ہر وقت نوکری بچانے کی فکر میں مبتلا مجھ ایسے قلم گھسیٹ کو ہرگز خبر نہیں کہ جس تنظیم سے پاکستان کے وزیر اعظم نے مذاکرات کی بات چلائی ہے اس کا نام لکھنا قانونی اعتبار سے جائز ہے یا نہیں۔ جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء کے دوران وطن عزیز میں تمام سیاسی جماعتیں کالعدم ٹھہرادی گئی تھیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے بنائی جماعت اسلامی کو بھی اس ضمن میں استثناء نصیب نہیں ہوا تھا۔ حالانکہ جنرل ضیاء کو اقتدار کی راہ پر ڈالنے میں اس جماعت نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ وہ جنرل ضیاء کی افغانستان میں کمیونزم کے خلاف برپا کئے جہاد میں دل وجان سے مددگار بھی رہی۔ ہم صحافی مگر اس کا نام بھی لکھنے سے قبل حفظ ماتقدم کے طورپر کالعدم کا لاحقہ استعمال کیا کرتے تھے۔
جس تنظیم کا ذکر ہورہا ہے اس کا نام مگر اخباروں اور ٹی وی میں کالعدم سمیت لکھنے کی بھی اجازت آج سے چند ہی دن قبل تک میسر نہیں تھی۔ ہمیں 2014ء سے مسلسل بتایا گیا ہے کہ مذکورہ تنظیم بھارت اور افغانستان کی پالتو ہے۔ ان دونوں کی ایما پر پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لئے بازاروں اور مزاروں میں خودکش دھماکے کرواتی ہے۔ ہماری فوجی تنصیبات پر حملے ہوتے ہیں۔ جی ایچ کیو بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں رہا۔ ہمارے کئی افسر اور جوان اس کی جانب سے ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے شہید ہوئے۔ بالآخر اس کا قلع قمع کرنے کے لئے بھرپور فوجی آپریشن ہوئے۔
ترکی کے عالمی سطح پر مشہور ایک انگریزی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے مگر لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی دیرینہ سوچ کا اعادہ کیا ہے کہ دہشت گردی جیسے مسائل کا فوجی حل موجود نہیں ہے۔ ہتھیار اٹھائے لوگوں کو مذاکرات کے ذریعے ہی پرامن زندگی کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے اور ان کی حکومت نے مذکورہ تنظیم کے ساتھ اس عمل کا آغاز کردیا ہے۔ عمران خان صاحب کے دو ٹوک اعتراف سے کئی ہفتے قبل صدر پاکستان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب بھی ان مذاکرات کا عندیہ دے چکے تھے۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے بالآخر تصدیق فراہم ہوگئی اور ہمارے کئی سیاست دان اور مبصر سراپا احتجاج کا ڈھونگ رچانے لگے۔
ڈھونگ کا لفظ میں نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا 1980ء کی دہائی سے جو بھی سرکاری مؤقف اور حکمت عملی رہی اس کی تشکیل میں سیاست دانوں نے رتی برابر کردار بھی ادا نہیں کیا تھا۔ سوویت یونین کو افغانستان میں گھیرنے کا فیصلہ جنرل ضیا اور ان کے رفقا نے کیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس ضمن میں ان کی کلیدی حلیف رہیں۔ افغانستان سے سوویت یونین ذلیل وخوار ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تو جنرل ضیاء اس دنیا میں موجود نہ رہے۔ ان کے بعد آئے سیاستدانوں کو سمجھ ہی نہ آئی کہ افغانستان کے حوالے سے کیا حکمت عملی اپنائی جائے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران تاہم طالبان نمودار ہوگئے۔ ہم نے انہیں امن کا نقیب ٹھہرایا۔ ان کی معاونت کا فیصلہ کیا۔ 1997ء میں وہ کابل پر قابض ہوگئے تو نواز شریف کی دوسری حکومت نے انہیں افغانستان کی جائز حکومت کے طورپر باقاعدہ تسلیم کرلیا۔ اس کے بعد مگر نائن الیون ہوگیا۔ نواز شریف کو فارغ کرنے والے جنرل مشرف نے اس کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان اور القاعدہ کو سزا دینے کے نام پر ایک طویل جنگ لڑی۔
