صاحب فراست وبصیرت کی سب سے بڑی پہچان یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اپنے خیالات پر ضدی بچوں کی طرح ڈٹانہیں رہتا۔ جانتا ہے کہ جو حقائق ہمیں نظر آتے ہیں انہیں تشکیل دینے والے ٹھوس عوامل ہوتے ہیں۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو روشنی پھیلنا شروع ہوجاتی ہے۔ وقت عصر لیکن ہمیں اندھیرے کی جانب دھکیلنا شروع ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی اقبال نے صراحت سے بیان کررکھا ہے کہ ثبات فقط تغیر کو نصیب ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ بدلتے حقائق کے آگے سرجھکاتے ہوئے اپنے خیالات تشکیل دیتے صاحبان فراست وبصیرت کی یہ کالم لکھنے سے قبل تلاش شروع کی تو میرے ذہن میں ایک ہی چہرہ نمودار ہوا اور وہ چہرہ فواد چودھری صاحب کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ ان دنوں وہ عمران حکومت کے متحرک ترین وزراء میں شمار ہوتے ہیں۔ وزارتِ اطلاعات ونشریات کے کامل اختیارات کے ساتھ مدارالمہام ہوتے ہوئے وہ 22کروڑ نفوس پر مشتمل ہمارے قوم نما ہجوم کی ذہن سازی کے عمل کے قائدونگران بھی ہیں۔
خیبرپختون خواہ کے بلدیاتی انتخاب کے نتائج نے فواد چودھری صاحب کو نظر بظاہر حیران نہیں کیا۔ اپنے قائد عمران خان صاحب کی طرح وہ یہ تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں کہ مہنگائی کی ناقابل برداشت لہر نے اس صوبے کے رائے دہندگان کو تحریک انصاف سے ناراض کردیا جہاں وہ 2013سے برسراقتدار چلی آرہی ہے۔ منگل کے روز ہوئے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری صاحب نے بلکہ ایک بار پھر ایسے اعدادوشمار وضاحت سے دہرائے جو ان کی دانست میں عندیہ دے رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کے بجائے خوش حالی بڑھ رہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ ملک میں نئی گاڑیوں کی خریداری میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ نئی گاڑیوں کی طلب اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس کی تسکین کے لئے کئی سرمایہ کار وطن عزیز میں گاڑیاں بنانے والے کارخانے لگارہے ہیں۔
مہنگائی کو تحریک انصاف کی شکست کا سبب تسلیم نہ کرنے کے بعد فواد چودھری صاحب نے توجیہہ یہ پیش کی کہ ان کی جماعت سے وابستہ دو یا تین افراد اوسطاََ ایک ہی نشست پر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوگئے۔ حکمران جماعت کا ووٹ تقسیم ہوا تو مخالفین کو اس سے فائدہ پہنچا۔ خیبرپختون خواہ کو ابھی بلدیاتی انتخاب کے دو مزید مراحل سے گزرنا ہے۔ امید ہے کہ ان کے دوران عمران خان صاحب ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ میدان میں تحریک انصاف کا فقط ایک ہی امیدوار موجود ہو اور اس جماعت سے وابستہ رائے دہندگان یکسوہوکر اسے کامیاب بنائیں۔
سیاسی حکمت عملی کے اہم ترین پہلوئوں کو جبلی مہارت سے آشکار کرنے کے بعد فواد چودھری صاحب جیسے صاحب فراست وبصیرت نے مگر اس امر کی بابت دکھ کا اظہار بھی کیا کہ تحریک انصاف میں بلدیاتی عہدوں کی ہوس میں ہوئی تقسیم کا فائدہ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام نے اٹھایا۔ ان کی دانست میں یہ ایک رجعت پسند جماعت ہے۔ خواتین کے حقوق کی حامی نہیں۔ پاکستان جیسے روشن خیال ملک میں ایسی جماعت کی پذیرائی نہیں ہوتی۔
تحریک انصاف مگر تنظیمی انتشار کا شکار ہوگئی۔ اس کی وجہ سے جو خلاء پیدا ہوا اس کا فائدہ ماضی میں حکمران رہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) جیسی جماعتیں اٹھاسکتی تھیں۔ وہ مگر کئی برسوں سے مبینہ طورپر کرپشن کی عادی ہونے کی وجہ سے عوام میں اپنی ساکھ کھوبیٹھی ہیں۔ ساکھ سے محروم ہوئی جماعتوں کی وجہ سے ابھرے خلاء کو مولانا جیسے رجعت پسندوں نے پرکردیا۔ پاکستان کے روشن خیال عوام کو اس کی بابت فکر مند ہونا چاہیے۔
