تحریک انصاف سے ندیم افضل چن صاحب کی جدائی آج سے کئی ماہ قبل دیوار پر لکھی جاچکی تھی۔ بدھ کی شام بالآخر وہ بروئے کار آگئی۔ نظر بظاہر انگریزی محاورے والے تابوت کی آخری کیل وزیر اعظم صاحب کا کوئٹہ میں دہشت گرد بربریت کا نشانہ بنے ہزارہ کان کنوں کی بابت اختیارہوا رویہ تھا۔ چن صاحب کئی مہینوں سے اگرچہ خود کو عمران خان صاحب کے دربار میں اجنبی اور تنہا محسوس کررہے تھے۔
ندیم افضل چن ٹھوس زمینی حقائق پر کڑی نگاہ رکھنے والے ان متحرک سیاسی کارکنوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو بہت تیزی سے ختم ہورہی ہے۔"جی حضوری"کا زمانہ ہے۔"جہیڑا جتے"اس کے ساتھ چلنا ہوتا ہے اور دربار میں بیٹھے ہوئے ہر صورت "پیا" کے موڈ کو دیکھتے ہوئے "اپنی رائے" کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ چن صاحب خود کو "مزاج شاہی" کے مطابق ڈھالنے میں قطعاََ ناکام رہے۔ منہ پھٹ جاٹ کے جاٹ ہی رہے۔
عمران خان صاحب کے اندازِ سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات رکھنے کے باوجود اگرچہ میں یہ اعتراف کرنے کو بھی مجبور ہوں کہ وزیر اعظم صاحب نے ان کے منہ پھٹ رویے کوطویل عرصہ تک کھلے دل سے برداشت کیا۔ کابینہ یا ترجمانوں کے اجلاسوں میں ان کے "Ultra Democrat"ہونے کی بابت طنزیہ گلے کا اظہار ضرور کرتے رہے مگر انہیں اپنی بات کہنے کا بھرپور موقعہ بھی فراہم کرتے۔
اپنے ناقدین اور سیاسی مخالفین کی بابت عمران خان صاحب کا رویہ ہرگز لچکدار نہیں ہے۔ فاسٹ بائولر کی جبلت سے مغلوب ہوئے اپنے ہر مخالف کی وکٹ کو ہر صورت گرانے کو بے چین ہوتے ہیں۔ ترجمانوں کی فوج ظفر موج اس مزاج کی تسکین کے لئے ٹی وی سکرینوں پر عمران حکومت کے مخالفین کو بازاری زبان کے استعمال سے زچ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہے۔ ایک منہ پھٹ جاٹ ہوتے ہوئے بھی ندیم افضل چن سیاسی اقدار اور سماجی وضع داری کو "پیا" کی خاطر بھلادینے کو مگر آمادہ نہیں ہوئے۔ حکومتی کان میں داخل ہونے کے باوجود "نمک" نہیں بن پائے۔
بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ 2013کے انتخاب سے قبل ہی چن صاحب پیپلز پارٹی کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان سرکردہ افراد میں شامل تھے جو عمران خان صاحب کو نواز شریف کا اصل "ویری" تصور کرتے تھے۔ ان افراد کا تعلق بنیادی طورپر پنجاب میں "دھڑے" اور "ڈیرے" کی سیاست کرنے والے ان "دیہاتی" سیاستدانوں سے ہے جو شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ جنرل ضیاء کی فوجی آمریت کے دوران نواز شریف جیسے "صنعت کاروں " کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاست میں لاکر طاقت ور بنایا گیا تھا۔ فوجی آمروں اور کاروباری افراد کے گٹھ جوڑنے "نظریاتی سیاست" کو تباہ وبرباد کردیا۔ یہ لوگ مصر رہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا "ووٹ بینک" اب بھی نظریاتی ہے۔ وہ 1980کی دہائی میں بھٹو خاندان کے خلاف "ابھارے"نواز شریف کو معاف کرنے کو کسی صورت تیار نہیں۔ عمران خان صاحب کی صورت اب ان کا "متبادل"میسر ہوگیا ہے۔ 2013کے انتخاب سے قبل چن صاحب نے کئی بار یہ تھیوری مجھے نہایت احترام اور دلائل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی کے وفادار ہوتے ہوئے بھی مجھے خلوص سے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ میں عمران خان صاحب کو تنقید کی زد میں نہ لائوں۔ میں انہیں سمجھنے میں ہمیشہ ناکام رہا کہ عمران خان صاحب درحقیقت نواز شریف کے "ووٹ بینک" میں نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے "نظریاتی" شمار ہوئے "ووٹ بینک" میں نقب لگارہے ہیں۔ 2013کے انتخابی نتائج نے مجھے درست قرار دیا۔
"ووٹ بینک" کے تقاضوں نے بالآخر ندیم افضل چن صاحب کو 2018کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف میں شامل ہونے کو مجبور کردیا۔ وہ قومی اسمبلی کی نشست اس کے باوجود جیت نہیں پائے۔ وزیر اعظم صاحب نے تاہم کشادہ دلی سے کام لیتے ہوئے انہیں وفاقی وزیر کے برابر اپنا "خصوصی مشیر" تعینات کردیا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کی بدولت چن صاحب نے بتدریج دریافت کرنا شروع کردیا کہ عمران حکومت بھی بنیادی طورپر مختلف النوع کاروباری دھندوں کے اجارہ دار سیٹھوں کی ترجیحات کے مطابق اپنی پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔ کاشت کار کے روزمرہّ مسائل اور زرعی معیشت کی بقاء اور ترقی کے لئے لازمی نظر آتی پیش قدمی لینے کو وہ ہرگز تیار نہیں۔
