گزرے جمعہ کی دوپہر رائو تحسین صاحب نے اپنی والدہ کی رحلت کے بعد دعا کا اہتمام کررکھا تھا۔ رائو صاحب نے اپنی عمر وزارت اطلاعات کی چاکری میں صرف کی ہے۔ ہم دونوں ایک ساتھ ہی جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہوئے۔ ان کا دوستانہ خلوص بے شمار صحافیوں کے بہت کام آتا رہا ہے۔ اس کے باوجود وہ جب نام نہاد ڈان لیکس کی زد میں آئے تو چند ہی افراد کو ان سے دوستی یاد رہی۔ رائو صاحب نے کمال فراخدلی سے مگر تیرکھانے کے باوجود "اپنے ہی دوستوں " سے تعلق برقرار رکھا ہوا ہے۔
دعا کی اس محفل میں طویل عرصے بعد کافی ریٹائر اور حاضر سروس افسروں سے ملاقات بھی ہوگئی۔ ان کی اکثریت کا گماں تھا کہ اس دن تک گوجرانوالہ میں دھرنا دئیے بیٹھی تنظیم کو اب کی بار من مانی نہیں کرنے دی جائے گی۔ عمران حکومت ریاستی رٹ بحال کرنے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے۔ وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات کی جانب سے دئیے جارحانہ بیانات کو نہایت سنجیدگی سے لیاجارہا تھا۔
میرے چند متحرک ساتھیوں کا مگر اصرار تھا کہ دھرنوں کی عادی تنظیم سے مذاکرات کی راہ ڈھونڈی جارہی ہے۔ میرے دیرینہ رفیق اسلم خان اس ضمن میں بہت زیادہ پراعتماد نظر آئے۔ مذہب کے نام پر چلائی جماعتوں اور تحاریک کے اکابرین سے وہ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ موصوف کو اس تناظر میں باخبر ترین صحافیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میں اور مرحوم عباس اطہر اسلم خان کو ہمیشہ اپنا "چھوٹا" ہی شمار کرتے رہے۔ بہر حال اس کی بدولت علم ہوا کہ مذکورہ تنظیم سے مذاکرات کے لئے مفتی منیب الرحمان صاحب کلیدی کردار ادا کریں گے۔ مجھے ان پر نگاہ رکھنا چاہیے۔
عملی صحافت سے عرصہ ہوا مگر ریٹائر ہوچکا ہوں۔ جمعرات کے بعد دو دنوں تک یہ کالم بھی لکھنا نہیں ہوتا۔ خبر نامی شے ڈھونڈنے کی ویسے بھی تمنا نہیں رہی۔ جو خبر اہم تفصیلات سمیت آزادیٔ صحافت کے موجودہ موسم میں بھی کھل کر بیان نہ ہوپائے اسے ڈھونڈنے سے کیا حاصل۔ گھر لوٹ کر سوگیا۔ شام کو چہل قدمی کی اور سات بجے کے بعد ٹی وی لگالیا۔ ورلڈ کپ کے لئے ہوئے T-20میچ جی کو بہلانے کے بہت کام آرہے ہیں۔
رات نو بجے کے بعد البتہ اطلاع یہ بھی ملی کہ اسلام آباد کے ایک اہم ترین دفتر میں صحافیوں کو تفصیلی بریفنگ کے لئے طلب کرلیا گیا ہے۔ اعلیٰ سطح کے ریاستی اور حکومتی نمائندوں نے مذکورہ بریفنگ میں حصہ لیا۔ حکومتی نمائندوں کی کوشش رہی کہ مذکورہ بریفنگ سے بنیادی پیغام یہ ملے کہ "ایک پیج" والی صورت حال اب بھی برقرار ہے۔ چند ریاستی نمائندے تاہم اعدادوشمار کی بنیاد پر مذاکرات کا ماحول بناتے محسوس ہوئے۔ ہمارے عوام کی اکثریت مگر بے خبر ہی رہی۔ کاروبار حیات بھی معطل رہا اور "اب کیا ہوگا؟ " والے خدشات۔
بالآخر علمائے کرام کا ایک وفد اسلام آباد پہنچ گیا۔ اس میں شامل افراد کی ریاستی اور حکومتی اداروں کی جانب سے دل جوئی کی ہر ممکن کوشش ہوئی۔ مفتی منیب الرحمان قضیہ کا حل ڈھونڈنے کے لئے حتمی ثالث بنا دئیے گئے۔ اتوار کی سہ پہر انہو ں نے وزیر خارجہ اور قومی اسمبلی کے سپیکر کو اپنے بائیں ہاتھ بٹھا کر معاہدہ ہوجانے کا اعلان کردیاہے۔ اس معاہدے کی تفصیلات عیاں کرنے کو وہ اگرچہ آمادہ نہیں ہوئے۔ اختتام بالخیر کی تاہم امید انتہائی اعتماد سے دلاتے رہے۔