عمر کے آخری حصے میں غالب کی طرح میرے بھی قوی مضحمل ہوچکے ہیں۔ کوئی اچھوتا خیال سوجھتا ہی نہیں۔ تازہ خیالات کے لئے مجھے اکثر فواد چودھری صاحب کی بصیرت وفراست سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ بدھ کی صبح رجوع کا عمل شروع کیا تو یاد آیا کہ پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر سب سے پہلا عام انتخاب 1970میں ہوا تھا۔ خیبرپختونخواہ کو ان دنوں صوبہ سرحد کہا جاتا تھا۔ وہاں خان عبدالولی خان کی جماعت واحد اکثریتی جماعت کی صورت ابھری تھی۔ صوبائی حکومت تشکیل دینے کے لئے مگر اسے جمعیت العلمائے اسلام سے تعاون کی ضرورت محسوس ہوئی۔
مولانا مفتی محمود ان دنوں اس جماعت کے قائد تھے۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ذوالفقار علی بھٹو کو شکست سے دو چار کیاتھا۔ بھٹو صاحب نے جبکہ اپنے آبائی لاڑکانہ کے علاوہ لاہور اور پشاور سے بھی قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی واحد نشست تھی جو بھٹو صاحب مفتی محمود صاحب سے ہارے تھے۔ مفتی محمود صاحب کی جماعت کو ان دنوں کے صوبہ سرحد میں اپنے تئیں اکثریت نہیں ملی تھی۔
خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی نے مگر صوبائی حکومت کی تشکیل کے لئے انہیں وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لئے نامزد کردیا اور یوں پاکستان کی تاریخ میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے پہلے انتخاب کے نتائج کی بدولت جمعیت العلمائے اسلام ماضی کے صوبہ سرحد اور آج کے خیبرپختونخواہ کی اہم ترین سیاسی جماعت ثابت ہوئی۔
12اکتوبر1999میں جنرل مشرف جیسے روشن خیال دیدہ ور نے نواز شریف کی دوسری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اقتدار سنبھال لیا تھا۔ کامل تین برس تک وطن عزیز کو نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں سے پاک کرنے کے بعد انہوں نے 2002میں نئے انتخاب کا انعقاد کروایا۔ مذکورہ انتخاب میں حصہ لینے کے لئے مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر متحدہ مجلس عمل بنائی۔ اس اتحاد نے ماضی کے صوبہ سرحد میں دیگر سیاسی جماعتوں کو بری طرح پچھاڑدیا۔
جنرل مشر ف جیسے روشن خیال نے کھلے دل سے انتخابی نتائج کو تسلیم کیا۔ صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل نے صوبائی حکومت بنائی۔ قومی اسمبلی میں اسی اتحاد کے نمائندے کی حیثیت میں مولانا فضل الرحمن کو قائد حزب اختلاف بھی تسلیم کرلیا گیا۔ اسی قائد سے طویل مذاکرات کے بعد جنرل مشرف کو فوجی وردی سمیت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا منتخب صدر بھی تسلیم کروا لیا گیا۔ 1970کی "سیکولر" نیشنل عوامی پارٹی اور 2002کے "روشن خیال"جنرل مشرف کا مولانا فضل الرحمن کی "رجعت پسند" جماعت سے رشتہ لہٰذا ایک جیسا ہی رہا۔ فواد چودھری صاحب جیسے عقل پرست اس کی بابت مجھے تو پریشان ہوئے نظر نہیں آئے تھے۔
خیبرپختونخواہ میں جمعیت العلمائے اسلام کی کامیابی کے بارے میں فکر مند ہوئے فواد چودھری صاحب کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ پشاور کے اس پار پہلے جلال آباد اور پھر کابل آتا ہے۔ 15اگست 2021کے دن کابل میں طالبان فاتحانہ اندازمیں لوٹے ہیں۔ ان کی واپسی کا فواد چودھری صاحب کے قائد نے "غلامی کی زنجیریں توڑ دیں " والا بیان دیتے ہوئے خیرمقدم کیا۔ ہماری حکومت اپنے سفارتی اثرورسوخ کو اب عالمی برادری کو اس امر پر قائل کرنے کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کررہی ہے کہ افغانستان میں قائم ہوئے طالبانی بندوبست کو باقاعدہ حکومت کی صورت تسلیم کیا جائے۔ اسی باعث حال ہی میں پاکستان کی ایما پر اسلام آباد میں اسلامی وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس بھی ہوا ہے۔
کابل میں جو قوت فاتحانہ انداز میں لوٹی ہے نظریاتی اعتبار سے مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے قریب ترین ہے۔ اس قربت کا اظہار طالبان حکومت کے وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں موجودگی کے دوران مولانا کے ہاں حاضری دے کر بھی کیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس سوچ کی افغانستان میں برتری کی بابت عمران حکومت شاداں محسوس کررہی ہے وہ ہمارے خیبرپختونخواہ میں بھی انگڑائی لے کر بیدار ہوتی نظر آئے تو فواد چودھری جیسے صاحبانِ بصیرت وفراست پریشان ہوجاتے ہیں۔