سازشی کہانیوں پر میں نے کبھی اعتبار نہیں کیا۔ عموماََ ان کا مذاق ہی اُڑایا۔ اگرچہ حال ہی میں انسان اور اس کے حوالے سے معاشرتی اور ثقافتی ارتقاء کے بارے میں ایک مشہور کتاب لکھنے والے Yuval Noah Harariنے نیویارک ٹائمز کے لئے ایک تفصیلی مضمون لکھتے ہوئے سازشی کہانیوں کی نمو اور فروغ کی ٹھوس وجوہات انتہائی مؤثر انداز میں بیان کی ہیں۔ بہرحال اندھی محبت اور نفرت کے شدید تنائو میں ہوئے حالیہ صدارتی انتخاب کے بعد کئی سنجیدہ لکھاری اصرار کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ ڈونلڈٹرمپ محض ایک "وکھری نوعیت" کا فرد نہیں ہے۔ سفید فام نسل پرستی پر مبنی اس متعصب رویے کا بھرپور نمائندہ ہے جس نے "شناخت" کا سوال اٹھاتے ہوئے دُنیا کے کئی ممالک میں ویسی ہی وحشت برپا کررکھی ہے جو پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی میں ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی کی صورت نمایاں ہوئی تھی۔ ایک کڑے مقابلے کے بعد ٹرمپ کو یقینا شکست سے دو چار ہونا پڑا۔
2016کے مقابلے میں لیکن اس نے دس لاکھ سے زیادہ تعداد میں پاپولر ووٹ حاصل کئے۔ اس کی جماعت یعنی ری پبلکن پارٹی نے سینٹ میں اپنی برتری برقرار رکھی۔ امریکہ کے ایوانِ زیریں میں بھی ڈیموکریٹ پارٹی کو چند نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ انتخابی نتائج کے تفصیلی تجزیے کی وجہ سے فکر مند ہوئے لکھاری تواتر سے خبردار کئے جارہے ہیں کہ ری پبلکن پارٹی پر حاوی ہوئی متعصبانہ سوچ جوبائیڈن کو چین سے حکومتی امور پر توجہ مبذول رکھنے نہیں دے گی۔ ٹرمپ کے بارے میں افواہیں یہ بھی گردش کررہی ہیں کہ خود کو میڈیا کا حتمی سٹار تصور کرتایہ "دیوانہ" اپنے پسندیدہ Foxٹی وی سے بہت مایوس ہوگیا ہے۔ طیش میں آکر اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وائٹ ہائوس سے فراغت کے بعد اپنے نظریات کے فروغ کے لئے وہ ایک نیا ٹی وی نیٹ ورک بنائے۔ اس کے ذریعے اپنی Core Constituencyکے جذبات بھڑکاتے ہوئے 2024میں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑے اور یوں ایک بارپھر امریکی صدر منتخب ہوکر "تاریخ" بنائے۔
ٹرمپ کے طویل المدتی ارادوں پر توجہ دینا فی الوقت دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہوگا۔ فوری فکر کا باعث مگر یہ حقیقت ہے کہ بائیڈن نے اپنے عہدے کا حلف 20جنوری 2021کے روز اٹھانا ہے۔ اس دن تک بطور امریکی صدر ٹرمپ کے پاس پچاس دنوں تک پھیلی ایک Windowہے جس کے دوران کئی اقدامات کی بدولت وہ فقط اپنے ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا اور خاص طورپر مشرقِ وسطیٰ جیسے خطوں میں خوفناک بحران کھڑا کرسکتا ہے۔ امریکہ کے سفید فام نسل پرستوں کے طویل المدتی ایجنڈے میں Evangelicalمسلک سے وابستہ چند جنونیوں کی سوچ کی وجہ سے "عظیم تر اسرائیل" کا قیام بھی لازمی شمار ہوتا ہے۔ اس عقیدے کی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرمپ کے یہودی النسل داماد نے امریکی وزارتِ خارجہ اور قومی سلامتی سے متعلق اداروں کو اعتماد میں لئے بغیر ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ کی بابت پالیسی تیار کرنے کے عمل پر کامل اجارہ حاصل کرلیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر اسی پالیسی کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد اس سے گہرے تعلقات استوار کرنے پر دبائو ڈالا گیا۔ یو اے ای تو رضا مند ہوگیا۔
