میرا دل خوش فہم یہ تسلیم کرنے کو آمادہ ہی نہیں ہورہا کہ پنجاب اسمبلی میں ہفتے کے دن جو دنگا فساد ہوا چودھری شجاعت حسین صاحب اس کی بابت دل ہی دل میں ندامت محسوس نہیں کررہے ہوں گے۔ ان کے والد چودھری ظہور الٰہی کے زمانے سے گجرات کے چودھری وضع داری کی علامت شمار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان کے قتل کے بعد چودھری شجاعت حسین نے پروقار استقلال سے خاندانی روایات برقرار ر کھیں۔ کئی دہائیوں کی محنت سے بنایا اور برقرار رکھا بھرم مگر ہفتے کے دن دھماکے سے اُڑگیا ہے۔
چودھری ظہور الٰہی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے شدید ترین مخالفوں میں شامل تھے۔ بھٹو صاحب نے انہیں گرفتار کروانے کے بعد بلوچستان کے دور دراز علاقے کی ایک جیل میں بند کردیا۔ نواب اکبر بگتی ان دنوں اس صوبے کے گورنر تھے۔ انہوں نے ترش الفاظ میں بھٹو صاحب کو آگاہ کیا وہ اپنی زمین پر چودھری صاحب کو معمولی خراش بھی نہیں لگنے دیں گے۔ تاریخ کا جبر مگر یہ ہوا کہ چودھری شجاعت حسین کے سیاسی عروج کے دنوں میں مشرف حکومت کے ہاتھوں اکبر بگتی کا قتل ہوا۔ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری بگتی خاندان کے داماد ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کی موجودگی میں ہفتے کے دن ان کی تذلیل ہوئی۔ تھپڑ مارے اور بال نوچے گئے۔
عمران خان صاحب جب طیش میں آکر سیاسی روایات سے ہٹ کر سخت گیر رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کے مداحین یہ کہتے ہوئے نظرانداز کردیتے ہیں کہ وہ سیاست کے لئے اجنبی ہیں۔ جوانی میں جنونی فاسٹ بائولر رہے ہیں۔ بنیادی طورپر کھرے اور ایمان دار شخص ہیں۔ "منافقت" ان سے ہونہیں سکتی۔ چودھری پرویز الٰہی نے مگر ہفتے کے روز جو رویہ اختیار کیا اس کا دفاع قطعی ناممکن ہے۔ اس رویے نے بلکہ عمران خان کے دیرینہ حامیوں کو بھی دھچکا لگایا ہوگا جو روایتی سیاست کو "گندا" تصور کرتے ہیں۔ منتخب اداروں کے اراکین سے "شائستگی" کی توقع باندھتے ہیں۔ "غنڈہ گردی" پسند نہیں کرتے۔
"ہتھ چھٹ" رویے پر تکیہ کرنے کے بجائے چودھری پرویز الٰہی اگر پارلیمانی حربوں ہی کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے حمزہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے منصب تک اڑان کی مزاحمت دکھاتے تو تحریک انصاف کے دیرینہ حامی اپنے ہی لیڈروں کو ان کی اپنائی حکمت عملی سے رجوع کرنے کو اُکساتے۔ چودھری پرویز الٰہی کی قیادت میں لیکن تحریک انصاف کے اراکین پنجاب اسمبلی نے گلی محلوں والی توتکار اور دھول دھپا کے جو مناظر فراہم کئے وہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی جانب سے 9اپریل کے دن اپنائے رویے کے مقابلے میں "موراوور" نظر آئے۔
کوئی پسند کرے یا نہیں ہمارے پڑھے لکھے افراد کی کثیر تعداد اس امر کی بابت ناخوشی محسوس کررہی تھی کہ مرکز میں وزارت عظمیٰ عمران خان صاحب سے چھین لینے کے بعد شہباز شریف نے اپنے فرزند کو پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پر مسلط کردیاہے۔ شدید مگر بردبار مزاحمت سے چودھری پرویز الٰہی مذکورہ تاثر کو توانا تر بناسکتے تھے۔ مذکورہ تاثر کو اجاگر کرنے سے تاہم انہوں نے گریز کیا اور عوام کی کثیر تعداد سیاستدانوں کو "چور اور لٹیرے" ہی نہیں بلکہ "لچے لفنگے" بھی تصور کرنے کو مجبور ہوگئی۔
سیاسی عمل اہداف کا متقاضی ہوتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کئی دن قبل یہ جان چکے تھے کہ عثمان بزدار کی جگہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لئے ان کے پاس "گنتی" پوری نہیں ہے۔ حمزہ شہباز کے انتخاب میں "لوٹوں " نے یقینا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان لوٹوں پر آوازیں کسنا ہر اعتبار سے درست تھا۔ انہیں مگر ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی نے اس حق کے استعمال کو فقط غنڈہ گردی کے ذ ریعے روکنے کی کوشش کی اور یوں سیاسی ہی نہیں اختلافی اعتبار سے بھی پسپا ہوگئے۔
ہفتے کے روز پنجاب اسمبلی کے مناظر دیکھتے ہوئے مجھے "تاریخ" یاد آتی رہی۔ آج کا بنگلہ دیش 1970کے آغاز تک پاکستان کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہوا کرتا تھا۔ ہم اسے "مشرقی پاکستان" پکارتے تھے۔ ستمبر1958میں وہاں کی صوبائی اسمبلی میں بھی گلیوں جیسا فساد ہوا تھا۔ اس فساد کے نتیجے میں وہاں کے ڈپٹی سپیکر ایوان ہی میں قتل ہوگئے۔ غیر جمہوری قوتوں نے مذکورہ قتل کو نمک مرچ لگاکر عوام کے روبرو رکھا اور اس واقعہ کے عین ایک ماہ بعد جنرل ایوب خان نے اکتوبر 1968میں پاکستان پر پہلا مارشل لاء مسلط کردیا۔ ان کا اقتدار دس برس تک جاری رہا۔
پنجاب اسمبلی کے مناظر دیکھتے ہوئے مجھے اکثر یہ گماں ہوا کہ چودھری پرویز الٰہی دوست محمد مزاری کے ساتھ ویسی ہی "تاریخ" دہرانا چاہ رہے ہیں تانکہ کسی "دیدہ ور" کی راہ بنے۔ جنرل مشرف کے دور میں وہ ثابت کرچکے ہیں کہ "دیدہ وروں " کی چاکری انہیں خوب آتی ہے۔ 2022کے مگر اپنے تقاضے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی ہماری سیاست کے انتہائی تجربہ کار اور کائیاں ترین کردار ہوتے ہوئے بھی ان تقاضوں کو کماحقہ سمجھنے اور نبھانے میں قطعاََ ناکام رہے۔