عمران خان صاحب کا دیرینہ مؤقف رہا ہے کہ جس تنظیم سے وہ اب مذاکرات کررہے ہیں و ہ در حقیقت ردعمل کے طورپر وجود میں آئی تھی۔ اسے گلہ تھا کہ پاکستان نے امریکہ سے ڈالر لینے کی خاطر طالبان کو دغا دیا۔ اسلام کے جاں نثار طالبان کے خلاف ڈرون جیسے وحشیانہ ہتھیاروں سے لڑی جنگ کے حامی فقط مغرب زدہ لبرل افراد رہے۔ وہ امریکہ اور یورپی ممالک سے گرانقدر رقوم لے کر این جی اوز بناتے ہیں۔ یہ ادارے کمال مکاری سے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے کے لئے عورتوں کے حقوق کے بہانے فحاشی کو فروغ دیتے ہیں۔ ہمارا خاندانی نظام اور اس کی اقدار تباہ کرنے کو تلے بیٹھے ہیں۔
عمران خان صاحب کا یہ خیال بھی ہے کہ پاکستان میں طالبان کی حمایت میں ہتھیار اٹھانے والے فقط فروغ اسلام ہی کے خواہاں نہیں تھے۔ وہ پختون قوم پرست بھی ہیں اور پختون غیروں کے غلام بننے کو کبھی آمادہ نہیں ہوتے۔ امریکہ جیسی سپرطاقت 20برس کی طویل جنگ کے باوجود افغانستان کو مطیع بنانے میں ناکام رہی۔ بالآخر زچ ہوکر دوحہ میں ہوئے مذاکرات کے ذریعے اپنی جند چھڑانے کی راہ ڈھونڈی۔ پاکستان نے طالبان کو دوحہ مذاکرات میں شرکت کے لئے آمادہ کیا تھا۔ امریکہ اب افغانستان سے ذلیل وخوار ہوکر نکل چکا ہے۔ حکومت کو لہٰذا ان کے پاکستانی حامیوں سے بھی مذاکرات کا آغاز کردینا چاہیے تاکہ ہمارے ہاں دائمی امن قائم ہو۔ پاکستان استحکام اور خوش حالی کی جانب بڑھے۔
عمران خان صاحب نے جو فیصلہ کیا ہے میری دانست میں ان کی محض ذاتی پیش قدمی نہیں ٹھہرائی جاسکتی۔ وہ اب سڑکوں پر دھرنے دیتے اپوزیشن رہ نما نہیں رہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کی زبان سے ادا ہوا ہر لفظ ہماری ریاست کے دائمی اداروں اور خاص طورپر قومی سلامتی کے ذمہ دار افراد سے طویل مشاورت کے بعد منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ میرا اصرار ہے کہ اس تنظیم سے مذاکرات کا فیصلہ جس کانام لیتے ہوئے بھی میں ہچکچارہا ہوں عمران حکومت کانہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کا ہے اور ریاست کی جانب سے ہوئے فیصلے پر اعتراض اٹھانا غداری بھی شمار ہوسکتا ہے۔
جان کی امان پاتے ہوئے اگرچہ عمران خان صاحب کو یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس برادر ملک کے ٹی وی کو انہوں نے انٹرویو دیا ہے اس کے صدر رجب اردوان ہیں۔ ان کے خلاف فروغ اسلام کے نام پر بنائی ایک تنظیم نے فوجی بغاوت کروانے کی کوشش کی تھی۔ اردوان آج بھی اس بغاوت میں کسی بھی طورپر شامل یا معاون رہے افراد کو نہایت غضب سے ڈھونڈ کر عبرت ناک سزائیں دے رہا ہے۔ ترکی میں کرد قوم پرستی کی تحریک بھی ہے۔ اس سے وابستہ تنظیموں کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی بمباری کرتے ہوئے سینکڑوں گائوں تباہ کردئیے گئے ہیں۔ شام میں بشارالاسد کے خلاف متحرک کرد امریکہ کی سرپرستی میں ترقی پسند اور جمہوریت نوازی کی علامت ٹھہرائے جارہے تھے۔ نیٹو کا رکن ملک ہوتے ہوئے بھی لیکن ترکی انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں ہوا۔ فوجی آپریشن کے ذریعے انہیں دربدر کردیا گیا۔ اس تناظر میں سوچنے کو مجبور ہوں کہ اردوان عمران خان صاحب کے دئیے انٹرویو کی بابت کیا محسوس کررہا ہوگا۔
یہ سوال مجھے اس لئے بھی تنگ کررہا ہے کیونکہ عمران خان صاحب ترکی اور ملائیشیا کی معاوت سے عالمی دنیا کو اسلام کی حقیقی شکل دکھانے کے لئے سی این این جیسا ایک چینل بنانا چاہ رہے تھے۔ ملائیشیا اگرچہ اب اس قابل نہیں رہا۔ ترکی مگر ہمہ وقت آمادہ ہے۔ اردوان کی افغانستان کے حوالے سے البتہ اپنی ترجیحات بھی ہیں جو پاکستان کی ترجیحات سے کافی مختلف ہیں۔ آج کے کالم میں گنجائش نہیں رہی۔ کسی اور دن مجھے یہ بیان کرنے کی بھی جرأت دکھانا ہوگی کہ طالبان پختون قوم پرستی کے نمائندہ نہیں۔ وہ درحقیقت نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر مسلمانوں کو یکجا کرنے والا نظام لاگو کرنے کے خواہاں ہیں۔