مفتی منیب صاحب کو حتمی ثالث کی حیثیت میں دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں انگریزی کا وہ فقرہ گونج اٹھا جو Last Laughیا آخری قہقہہ کے ذریعے کسی فرد کی کامیابی وکامرانی کا تذکرہ کرتا ہے۔ مفتی منیب صاحب کئی برسوں تک رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں۔ ہمارے لاہور کے علامہ طاہر اشرفی صاحب نے اکثر انہیں عید کا چاند دیکھنے کے ضمن میں مشکلات میں الجھانے کی کوشش کی۔ ان دنوں وہ عمران خان صاحب کے قریب ترین مشیروں میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ مذہبی امور کی وزارت بھی ایک اور بااثر عالم نورالحق قادری کے پاس ہے۔ وہ دونوں مگر ایک اور مذہبی تنظیم کے دھرنے کی بدولت پھیلی بے یقینی کا حل ڈھونڈ نہیں پائے۔ ان کے ہوتے ہوئے بھی عمران حکومت کو مفتی منیب الرحمان صاحب ہی سے رجوع کرنا پڑا۔
وطن عزیز میں لبرل کہلاتے افراد کے چہیتے فواد چودھری صاحب نے اپنی ذہانت کو بھرپور انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے نہایت سنجیدگی اور استقلال سے یہ کوشش کی تھی کہ عید کا چاند دیکھنے والی روایت سے جند چھڑائی جائے۔ سائنس پر کامل تکیہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ روز عید کس دن ہوگا۔ دھرنا دئیے افراد کو قابو میں لانے کے لئے ریاستی رٹ کی بحالی کی بھی نہایت ثابت قدمی سے بڑھکیں لگاتے رہے۔ بالآخر انہیں بھی لیکن مفتی منیب صاحب کی فراست ہی کے زیربار آنا پڑا۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے بقراط عصر جو خود کو مذہبی جماعتوں کا حقیقی آشنا ٹھہراتے ہیں ان دنوں وزیر داخلہ ہوتے ہوئے بھی کوئی حل نہیں ڈھونڈ پائے۔ پنجاب کو رینجرز کے سپرد کرکے گوشۂ تنہائی میں جاچکے ہیں۔
اتوار کی سہ پہر معاہدے کا اعلان ہوجانے کے بعد سے سوشل میڈیا پر متحرک کئی لوگ ریاستی رٹ کو ہر صورت بحال کرنے والے وزراء کو طعنوں کے نشتروں سے زخمی کرنے میں مصروف ہیں۔ چند افراد یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ دھرنوں اور لانگ مارچ کی عادی ہوئی تنظیم کا مستقبل ا ٓئندہ انتخابات کے دورا ن بہت تابناک ہوگا۔ اس کی بدولت یہ تاثر بھی محض خوش فہمی ثابت ہوگا کہ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں جب بھی عام انتخابات ہوئے تو نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کو 1997جیسے نتائج ملیں گے۔ لاہور کو پنڈی سے ملانے والے جی ٹی روڈ پر موجو د وسطی پنجاب کے شہر اور قصبے مسلم لیگ (نون) کے 1990کی دہائی کے آغاز سے ٹھوس ووٹ بینک تصور ہوتے ہیں۔ گوجرانوالہ اور وزیر آباد میں کئی روز قیام کے بعد دھرنا دینے والی تنظیم نے غالباََ مذکورہ ووٹ بینک کو تگڑا ڈنٹ(Dent)لگادیا ہے۔
فی الوقت میں اس تناظر میں اپنی رائے دینے سے اجتناب کو ترجیح دوں گا۔ یاد اگرچہ شدت سے یہ بھی آرہا ہے کہ 2017والے دھرنے نے ان دنوں کے وزیر قانون زاہد حامد کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ 2018کے عام انتخاب میں لیکن ان ہی کے فرزند مسلم لیگ (نون) کی ٹکٹ پر اپنے آبائی حلقے سے قومی اسمبلی کے لئے بآسانی منتخب ہوگئے تھے۔ ملکی سیاست کا تجزیہ کرنے کو میرے دل ودماغ ان دنوں ویسے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ منطق کے اطلاق کی ان دنوں ہمارے ہاں گنجائش باقی نہیں رہی۔ گنجلک مسائل کے حل کے لئے بالآخر مفتی منیب الرحمان صاحب جیسے اکابرین کی فراست ہی سے رجوع کرناپڑتا ہے۔