرے میں ڈال دی گئی ہے۔ "غداری" کی تہمت سے اپنی جان محفوظ رکھنے کی فکر میں مبتلا افراد آئندہ انتخابات میں کس منہ سے حصہ لے سکیں گے۔
انہیں اعلیٰ ترین ریاستی اداروں کی جانب سے "غداری" کے الزام سے بے گناہ قرار نہ دیا گیا تو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے ہوئے ان کے مخالف امیدوار "غداری" کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراضات اٹھائیں گے۔ بے تحاشہ ریٹرننگ افسر "غداروں " کے کاغذات نامزدگی لہٰذا مسترد کرنے کو مجبور محسوس کریں گے۔
یوں ایسی فضا بن جائے گی جہاں نئے انتخابات کے بعد وجود میں آئی قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں کے علاوہ شاذہی کوئی رکن بیٹھا نظر آئے گا۔ اس کے بعد عمران خان صاحب واقعتا اپنی ایجاد کردہ "ریاستِ مدینہ"کے "امیر المومنین" ہی پکارے جائیں گے۔