پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پہ در پہ جلسوں کے انعقاد سے یہاں "ووٹ کی طاقت" سے قائم ہوئی کسی حکومت کو گھر نہیں بھیجا جاسکتا۔ حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے تاریخ ساز جلسوں سے مسلسل خطاب محترمہ بے نظیر بھٹو اپریل 1986میں طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹ کر فرماتی رہی ہیں۔ جونیجو حکومت اس کے باوجود مئی 1988تک قائم رہی۔ دو برس گزرجانے کے بعد وہ بلکہ اتنی توانا ہوگئی کہ اس کے حقیقی "خالق" جنرل ضیاء کو بالآخر آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اسے گھر بھیجنا پڑا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت قائم ہوتے ہی نواز شریف صاحب نے بھی پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات کے طویل رائونڈ کے ذریعے اس کے خلاف دبائو بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ جلسوں کے بعد "تحریک نجات"کے نام پر "ٹرین مارچ" بھی ہوا۔ یہ حکومت مگر اپنی جگہ قائم رہی۔ بالآخر محلاتی سازشوں سے رجوع کرتے ہوئے ان دنوں کے صدر فاروق لغاری سے روابط استوار ہوئے۔ آئین کی آٹھویں ترمیم ایک بار پھر بروئے کار آئی۔"فاروق بھائی" نے سنگین الزامات لگاتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ سے اسمبلیوں سمیت فارغ کردیا۔
2020میں ایوانِ صدر میں براجمان عارف علوی کو آٹھویں ترمیم والے اختیارات میسر نہیں ہیں۔ عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کا واحد راستہ قومی اسمبلی میں ان کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے ذریعے ہی بنایا جاسکتا ہے۔ فی الوقت مگر اس کی گنجائش نظر نہیں آرہی۔
تحریک عدم اعتماد والا ہتھیار اگرچہ محترمہ بے نظیربھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف بھی مؤثر انداز میں استعمال میں نہیں ہوپایا تھا۔ حالانکہ اس وقت کے صدر-غلام اسحاق خان- اور آرمی چیف -جنرل اسلم بیگ- اس حکومت سے نجات کے برملا خواہش مند تھے۔ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف بھی دل وجان سے ان کی معاونت کو آمادہ تھے۔
تحریک عدم اعتماد کی عدم افادیت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہی 2008کے بعد منتخب حکومتوں کے مخالفوں نے "عوامی تحریک" کی بدولت بحال ہوئے افتخار چودھری کے سپریم کورٹ سے "انصاف" مانگنا شروع کردیا تھا۔ غالباََ اسی باعث یوسف رضا گیلانی کو اپنے ہی منتخب کردہ صدر کے خلاف "کرپشن کے ثبوت" حاصل کرنے کے لئے سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کی وجہ سے توہینِ عدالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔ آصف سعید کھوسہ صاحب نے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے وزیر اعظم کو گھر بھیجنے والا حکم لکھتے ہوئے "حیف ہے اس قوم پہ " والی دہائی بھی مچائی۔ کھوسہ صاحبہ کا یہ "جلالی" انداز بالآخر 2017میں وطن عزیز کی وزارتِ عظمیٰ پہ تیسری بار براجمان ہوئے "سسیلین مافیا" سے بھی نجات دلانے کے کام آیا۔ دورِ حاضر کے سپریم کورٹ میں بیٹھے عزت مآب منصف مگر "سیاسی" سوالات سے اجتناب کو ترجیح دیتے ہیں۔ سوموٹو اختیارات کو استعمال کرنے میں نہایت صبرواحتیاط دکھارہے ہیں۔ Same Pageکی حقیقت نے "محلاتی سازشوں " کی گنجائش بھی ختم کردی ہے۔
مذکورہ بالا حقائق کے ہوتے ہوئے میں عمران حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفرموج کے ہذیانی رویے کی بابت حیران وپریشان ہورہا ہوں۔ جماعت اسلامی کے سوا تمام اپوزیشن جماعتیں PDMنامی اتحاد میں گزشتہ برس یکجا ہوگیں۔ عمران حکومت کے خلاف دبائو بڑھانے کے لئے انہوں نے گوجرانوالہ سے ملک کے تمام بڑے شہروں میں "احتجاجی جلسوں "کا اہتمام شروع کردیا۔ پنجاب میں پولیس اور انتظامیہ ان جلسوں کو ناکام بنانے کے لئے روایتی ہتھکنڈوں کو ابتداََ بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔ جلسے کے انعقاد سے چند گھنٹے قبل مگر اعلان کردیا جاتا ہے کہ "آئینی حقوق" کا احترام ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں کے جلسے تو جمہوری نظام کی "رونق" ہوا کرتے ہیں۔ جلسہ جب ختم ہوجاتا ہے تو حکومتی ترجمان اسے "ناکام" ثابت کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ حقارت سے اصرار کرتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں قد آور سیاست دانوں کے ہوتے ہوئے بھی حاضرین کی اتنی تعداد بھی جمع نہ کر پائیں جو مؤثر "جلسہ"بنائے۔ حال ہی میں سرکار کے لئے اعدادوشمار جمع کرنے والوں نے عمران حکومت کو نہایت اعتماد سے آگاہ کیا تھا کہ PDMکی ملتان والی "جلسی" میں شرکار کی تعداد دس ہزار سے ہرگززیادہ نہیں تھی۔ ان میں سے بھی 4ہزار افراد آصفہ بھٹو زرداری کی شرکت کو "بااثر" دکھانے سندھ سے ملتان آئے تھے۔ ٖPDMکے جلسوں میں خلقِ خدا کی "بے اعتنائی" کا باعث ان جلسوں میں فروغ دیا"غدار بیانیہ" ٹھہرایا جارہا ہے۔ کرونا کی دوسری لہر بھی وباء کے خوف سے لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے کو آمادہ کرتی نظر آرہی ہے۔
حکومتی ترجمانوں پر اعتبار کریں تو PDMنے لاہور میں 13دسمبر کے روز جس جلسے کا انعقاد کرنا ہے وہاں بھی حاضرین کی تعداد "مضحکہ خیز" حد تک "جلسی" کی صورت ہی اختیار کرے گی۔ مینارِ پاکستان کے گرائونڈ کو "بھرنے" کے لئے ویسے بھی لاکھوں افراد کا اجتماع ضروری ہے۔ 10اپریل 1986کے روز محترمہ بے نظیر بھٹو نے یقینا اسے حیران کن حد تک "بھر" دیاتھا۔ ان دنوں مگر ہمیں ہر لمحہ "باخبر" رکھنے والا 24/7میڈیا متعارف نہیں ہوا تھا۔ ہمارے اجتماعی حافظے میں لہٰذا ابھی تک مینارِ پاکستان کے گرائونڈ میں ہوا ایک ہی جلسہ "بطور"ریفرنس" آئندہ کئی برسوں تک محفوظ رہے گا۔ عمران خان صاحب نے اس جلسے سے اکتوبر2011میں خطاب کیا تھا۔ اس جلسے کی ریکارڈنگ ہمارے ہر ٹی وی نیٹ ورک کے پاس موجود ہے۔ 13دسمبر2020کے روز اس کی جھلکیوں کو Split Screenمیں دکھاتے ہوئے "گیارہ جماعتوں " کی مشترکہ کاوشوں سے ہوئی "جلسی" کے لئے ضائع ہوئی توانائی کوبآسانی عیاں کیا جاسکتا ہے۔
13دسمبر2020کا جلسہ مگر حکومتی ترجمانوں کے اعصاب پر چھایا محسوس ہورہا ہے۔ نظر بظاہر وفاقی کابینہ نے مجوزہ جلسے کی "اجازت" دے دی ہے۔ اصولی طورپر یہ فیصلہ اگرچہ لاہور انتظامیہ کی ذمہ داری واختیار تھی۔ سنا ہے کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم نامی کوئی شق موجود ہے۔"امن وامان" سے جڑے تمام مسائل اس کی بدولت صوبائی حکومت کی بلاشرکتِ غیرے (Exclusive)ذمہ داری شمار ہوتے ہیں۔ آئینی امور کی بابت تقریباََ جاہل ہوتے ہوئے میں لہٰذا سمجھ نہیں پایا کہ "وفاقی کابینہ" نے PDMکو لاہور میں جلسہ کرنے کی "اجازت" کس بنیاد پر دی ہے۔ تحریک انصاف یقینا وفاق کے علاوہ پنجاب میں بھی حکمران جماعت ہے۔ اس تناظر میں مناسب تو یہی تھا کہ "وفاقی کابینہ"کے بجائے تحریک انصاف کی سنٹرل کمیٹی کااجلاس ہوتا۔ وہ بطور ایک "سیاسی جماعت" پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو لاہور والے جلسے کی بابت درگزر کا مشورہ دیتی نظر آتی۔"وفاقی کابینہ" کے فیصلے نے مگر ایک بار پھر ثابت یہ کیا ہے کہ ہمارے ہاں اصل اختیارات اسلاام آباد میں بیٹھے وزیر اعظم ہی کو میسر ہوتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت "یقینی" بنائی "صوبائی خودمختاری" محض کتابی باتیں ہیں۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول کا حتمی سوئچ وزیر اعظم کی اُنگلی ہی سے آن یا آف ہوتا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی وجہ سے یہ کارآمد نظر نہ آئے تو "دیگر"ذرائع استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ بارش سے جمع ہوئے پانی کی بروقت نکاسی کو یقینی بنانے کے لئے بھی "دوسروں " سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کو اپنا فخرومان تصور کرتی پیپلز پارٹی کے مرادعلی شاہ اس ضمن میں شرمندگی دکھانے کی جرأت سے بھی ڈھٹائی کی حد تک محروم نظر آتے ہیں۔
بہرحال "وفاقی کابینہ"نےPDMکو لاہور میں جلسہ منعقد کرنے کی "اجازت" بہم پہنچادی ہے۔ اس جلسے کے لئے "تمنبو قناتیں "لگانے والوں کے خلاف البتہ نجانے کونسی دفعات کے تحت پرچے بھی کٹیں گے۔ ممکنہ "جلسی" میں شرکت کرنے والوں کو دسمبر کی سردی میں کھلے آسمان تلے کھڑا ہونا پڑے گا۔ مجوزہ جلسے کے منتظمین کو جدید ترین سائونڈ سسٹم بھی فراہم نہیں ہوپائے گا۔ وہاں موجود "قائدین" کو شا ید ذاتی خرچے سے میگا فون خریدنا ہوں گے۔ اسے ہاتھوں میں لے کر وہ "جلسی" سے خطاب کرنے کے بعد شرمندگی سے گھروں کولوٹ جائیں گے۔