ماضی کے بدعنوان اور نااہل حکمرانوں سے لفافے اور ٹوکریاں وصول کرتے ہوئے میرا ضمیر بھی چند صحافی ساتھیوں کے ضمیر کی طرح مردہ ہوچکا تھا۔ مردہ ضمیر چہرے کی رونق بجھادیتا ہے اورعمر کے آخری حصے میں دانت بھی جھڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی باعث جس ٹی وی چینل کے لئے پروگرام کرتا تھا اس نے مجھ کو ناکارہ ہوئے بیل کی طرح فارغ کردیا۔ انسانوں کا گوشت اگر حلال ہوتا تو شاید کسی قصائی کے حوالے کردیا جاتا۔ ٹی وی سے فراغت کے بعد بھی تاہم لکھنے کی علت سے نجات حاصل نہیں کرپایا۔ اسے برقرار رکھنے کے لئے یہ کالم لکھتا ہوں۔ اس کے عوض دال دلیہ پکانے کو کچھ رقم بھی مل جاتی ہے۔ قبر میں پائوں لٹکنے کو ہیں مگر ہاتھ کو اب بھی جنبش کی سہولت میسر ہے۔ موت کا انتظار کرتے ہوئے البتہ ضمیر جگانے کی کوشش میں مصروف رہتا ہوں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت جناب ڈاکٹرعلوی صاحب کا اس تناظر میں تہہ دل سے مشکور ہوں۔ اتوار کے روز تعطیل کا لطف اٹھانے کے بجائے ان کے فرض شناس ضمیر نے ایک نہیں دو قوانین کو اپنے پارساہاتھوں سے دستخط کے ذریعے فی الفور لاگو کردیا ہے۔ جس قانون نے وزراء اور دیگر اراکین پارلیمان کو بلدیاتی انتخاب کے لئے چلائی مہم میں حصہ لینے کی اجازت فراہم کی ہے میں اس کی بابت بے نیاز ہوں۔
لفظ فروش ہوتے ہوئے میرے لئے اہم ترین قانون وہ ہے جو وطن عزیز کی نیک نام اشرافیہ کو بدنام کرنے والی "فیک نیوز" کا راستہ روکے گا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے شرفا پر گند اچھالنے والے اب بلاوارنٹ گرفتار کرلئے جائیں گے۔ انہیں ضمانت کا حق بھی میسر نہیں ہوگا۔ ان کے خلاف چلائے مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ ختم ہوجانے سے قبل ہی سنانا پڑے گا۔ وہ اگر ہرزہ سرائی کے ذمہ دار قرار پائے تو پانچ برس تک جیل میں سلاخوں سے سرکو ٹکراتے ہوئے اپنی خطائوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔
مذکورہ قانون کے اجراء کا دفاع کرتے ہوئے صدر مملکت نے غضب کے عالم میں "بہت ہوگیا" کا پیغام بھی دیا ہے۔ مصر رہے کہ پاکستان کا بکائو اور غیرذمہ دار میڈیا"فیک نیوز" کے ذریعے عوام میں مایوسی پھیلارہا ہے۔ پاکستان جبکہ ان دنوں "مثبت خبروں " کی بہار کے موسم میں دمک رہا ہے۔ مثال کے طورپر گزرے برس ہمارے ہاں پولیو کا ایک مریض بھی دریافت نہیں ہوا۔ پولیو جیسے موذی مرض کا خاتمہ خوشگوار ترین خبر تھی۔ اس خبر کو مگر ہمارے میڈیا نے کماحقہ اہمیت ہی نہ دی۔
صدر مملکت کی جھلاہٹ نے مجھے شرمسار بنادیا ہے۔ پولیو کا خاتمہ یقیناََ ہمارے اخباروں کی لیڈ سٹوری ہونا چاہئے تھی۔ اس کے علاوہ 24/7وزیر اعظم صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ماحول بناتے اینکر خواتین وحضرات کو یہ زحمت بھی گوارہ کرنا چاہئے تھی کہ وہ اپنے سٹوڈیوز سے باہر نکل کر عوام میں گھل مل جاتے۔ پولیو کے خاتمے والے معجزہ کی بابت جو خوشی وہ محسوس کررہے ہیں اسے سکرینوں کی رونق بڑھانے کے لئے استعمال کرتے۔ اس کے علاوہ اپنی جوانی کی تصویروں سمیت کالم نگاری کی آڑ میں یاوہ گوئی کرنے والے مجھ ایسے لفظ فروشوں کو بھی تحقیق کی مشقت سے گزرنے کے بعدقارئین کو تفصیل سے بتانا چاہیے تھا کہ پولیو کے خاتمے والا معجزہ کیسے سرزد ہوا۔
اس امر کی بابت سوچنا شروع کیا تو اچانک احساس ہوا کہ پولیو کے خلاف چلائی مہم کا ذکر ہوگا تو بل گیٹس نامی امریکی شہری اور اس کے بنائے خیراتی ادارے کی کاوشوں کو بھی نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ بل گیٹس کا ذکر چلا تو ذہن میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ پولیو کے بالآخر خاتمے کا کریڈٹ فقط حکومت پاکستان کو دیا جائے یا بل گیٹس اور اس کے ادارے کی لگن کو بھی سراہا جائے۔