سعودی عرب کو مگر اس ضمن میں سو بار سوچنے کی مجبوری لاحق ہوچکی ہے۔ بائیڈن کے منتخب ہونے کے بعد فرض کرلیا گیا تھا کہ مذکورہ پالیسی اب بااثر نہیں رہی۔ صدارتی حلف اٹھانے کے بعد بلکہ بائیڈن سعودی عرب سے امریکی "قربت" میں کمی لانے کا راستہ ڈھونڈے گا۔ ایران کے ساتھ اوبامہ انتظامیہ کے دوران ہوئے ایٹمی معاہدے کو جسے ٹرمپ نے رعونت سے رد کردیا تھا"بحال" کرنے کی کوشش ہوگی۔ اس مفروضے کو غلط ثابت کرنے کے لئے "خبر" آئی کہ امریکہ کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورئہ سعودی عرب کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم کی شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ بھی "خفیہ" ملاقات ہوگئی۔ سعودی حکومت اگرچہ سرکاری ذرائع سے مذکورہ خبر کی شدت سے تردید میں مصروف رہی۔ جس "ملاقات" کی افواہیں یا "خبر" اڑی وہ واقعتا ہوئی یا نہیں اس کے بارے میں اعتماد کے ساتھ میں کوئی رائے دینے کے قابل نہیں۔ اس افواہ کے تناظر میں لیکن ایک اہم ترین واقعہ ہوا ہے جو سنگین مضمرات کا حامل ہوسکتا ہے۔ آج سے دو روز قبل تہران کے مشرق میں واقعہ ایک شاہراہ پر ایران کے ایٹمی پروگرام کے "خالق" تصور ہوتے محسن فخری زاد کی کار ایک پراسرار حملے کی زد میں آکر تباہ ہوگئی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے باقاعدہ ٹویٹ لکھ کر اسرائیل کو اپنے ایٹمی سائنسدان کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ یورپی یونین نے مذکورہ حملے کو ایک سرکاری بیان کے ذریعے "مجرمانہ" ٹھہراتے ہوئے جواد ظریف کے الزام کو گویا سفارت کارانہ "تصدیق"فراہم کردی۔ مذکورہ واقعہ کو محض تندوتیز بیانات کے ذریعے مگر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ محسن فخری زاد کو ایران کے تقریباََ قلب میں موجود ایک شاہراہ پر ہلاک کرنے کے بعد اسرائیل نے اپنے جاسوسی ادارے کی Reachکو جارحانہ انداز میں اجاگر کیا ہے۔ اس سے قبل ایران کا ایک اساطیری کمانڈر قاسم سلیمانی بھی ڈرون حملے کے ذریعے مارا گیا تھا۔ امریکہ نے مگر اس کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ ہلاکت ایران نہیں عراق میں ہوئی تھی۔ ایران حکومت کے پاس لہٰذا یہ دعویٰ کرنے کا جواز موجود تھاکہ "مکاردشمن" نے ایران سے باہر کسی مقام پر نقب زن ہوتے ہوئے اس کے کمانڈر کو ہلاک کردیا۔ اس ہلاکت سے چند روز قبل ایرانی میزائلوں کی وجہ سے یوکرین کا ایک مسافر طیارہ بھی تباہ ہوگیا تھا۔
مذکورہ "حادثے" نے ایران کو اخلاقی اعتبار سے کمزور کیا۔ وہ اسی کی وجہ سے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے کا"بدلہ" لینے کے قابل نہیں رہا۔ لوگوں کے جذبات کے اظہار کے لئے سلیمانی کے جسد خاکی کو عراق سے ایران لہٰذا براستہ سڑک لایا گیا۔ جذبات سے مغلوب ہوئے عوام کی ایک تاریخی تعداد نے جنازے کا استقبال کیا۔ محسن فخری زاد کی ہلاکت نے ایران کی Strategic Vulnerabilityکو مگر برسرزمین عیاں کردیا۔ اس کی بدولت جو سوال ایرانی عوام کے دلوں میں ابل رہے ہیں ان کا مؤثر جواب "بدلہ" لیتی کسی جارحانہ کارروائی کی صورت ہی فراہم ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ہوئے گٹھ جوڑ کی بدولت اسرائیل بھی ممکنہ حملے کے لئے ذہنی طورپر تیار ہوگا۔ ایران نے "بدلہ" لینے والی کارروائی کی تو اس کی جانب سے جوابی وار ہوگا۔ یوں ادلے کا بدلہ لیتی کارروائیوں کا ہولناک آغاز ہوسکتا ہے۔ جذباتی تقاریر اور بڑھک بازی سے قطع نظرایرانی قیادت اگرچہ بہت سوچ بچار کے بعد کوئی قدم اٹھاتی ہے۔ اسے اپنی "رائے عامہ"، کوقابو میں رکھنے کا ہنر بھی آتا ہے۔ وہ خوب جانتی ہے کہ محسن فخری زاد کو نشانہ بناتے ہوئے اسرائیل اس سے "فوری" جوابی کارروائی کا منتظر ہوگا۔"بدلہ" دِکھتی کارروائی کو لہٰذا مؤخر کرنا لازمی ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ فی الوقت "نیویں نیویں" رہتے ہوئے بائیڈن کی حلف برداری کا انتظار کیا جائے۔
اسرائیل کو مگر انتظار کے ممکنہ فیصلے کو "اب کے مار" والا رویہ بھی تصورکرسکتا ہے۔ یہ تصور کرتے ہوئے وہ آئندہ ہفتے یا دس دن میں ایران کی سرزمین پر ایک اور جارحانہ حملہ بھی کرسکتا ہے جس کا "جواب" دینے سے مفر ممکن نہ ہوگا۔ 20جنوری 2021تک لہٰذا ہم گومگو کے عالم میں گرفتار رہنے کو مجبور ہیں۔ ہمارے حکمران، میڈیا اور سیاست دان اگرچہ اپنے ہمسایے میں تیزی سے بدلتی ممکنہ طورپر سنگین تر ہوتی صورتحال پر توجہ دیتے نظر نہیں آرہے۔ غفلت کا ایسا عالم وطنِ عزیز میں شاذہی دیکھا ہے۔