اتوار کی صبح اٹھا ہوں تو خبر ملی ہے کہ لتا منگیشکراس دنیا میں نہیں رہیں۔ سورج کی شعاعوں کے بغیر چڑھے دن اس خبر نے میرے دل میں کئی مہینوں سے جمع ہوئے ملال کو مزید گہرا کردیا۔ یہ سوچتے ہوئے دل کو البتہ دلاسہ دینے کی کوشش کی کہ ان کے فن کے بارے میں لکھ کر دُکھ کا غبار کم ہوسکتا ہے۔
شاعری اور موسیقی کی لذتوں سے مگر برسوں سے سیاسی اور خارجہ امور پر رپورٹنگ نے بتدریج محروم کردیا ہے۔ لتا کے فن کی بابت خیالات مرتب کرنے کی کوشش کی تو یاد آیا کہ میٹرک کا امتحان دینے سے قبل 1969ء میں ریڈیو پاکستان لاہور کی کینٹین میں بیٹھا ہوا تھا۔ نذر حسین تعلق جن کا شام چوراسی گھرانے سے تھا ان دنوں ریڈیو کے دھانسو کمپوزرشمار ہوتے تھے۔ ان سے لتا کے اندازِ گائیکی کے راز کو جاننا چاہا تھا۔ کمال شفقت سے انہوں نے مجھ کوڑھ مغز کو سمجھانے کی کوشش کی کہ شمالی ہندوستان کا سنگیت اس خطے کے دوسرے علاقوں سے کیسے مختلف ہے۔ بس اتنا یاد رہا کہ قصور اور پٹیالہ سے ابھرے گھرانے درحقیقت لوگوں کے لئے گاتے تھے۔ فن پر کامل گرفت کا مظاہرہ اس کے لئے لازمی تھا۔ سامعین کو یوں رجھایاجاتا تھا۔
ہمارے خطے کے برعکس کرناٹک وغیرہ کا سنگیت درحقیقت سامعین کے لئے نہیں بلکہ بنیادی طورپر عبادت کے لئے مختص تھا۔ لتا ایسے ہی سنگیت کی نمائندہ تھی۔ اس سنگیت سے مختص عاجزی اور خودسپردگی کو مگر جب اس نے فلمی گیتوں کے لئے مہارت اور لگن سے استعمال کرنا شروع کیا تو عوام میں مقبول ہونے کی ایک نئی راہ دریافت ہوگئی۔ نذر صاحب کے علاوہ استاد امانت علی خان مرحوم اور خواجہ خورشید انور صاحب سے بھی لتا کے گائے کئی مشہور نغموں کا علمِ ریاضی جیسا جائزہ بھی کئی بار سنا۔ کاش میں انہیں دہرانے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتا۔ اس ضمن میں اپنی کوتاہ پروازی سے مگر گھبرا گیا ہوں اور ڈنگ ٹپانے کے لئے سیاست کی جانب لوٹ رہا ہوں جس کے بارے میں لکھنے سے اگرچہ اب اُکتا چکا ہوں۔
"سب پہ بھاری" آصف علی زرداری صاحب ہفتے کی دوپہر اپنے فرزند کے ہمراہ شہباز شریف صاحب کی دعوت پر دوپہر کے کھانے کے لئے جاتی امرا تشریف لے گئے۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ اور حمزہ شہباز شریف بھی وہاں خیر مقدمی انداز میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سنا ہے ٹی وی سکرینوں پر مذکورہ ملاقات کے بہت چرچے رہے۔ ٹی وی مگر میں دیکھتا نہیں۔ سوشل میڈیا پر سرسری نگاہ ضرور ڈالتا ہوں۔ ہفتے کے روز اسے دیکھنے کی بھی طلب محسوس نہ ہوئی۔
ندیم افضل چن صاحب نے اپنے پنڈمدعو کررکھا تھا۔ ان کی جانب سے میری انتہائی عزیز اور دیرینہ دوست عائشہ تنظیم کے اعزاز میں الوداعی لنچ کا اہتمام تھا۔ پاکستان اور افغانستان میں کئی برس گزارنے کے بعد وہ اب وائس آف امریکہ کی وڈی افسر بن کر واشنگٹن لوٹ رہی ہے۔ چن صاحب کی مہربانی سے وہاں دیگر کئی ساتھیوں کے ساتھ طویل عرصے کے بعد پھکڑپن کا لطف بھی نصیب ہوگیا۔ باجرے کی روٹی اور ساگ نے مزید رونق لگادی۔ اس سمے سوشل میڈیا کے پھیلائے ہیجان اور چسکہ فروشی سے رجوع کرنا خود اذیتی والی حماقت ہوتی۔
یہ کالم لکھنے سے قبل گھر پر آئے اخبارات پر سرسری نگاہ ڈالی ہے۔"اندر کی خبر" رکھنے والے عندیہ دے رہے ہیں کہ ہفتے کے روز ہوئی ملاقات کی بدولت شاید قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوسکتی ہے۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ مذکورہ ارادے کی خبر کس حد تک درست ہے۔ اگر یہ درست ہے بھی تو وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں۔
اسد قیصر کئی مہینوں سے اپنے منصب سے وابستہ "غیر جانب داری"کے تقاضوں کو ڈھٹائی سے نظرانداز کرتے ہوئے عمران حکومت کو اپنی ترجیح کے قوانین سرعت سے منظور کروانے میں سہولت کاری کا کردار ادا کررہے ہیں۔ نہایت تجربہ کار سیاست دانوں کے ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم تعداد میں موجود اپوزیشن جما عتیں مگر کامل بے بسی سے ان کے ہاتھوں سو پیاز اور سو جوتے کھاتی چلی جارہی ہیں۔
