میں یہ کالم 25مئی کی صبح اُٹھتے ہی لکھ رہا ہوں۔ عمران خان صاحب اس روز ملک بھر سے اپنے حامیوں کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت جاری کرچکے ہیں۔ حکومت پنجاب ان کے بلائے اجتماع کی نفری کم تر بنانے کے لئے پیر کی رات سے تحریک انصاف کے مقامی رہ نمائوں اور متحرک کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہوئے پکڑدھکڑ کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ پنجاب کو اسلام آباد سے ملانے والے تمام راستے بھی کنٹینر لگاکر بند کردئیے گئے ہیں۔ آزادانہ نقل وحرکت کے آئینی حق کی نفی کرنے والے اقدامات سپریم کورٹ میں جائز ٹھہرانے کے لئے حکومتی وکلاء متعدد توجیہات پیش کررہے ہیں۔ مجھے خبر نہیں وہ عزت مآب ججوں کو قائل کر پائیں گی یا نہیں۔
پنجاب کو اسلام آباد سے کاٹتے ہوئے وفاقی اور پنجاب حکومتیں اس حقیقت کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں کہ خیبرپختون خواہ میں ان دنوں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ عمران خان صاحب بھی گزشتہ پانچ دنوں سے پشاور میں مقیم ہیں۔ تحریک انصاف 2013ء سے مستقل اس صوبے کی حکمران جماعت ہے۔ وہاں عمران خان صاحب کا امریکہ مخالف بیانیہ بھی کافی مقبول ہے۔ کارکنوں کو حکومتی سرپرستی میسر ہو تو ان کے حوصلے مزید بلند ہوجاتے ہیں۔ خان صاحب اس شہر سے یقینا ایک بڑے ہجوم کے ساتھ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوں گے۔
محض پشاور پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے وفاقی حکومت اور میڈیا یہ حقیقت بھی فراموش کئے ہوئے ہیں کہ تحریک انصاف محض خیبرپختون خواہ ہی میں نہیں بلکہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی حکمران جماعت بھی ہے۔ وہاں سے آئے قافلوں کو اسلام آباد آنے کے لئے پنجاب کے مری سے گزرنے کی ضرورت نہیں۔ ایبٹ آباد کے ذریعے پشاور سے اسلام آباد جانے والے قافلے میں کسی بھی مقام پر شامل ہوا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں صورتحال پر غور کریں تو فی الوقت پاکستان کا دار الحکومت وفاق کی تین اکائیوں سے کٹا ہوا نظر آرہا ہے۔ صورتحال مزید کئی روز جاری رہی تو فقط اسلام آباد ہی نہیں خیبرپختونخواہ، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو روزمرہّ ضروریات کے لئے لازم اشیاء کی رسد میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی وجہ سے وہ افراد بھی متاثر ہوں گے جو تحریک انصاف سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے۔ اشیاء صرف کی نایابی یا مہنگائی مگر انہیں وفاقی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے پر مجبور کردے گی۔ ایسے عالم میں فرض کیا عمران خان صاحب اپنے حامیوں سمیت اسلام آباد پہنچ نہ سکیں تب بھی ان کی جانب سے حکومت کو مفلوج وبے بس دکھانے کا پیغام نمایاں ہوجائے گا۔ جام نظرآتی صورتحال کو اگرچہ زیادہ دنوں تک برقرار رکھنا ممکن ہی نہیں۔ کسی نہ کسی مرحلے پر فریقین کو لچک دکھانا ہوگی۔
عمران خان صاحب کا بنیادی مطالبہ نئے انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہے۔ وہ اس ضمن میں کسی تاریخ کے تعین کے ضمن میں شاید لچک دکھانے کو آمادہ ہوجائیں۔ حکومت مگر اس کے بعد نظر بظاہر "اپنی پسند" کی تاریخ پر رضا مند ہونے کے باوجود بھی عمران خان صاحب کی تحریک کے سامنے ڈھیر ہوتی نظر آئے گی۔ اپنی ضد، استقلال اور بھرپور عوامی حمایت سے سابق وزیر اعظم رواں برس کے اگست یا ستمبر میں نئے انتخابات کی تاریخ میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان کے طاقت ور ترین سیاستدان شمار ہونا شروع ہوجائیں گے۔ یہ ساکھ ان کے نامزد کردہ امیدواروں کے لئے آئندہ انتخاب تقریباََ سویپ کرنے کے امکانات فراہم کرے گی۔ عوام میں یہ تاثر بھی پھیلے گا کہ عمران خان صاحب دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب پر واپس لوٹ سکتے ہیں۔
مذکورہ امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کالم کے ذریعے اصرار کرتا رہا ہوں کہ شہباز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہوئی گیارہ جماعتی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی نئے انتخاب کی تاریخ کا اعلان کردینا چاہیے تھا۔ حکومتی اتحاد کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (نون) کے حامیوں کی اکثریت قبل از وقت انتخاب کا اعلان کرنے کو دل سے آمادہ تھی۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل ا لرحمن مگر اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ عمران خان صاحب کی جانب سے 25مئی کے احتجاج کا اعلان ہوگیا تو مسلم لیگ (نون) بھی ڈٹے رہنے کو مجبور ہوگئی۔ لندن میں مقیم نواز شریف صاحب نے بھی "جتھوں " کے روبرو جھکنے سے انکار کردیا۔ "درمیانی راہ" ڈھونڈنے کی گنجائش لہٰذا ختم ہوگئی۔
وطن عزیز میں اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کا ایسا ماحول 1993ء میں بھی نمودار ہوا تھا۔ صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرف ہوئی نواز حکومت کو جب سپریم کورٹ نے بحال کردیا تو پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد رکوانے کے لئے لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ اس مارچ کو روکنے کے لئے ان دنوں کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ متحرک ہوئے۔ "کاکڑ فارمولا" بروئے کار آیا۔ اس کے نتیجے میں غلام اسحاق خان صدارت اور نواز شریف وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوگئے۔ اس کے بعد نئے انتخاب ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ موجودہ حالات میں "کاکڑفارمولا" دہرایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ کاش میرے پاس اس سوال کا واضح جواب موجود ہوتا۔
"کاکڑ فارمولا" کے برعکس سیاسی تناظر میں کئی برسوں سے حتمی فیصلہ ساز کی حیثیت میں ابھری اعلیٰ عدلیہ بھی اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے فریقین کو درمیانی راہ ڈھونڈنے کی جانب راغب کرسکتی تھی۔ اعلیٰ عدلیہ کے کئی فیصلوں نے مگر ہمارے ہاں اندھی نفرت وعقیدت کی بنیاد پر ہوئی تقسیم کو مزید گہرا بنادیا ہے۔ پاکستان کا اصل بحران ان دنوں یہ ہے کہ اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے فریقین ریاستی اداروں کی غیر جانب داری کی بابت بھی شک وشبہات میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ایسی فضا کسی "ثالث" کو ابھرنے نہیں دیتی۔ گزشتہ تین دہائیوں سے ملکی سیاست کا صحافیانہ مشاہدہ بھی مجھے آنے والے دنوں کے بارے میں اسی باعث پراعتماد رائے دینے سے محروم کئے ہوئے ہے۔ عام پاکستانی کی طرح فکرمندی سے منتظر ہوں کہ حالات کیا شکل اختیار کریں گے۔