تاریخ ہمارے ملک میں خود کو ضرورت سے زیادہ دہرانے کی عادی ہے۔ اسی باعث بدھ کے روز مجھے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ہاتھوں جے اے رحیم اور معراج محمد خان کے ساتھ ہوا سلوک یاد آتا رہا۔ ان دونوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل اور اس کے پیغام کو فروغ دینے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ اسی باعث لیکن بالآخر اقتدار ملا تو یہ دونوں حکومتی نقادوں کے لئے عبرت کا نشان بنادئیے گئے۔ اس عمل کا بالآخر جو انجام ہوا و ہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ توجہ فی الوقت "حال" ہی پر مرکوز رکھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایسے چند سیاستدانوں سے تفصیلی بات چیت ہوئی جو عمران حکومت کی مخالف اور حامی جماعتوں میں بہت متحرک ہیں۔ اپوزیشن کے جن رہ نمائوں سے گفتگو ہوئی وہ بہت "باخبر" تصور ہوتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کی ذات سے جو "بیانیہ" منسوب ہے اسے قابل ستائش استقلال سے اپنائے ہوئے بھی ہیں۔ مجھ سے حقائق چھپانے کے وہ عادی نہیں۔ دیانت داری سے سیاسی معاملات پر اپنی ذاتی رائے کھل کر بیان کردیتے ہیں۔ میری طرح یہ صاحبان بھی مگر اس سوال کا تسلی بخش جواب تلاش کرنے میں ناکام سنائی دئے کہ عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے ہٹانے والے آئیڈیا کی طویل عرصے تک مخالفت کے بعد نواز شریف صاحب نے اس کی حمایت کا "اچانک" نظر آنے والا اعلان کیوں کردیا ہے۔
ان کی دیانت دارانہ دِکھتی لاعلمی مجھ جیسے صحافیوں کو یہ سوال اٹھانے کو اُکساتی ہے کہ بالآخر عمران خان صاحب کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتمادباقاعدہ انداز میں پیش ہوگی بھی یانہیں۔ ذاتی طورپر اگرچہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد کے فیصلے کی بابت Over Committکر بیٹھی ہیں۔ یہ تحریک پیش کرنا محض "دھمکی" ہوتی تو آصف علی زرداری اپنے فرزند کے ہمراہ شہباز شریف سے ملاقات کرنے ان کے گھر جانے کی زحمت نہ اٹھاتے۔ مذکورہ ملاقات میں محترمہ مریم نواز صاحبہ کی موجودگی کو بھی یقینی نہ بنایا جاتا۔ بعدازاں شہباز شریف چودھری شجاعت حسین کی "عیادت" کے لئے ان کے لاہور والے گھر بھی نہ جاتے۔ ایسی "آنیوں جانیوں " کے باوجود اگر اپوزیشن جماعتیں آخری لمحات میں تحریک عدم اعتمادپیش کرنے سے "بکری" ہوئی نظر آئیں تو ان کی اجتماعی ساکھ کو شدید دھچکا لگے گا۔ یہ لکھنے کے باوجود میں اب بھی محسوس کررہا ہوں کہ تحریک عدم اعتماد جب رائے شماری کے لئے قومی اسمبلی میں آئے گی تو اپوزیشن جماعتیں اس کی بدولت عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹا نہیں پائیں گی۔
1989میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی پہلی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو میں بطور رپورٹر انتہائی متحرک تھا۔ محترمہ اور ان کے وفاداروں کو کامل یقین تھا کہ ان دنوں کے صدر اور آرمی چیف مذکورہ تحریک کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے انہوں نے پیپلز پارٹی کی نشستوں پر بیٹھے افراد میں سے "مشکوک" ایم این ایز پر توجہ مرکوز رکھی۔ انہیں "مہمان" بناکر کراچی پہنچادیا گیا۔ وہاں کی صوبائی حکومت پیپلز پارٹی کے پاس تھی۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے دو روز قبل حکمران جماعت کے تمام حامیوں کو سوات لے جاکر ایک ہوٹل تک محصور کردیا گیا۔ آفتاب احمد شیر پائو وہاں کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے کمال مہارت سے کسی ایک رکن اسمبلی کو بھی وہاں سے کھسکنے نہیں دیا۔
محترمہ کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کروانے کے لئے پنجاب کی صوبائی حکومت اور اس کے وسائل پر کلیدی انحصار کیا جارہا تھا۔ اپوزیشن کے "مشکوک" افراد کو وفاقی حکومت کے اثر سے بچانے کے لئے مری منتقل کردیا گیا۔ قومی اسمبلی میں اگرچہ تحریک عدم اعتماد رائے شماری کے لئے پیش ہوئی تو مری میں محصور رکھے ایک رکن نے ووٹ کا باقاعدہ آغاز ہونے سے قبل سپیکر ملک معراج خالد کو آگاہ کیا کہ وہ اپنی جماعت یعنی پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنا چاہ رہے ہیں۔ موصوف کی اسی خواہش کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کو بہت سبکی محسوس ہوئی اور بالآخر محترمہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بھی ہوگئی۔
محترمہ کے برعکس ان دنوں عمران خان صاحب کی جماعت فقط وفاق ہی نہیں بلکہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی برسراقتدار ہے۔ جدید ترین آلات جاسوسی سے لیس انٹیلی جنس بیورو حکومتی صفوں میں سے "مشکوک" افراد کو بآسانی ڈھونڈ سکتا ہے۔ وہ "پیار محبت" سے اپنا رویہ بدلنے کو آمادہ نہ ہوئے تو ایف آئی اے اور صوبائی حکومتیں ان کے خلاف جھوٹی سچی بنیادوں پر مقدمات قائم کرسکتی ہیں۔ 8سے 10حکومتی رکن قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد والے دن ایوان میں موجود ہونے کے بجائے جیل میں بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں میں سے اس تعداد سے دگنے افراد کو بھی اسی انداز میں "منیج(Manage)" کیا جاسکتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد اس کی حمایت میں "بندے پورے کرنا" فقط اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ دار ہوگی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں نظربظاہر بآسانی انہیں مطلوبہ تعداد سے محروم رکھ سکتی ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ سیاسی حساب کتاب کا محض شاہد اور طالب علم ہوتے ہوئے تحریک عدم اعتمادو الے منصوبے کو میں جس نگاہ سے دیکھ رہا ہوں وہ نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسے گھاگ سیاست دانوں کو کیوں نظر نہیں آرہا۔ مذکورہ سوال مگر جب اپوزیشن کے متحرک رہ نمائوں کے روبرو اٹھاتا ہوں تو وہ معنی خیز مسکراہٹ سے اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ مجھ جیسے چند صحافیوں کو یہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی آڑ میں درحقیقت کوئی اور منظر نامہ نمودار ہونے کی امید باندھی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی جانب سے دی لانگ مارچ کی تاریخیں کہیں ممکنہ منظر نامے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہی طے کردی گئی ہیں۔ جس منظر نامے کی امید تو نہیں باندھی جارہی۔ میرا کند ذہن البتہ اس کے ممکنہ خدوخال تلاش کرنے میں اب تک قطعاََ ناکام ہے۔