گزشتہ برس کے جون میں وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب اپنا بجٹ پیش کرنے اور بعدازاں اس کا دفاع کرتے ہوئے نہایت رعونت سے دعویٰ کرتے رہے کہ رواں مالی سال کے دوران آئی ایم ایف کے تقاضوں کے مطابق اضافی ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے۔ بجلی کے نرخ بڑھانا بھی معیشت کی تیز رفتار بحالی اور استحکام کے عمل کو شدید زک لگائے گا۔ موصوف مگر اپنے دعویٰ پر چار ماہ بھی قائم نہ رہ پائے۔ بالآخر آئی ایم ایف کے حکم پر اپنے تیار کردہ بجٹ پر نظرثانی کو مجبور ہوئے۔ فیصلہ ہوا کہ منی بجٹ کے ذریعے میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والوں سے 377 ارب روپے کے اضافی ٹیکس وصول کیے جائیں گے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کامل خودمختاری بھی فراہم کردی جائے گی اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اور بتدریج اضافہ ہوتا رہے گا۔
مذکورہ اقدامات کے ارادے کا اظہار ہوا تو اپوزیشن جماعتوں نے بڑھیں لگانا شروع کردیں کہ وہ ہر صورت انہیں روکیں گے۔ ہمیں بہت اعتماد سے بتایا گیا کہ مہنگائی کی مسلسل بڑھتی لہر نے حکمران جماعت کے کئی اراکین اسمبلی کو بھی پریشان کردیاہے۔ وہ مہنگائی کی شدید تر لہر کو یقینی بنانے والے منی بجٹ کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے حلقوں میں منہ دکھانے کے ناقابل محسوس کررہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنی حمایت کے پیغام بھجوارہے ہیں۔
سیاست میں وقت کا تعین ہی اہم ترین ہوتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو اگر واقعتا حکمران جماعت میں مبینہ طورپر ابھرتی "بغاوت" کا یقین تھا تو بہتر یہی ہوتا کہ سپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے اس کی "حرارت" کو دنیا کے سامنے آشکار کردیا جاتا۔ خفیہ رائے شماری کی بدولت اسد قیصر اگر اپنے منصب سے محروم ہوجاتے تو عمران حکومت منی بجٹ کو قومی اسمبلی سے منظور کروانے سے قبل سو بارسوچتی۔ اپوزیشن مگر بروقت پیش قدمی نہ لے پائی۔ اس کی وجہ ڈھونڈتے ہوئے اس کالم میں بارہار اصرار کرتا رہا ہوں کہ 1988ء سے کئی بار حکومتوں میں رہی اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں بھی بنیادی طورپر حکمران اشرافیہ کا حصہ ہیں۔
انہیں آئی ایم ایف کے جاہ وجلال کا بخوبی اندازہ ہے۔ اسے للکارنے کی جرأت سے وہ قطعاََ محروم ہیں۔ میرے اور آپ جیسے سادہ لوحوں کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے محض بڑھکیں لگاتے رہے اور حکومت نے منی بجٹ بآسانی منظور کروالیا۔ سٹیٹ بینک کو خودمختاری فراہم کرنے والے قانون کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا۔ ان دو قوانین کی بآسانی منظوری کے بعد اپوزیشن کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کے ازالے کے لئے اب دوبارہ متحد ہونے اور اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا سوانگ رچارہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں نیک نیتی سے میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کا دل رکھنے کو یہ سوانگ رچارہی ہوتیں تو شاید مجھ ایسے مایوس اور کامل قنوطی بھی ان کا خیرمقدم کرنے کو مجبور ہوجاتے۔ اسلام آباد کے "باخبر" حلقے مگر دعویٰ کررہے ہیں کہ اگلے دو ہفتے بہت "اہم" ہیں۔ شاید ان کے دوران یا اس ماہ کے اختتام یا اگلے ماہ کے آغاز میں وزیر اعظم صاحب کسی "چونکا" دینے والے فیصلے کا اعلان کردیں گے۔ جس فیصلے کی بابت چہ مہ گوئیاں ہورہی ہیں کاش میں اسے تفصیل سے بیان کردینے کی جرأت کا حامل ہوتا۔ جان کی امان پاتے ہوئے فقط یہ عرض گزارنے پر اکتفا کروں گا کہ جس "اہم ترین فیصلے" کی توقع باندھی جارہی ہے وہ ہوبھی گیا تو میرے اور آپ جیسے محدرد آمدنی والے بدنصیبوں کو 377ارب روپے کے اضافی ٹیکس ہر صورت ادا کرنا ہوں گے۔ بجلی اور پیٹرول کے نرخ بھی بڑھتے رہیں گے۔
اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے اپوزیشن ایک بار پھر متحدہوجانے کا جو پیغام دے گی وہ درحقیقت عمران خان کو مذکورہ فیصلے کا اعلان کرنے یااسے روکنے کے کام آسکتا ہے۔ حکمران اشرافیہ کے مابین لگی ایک اور "بازی" جس کے لئے بچھائی بساط کا عام پاکستانیوں کی حقیقی مشکلات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ محض ایک بہت ہی پرانی فلم کی کہانی نئے اداکاروں کے ساتھ دہرانے کی کوشش ہے۔