گندم، کپاس اور گنے کی پیداوار سے متعلق بے تحاشہ بنیادی پہلو چن صاحب نے کابینہ کے اجلاسوں میں تقریباََ دہائی مچاتے ہوئے اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ تلخ حقیقت یہ بھی رہی کہ کاشت کاروں کے "اصلی تے وڈے" نمائندہ شمار ہوتے شاہ محمود قریشی اور سید فخر امام جیسے وزراء نے چن صاحب کا شاذہی ساتھ دیا۔ وہ جب بھی غریب کاشتکار کے روزمرہّ مسائل کی نشان دہی کرتے تو مراد سعید جیسے بلند آہنگ "وفادار" ان"معاشی اشاریوں " کی گردان شروع کردیتے جو ان کی دانست میں اس "حقیقت" کو آشکار کرتے ہیں کہ تمام ترمشکلات کے باوجود عمران حکومت نے پاکستان کو "ترقی" کی راہ پر دھکیل دیا ہے۔ دورِ حاضر میں معاشیات کے "ایڈم سمتھ" تصور ہوتے ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب اکثر کمپیوٹر کی مدد سے وفاقی کابینہ کو اعدادوشمار کی ایسی Slidesدکھاتے ہیں جو "سب اچھا" کی نوید سناتی ہیں۔ ان کی بابت دادوتحسین کے ڈھول بجاتے وزراء سے چن صاحب نے کئی بار کابینہ کے اجلاس میں ڈھٹائی سے پوچھ لیا کہ عوام کو شیخ صاحب کی فراہم کردہ "معلومات" دکھاکر مطمئن کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ معقول جواب میسر نہ ہوتا تو وزیر اعظم گفتگو کو کابینہ کے ایجنڈے پر موجود دیگر موضوعات کی جانب موڑ دیتے۔ چن صاحب کے اٹھائے سوال صحرا میں بلند ہوئی آواز ثابت ہونا شروع ہوگئے۔ ایک منہ پھٹ جاٹ دیوار سے اپنے سرکو کب تک ٹکراتا رہتا۔ خود کو بالآخر "غیر " تسلیم کرتے ہوئے چن صاحب کابینہ سے مستعفی ہونے کو مجبور ہوگئے۔
قیاس آرائی اب یہ ہورہی ہے کہ چن صاحب کا اگلا پڑائو کونسی جماعت میں ہوگا۔ سیاسی مبصرین کی اکثریت کو گماں ہے کہ وہ "اپنے گھر" یعنی پیپلز پارٹی میں لوٹ آئیں گے۔ اس امکان کو "فطری" تسلیم کرنے کے باوجود میری ذاتی خواہش ہوگی کہ فی الوقت سیاسی جماعتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ندیم افضل چن صاحب اپنے اندر جبلی طورپر موجود لگن اور توانائی کسانوں کو منظم کرنے پر مرکوز کریں۔
شہروں تک محدود ہوئے مجھ جیسے متوسط طبقے کو ہرگز اندازہ نہیں کہ ماحول میں تیزی سے نمودار ہوتی تبدیلیاں اور حکمران اشرافیہ کی خوراک جیسے بنیادی مسئلے کے ضمن میں اختیار کردہ بے اعتنائی کی بدولت ہماراکسان خود کو قطعاََ لاوارث محسوس کررہا ہے۔ اس کے مسائل کو بھرپور انداز میں اجاگر کرتے ہوئے ان کے ازالے کی صورت دریافت نہ ہوئی تو ہمارے ہاں خوراک کا بدترین بحران نمودار ہوجائے گا۔ گندم اور چینی کے حوالے سے ہر برس اُبھرے ہوئے "بحران" اس امر کا واضح انداز میں عندیہ دے رہے ہیں۔
ہمارے ہمسائے بھارت میں گزشتہ چھ ہفتوں سے ہزارہا کسانوں نے دلی میں دھرنادے رکھا ہے۔ مودی سرکار جو اپنے مخالفین کو فسطائی ہتھکنڈوں سے پچھاڑنے میں ہمیشہ کامیاب رہی ہے کسان تحریک سے نبردآزما ہونے کے قابل نظر نہیں آرہی۔ بتدریج یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ اب ریاستی قوت کے بہیمانہ استعمال سے کسانوں کو منتشر کرنے کی کوشش ہوگی۔ بھارت ہی نہیں دنیا کی کسی ریاست کے پاس مگر کسان کو مطمئن کرنے والی حکمت عملی ہی موجود نہیں۔ عالمی سطح پر مستند گردانے سیاسی محقق تاہم اصرار کررہے ہیں کہ 2021سے شروع ہونے والی دہائی میں انسانوں کو "دھرتی ماتا" کے آگے سرنگوں کرنا ہوگا۔ کمپیوٹر کی مدد سے جو "رو بوٹ" تیار ہونے ہیں وہ زمین پر محنت، محبت اور مشقت سے اُگائی خوراک کی فراہمی یقینی نہیں بناسکتے۔"دیہات" کو ایک بار پھر Self-Sustainedاکائی بنانا ہوگا۔ یہ اپنی "اصل " کو لوٹ آئے تو شہروں کو نقل مکانی کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔ وہ معاشرتی اور تہذیبی اقدار بھی بحال ہوجائیں گی جنہوں نے انسان کو اپنے ماحول پر قابو پانے کی بدولت "اشرف المخلوقات" بنایا تھا۔