ڈاکٹر وسیم شہزاد ایوان بالا میں تحریک انصاف کے سینیٹروں کی تعداد کی بدولت ان دنوں قائد حزب اختلاف بنے ہوئے ہیں۔ اس حیثیت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے جمعرات کی صبح ہوئے سینٹ کے اجلاس میں انہوں نے عمران خان صاحب کے اس بیان کا جارحانہ دفاع کیا جو بدھ کی شام نشر ہوا تھا۔ سابق وزیر اعظم نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں امریکہ نے "سازشی" انداز میں اقتدار سے ہٹوانے کے بعد جو "امپورٹڈ" حکومت مسلط کی ہے وہ جان بوجھ کر وطن عزیز کو معاشی بحران کی جانب د ھکیل رہی ہے۔ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ ریاست دیوالیہ ہوگئی تو غیر ملکی قرضوں سے ملک چلانے کے لئے پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں سے بھی محروم ہوسکتا ہے۔ ایٹمی قوت کے بغیر ہم متحد ملک رہنے کے بجائے بالآخر تین حصوں میں تقسیم ہوسکتے ہیں۔
مذکورہ انٹرویو نشر ہونے کے بعد عمران خان صاحب کے نقاد چراغ پا ہوگئے۔ ریاستی اداروں کو بھی ان کے مبینہ "لاڈلے" کے اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد غضب ناک ہذیان کے ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہوگئے۔ سینٹ کا جمعرات کی صبح اجلاس شروع ہوتے ہی مذکورہ بیان کا زیر بحث آنا واضح طورپر متوقع تھا۔ وہ زیر بحث آیاتو ڈاکٹر وسیم شہزاد اپنے قائد کے دفاع میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ ناقدوں کو کمال اعتماد سے سمجھانا شروع کردیا کہ عمران خان صاحب کے "دُکھی دل" میں اُبلتے خدشات کی مذمت کے بجائے انہیں سنجیدگی سے لیا جائے۔
مسلم لیگ (نون) کو ڈاکٹر وسیم شہزاد کی سوچ کے مطابق ویسے بھی "محب وطن" ہونے کا "ڈرامہ" نہیں رچانا چاہیے۔ 2013ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اس کے قائد "مودی کا یار" تصور ہونا شروع ہوگئے تھے۔ بعدازاں "ڈان لیک" بھی ہوئی تھی۔ اس کے ذریعے ریاستی اداروں کو نواز حکومت مبینہ طورپر دُنیا کے روبرو دہشت گردوں کا "سرپرست" بناکر پیش کرنے کی ذمہ دار ٹھہرائی گئی۔ عمران خان صاحب کا بیان سینٹ میں سنجیدگی سے زیر بحث آنے کے بجائے حکومت اور تحریک انصاف کے مابین ایک دوسرے کو "آئینہ دکھانے" کی نذرہوگیا۔
میں ذاتی طورپر عمران خان حاحب کے بدھ کی شام نشر ہوئے خیالات کی بابت ہرگز حیران نہیں ہوا تھا۔ ان کے خلاف جن دنوں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی گیم لگائی جارہی تھی تو برملا متنبہ کرتے رہے کہ اقتدار سے انہیں "امریکی سازش" کے ذریعے باہر نکال دیا گیا تو وہ مزید "خطرے ناک" ہوجائیں گے۔ بدھ کی شام ان کی جانب سے آیا بیان مذکورہ دھمکی بروئے کار لانا ہی سنائی دیا۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے موجودہ پاکستان میں سیاست کو منطقی دلائل کے ذریعے زیر بحث لاناممکن نہیں رہا۔ عمران خان صاحب اس تقسیم کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اپنی کرشماتی شخصیت کی بدولت جب چاہے دن کو رات اور رات کو دن قرار دے سکتے ہیں۔ پاکستان کے عام شہریوں کی اکثریت اگر تحریک انصاف کی حامی نہ بھی ہو تب بھی عمران حکومت کی جگہ آئی حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی کمر توڑ مہنگائی کی لہر نمودار ہونے سے گھبرا چکی ہے۔ اس کے علاوہ قیامت خیز گرمی کے دنوں میں لوڈشیڈنگ کے طویل گھنٹوں کا لوٹ آنا بھی انہیں بوکھلائے ہوئے ہے۔