بل گیٹس کی ستائش کرتے ہوئے مگر یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکے گی کہ وہ امریکی شہری ہے۔ اس کا ادارہ ایک نوع کی این جی او بھی ہے۔ امریکی شہریوں کی جانب سے چلائی این جی اوز کے بارے میں تاہم مجھ جیسے جاہل کے ذہن میں یہ بات روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں نے استقامت سے ڈال رکھی ہے کہ مذکورہ ادارے ہمارے ہاں "ففتھ جنریشن وار" میں ملوث ہیں۔ وہ ایسے غداروں کی نشاندہی کے بعد ان کی سرپرستی میں مصروف رہتے ہیں جو نظریہ پاکستان کی بابت گمراہ کن سوالات اٹھاتے ہیں۔
ہماری نظریاتی اساس کو محض ان سوالات کے ذریعے ہی کمزور کرنے کی کوشش نہیں ہورہی۔ خواتین کے حقوق کے بہانے بھی ہمارے خاندانی نظام اور تہذیبی روایات کے خاتمے کی کوشش ہورہی ہے۔ "عورت مارچ" میں "میرا جسم میری مرضی" جیسے "بے حیائی کو اکساتے" نعرے بلند ہوتے ہیں۔ بل گیٹس اور اس کے ادارے کی پولیو کے تناظر میں تعریف ہوئی تو ہمارے سادہ لوح عوام یہ سوچنا شروع ہوسکتے ہیں کہ سب این جی اوز بری نہیں ہوتیں۔ چند این جی اوز"اچھی" بھی ہیں۔ "گڈاین جی اوز" اور "بیڈ این جی اوز" کا تذکرہ مگر قیمے والے نان کے عوض ووٹ ڈالنے والے جاہل عوام کے اذہان کو کنفیوز کردے گا۔
صدر مملکت کے علاوہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرخزانہ جناب شوکت ترین صاحب نے بھی ایک عالمی ادارے کی جانب سے ہوئی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے سینہ پھلاکر یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان دنیا کے 138کے مقابلے میں سستا ترین ملک ٹھہرایا گیا ہے۔ شوکت ترین صاحب حکومتی منصب سنبھالنے سے پہلے ایک کامیاب بینکار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ بعدازاں انہوں ازخود بھی ایک بینک کو متعارف کروایا۔ کسی بھی دھندے کی بابت قطعاََ جاہل ہوتے ہوئے میں ہرگز یہ طے نہیں کرسکتا کہ شوکت ترین صاحب اپنے شعبے میں کس حد تک کامیابی کی روشن مثال قرار دئے جاسکتے ہیں۔
رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے تاہم آج سے تقریباََ نو ماہ قبل انہوں نے نہایت اعتماد سے اعلان کیا تھا کہ آئی ایم ایف کی مزید شرائط بروئے کار نہیں لائی جائیں گی۔ بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوا تو ملکی معیشت کی بحال کا عمل رک جائے گا۔
بجٹ لاگو ہونے کے چار ماہ بعد ہی مگر افواہیں پھیلنا شروع ہو گئیں کہ آئی ایم ایف "ڈومور" کا تقاضہ کررہا ہے۔ اس کے تقاضوں پر عملدرآمد کے لئے "منی بجٹ" لانا پڑے گا۔ ترین صاحب نے انتہائی رعونت سے ان افواہوں کو "فیک نیوز" ٹھہرایا۔ رواں برس کا آعاز ہوتے ہی مگر قومی اسمبلی میں "منی بجٹ" منظوری کے لئے پیش کردیا گیا۔ بجلی کی قیمتیں اس کے بعد مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ پیٹرول کے دام بھی ناقابل برداشت حد کو چھورہے ہیں۔ پاکستان اس کے باوجود دنیا کے سستے ترین ملکوں کی صف میں اٹکا ہوا ہے۔ میڈیا میں بیٹھے قنوطی مگر اس حقیقت کو عوام کے روبرو نہیں لارہے۔ شوکت ترین صاحب کو ازخود بیان دینا پڑرہے ہیں۔ حالانکہ بیان بازی ان کا شیوہ نہیں۔ وزارت خزانہ کو ان کی بھرپور توجہ درکار ہے۔
مجھے قوی امید ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے شرفا کی پگڑیاں اچھالنے کی سہولت سے محروم ہوجانے کے بعد ہمارے صحافی اب اپنے موبائل فونوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے بازاروں میں جایا کریں گے اور اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں گے کہ ہمارے ہاں روزمرہّ ضرورت کی اشیا دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی سستے ترین داموں پر وافر مقدار میں میسر ہیں۔ انہیں سمجھ آجائے گی کہ 2018سے قبل ہمارے عوام "جب آئے گا عمران، "کا ورد کیوں کیا کرتے تھے اور یہ حقیقت بھی کہ ان کی اجتماعی دعائیں اب قبولیت کا شرف حاصل کررہی ہیں۔