روزمرہّ زندگی کی مشکلات کی زد میں آئے افراد کو یاد نہیں رہا کہ گزشتہ برس کا بجٹ پیش کرتے ہوئے عمران حکومت کے وزیر خزانہ جناب شوکت ترین صاحب نے یہ بڑھک لگائی تھی کہ پاکستان کی معیشت نہ صرف بحال ہوچکی ہے بلکہ معاشی ترقی کا سفر بھی معجزہ دِکھتے انداز میں شروع ہوچکا ہے۔ ان کے دعویٰ کو سچا ثابت کرنے کے لئے حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج ایسے اعدادوشمار بھی ہمارے سامنے لانا شروع ہوگئی تھی جو پیغام دیتے تھے کہ ہمارے ہاں چند غذائی اجناس کی پیداوار میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ مبینہ اضافے نے کاشتکار کو نئی گاڑیاں، موٹرسائیکلیں اور ٹریکٹر وغیرہ خریدنے کو اُکسایا۔ مری جیسے مقامات پر برف باری شروع ہو تو عوام کی بے پناہ تعداد کنبوں سمیت ان شہروں تک پہنچنے کو بے چین ہوجاتی ہے۔ شہروں کے مہنگے ہوٹلوں میں بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
معجزہ کن خوش حالی کی نوید سنانے کے بعد شوکت ترین صاحب نے سینہ پھلاتے ہوئے ہم سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ بجلی اور پیٹرول کے نرخوں میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف ان کی بیان کردہ کہانی پر لیکن اعتبار کرنے کو آمادہ نہ ہوا۔ ہمیں "اوقات" میں رکھنے کے لئے 500ملین ڈالر کی قسط بھی روک دی گئی۔ شوکت ترین عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کو رام کرنے واشنگٹن گئے تو وہاں سے ناکام لوٹے۔ امریکہ سے واپسی کے بعد بلکہ ٹی وی سکرینوں پر یہ شکوہ کرنا شروع ہوگئے کہ آئی ایم ایف کا رویہ پاکستان کیساتھ ہمدردانہ نہیں بلکہ مخاصمانہ ہوچکا ہے۔ اسے رام کرنے کو سابق وزیر خزانہ بالآخر "منی بجٹ" پیش کرنے کو بھی مجبور ہوگئے۔ یاد رہے کہ مذکورہ بجٹ روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے سے قبل ہی تیار کرنا پڑا تھا۔ فروری کے آخری ہفتے میں اس حملے کے بعد سے دنیا بھر میں تیل کے علاوہ غذائی بحران بھی سنگین سے سنگین تر ہوئے چلا جارہا ہے۔ اسی باعث اس کالم میں آپ کو اُکتادینے کی حد تک اصرار کرتا رہا کہ عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے منصوبے سے گریز کیا جائے۔ روس کے یوکرین پر حملہ آور ہوجانے کے بعد جو بحران نمودار ہورہا ہے اس سے نبردآزما ہونے پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔
مجھ جیسے بے اثر صحافی کی فریاد لیکن ہماری اشرافیہ کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔ عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ بالآخر وہ کامیاب بھی ہوگئی۔ میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والے بے تحاشہ پاکستانیوں کے لئے مگر سکون سے زندہ رہنا ممکن نہیں رہا۔ "خطرے ناک"ہوئے عمران خان ہماری بے چینی اور اضطراب کابھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ ان کی خواہش کے مطابق فی الفور نئے انتخاب کروادئیے جائیں۔ ان کی بدولت وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ بھی آئیں تب بھی ہماری مشکلات میں کمی نہیں آئے گی۔ روس اور یوکرین کے مابین جنگ جاری رہی تو تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رحجان جاری رہے گا۔ اس کی وجہ سے غذائی بحران ٹالنے کی صورت بھی نظر نہیں آرہی۔ ٹھوس حقائق کی وجہ سے ابھرے بحران مگر ہمارے روایتی وسوشل میڈیا پر زیر بحث ہی نہیں۔ یاوہ گوئی کا طوفان ہے جو ہم سب کو دیوانہ بنائے ہوئے ہے۔