عملی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوجانے کے باوجود محض سماجی تعلقات کی بدولت میں بخوبی جانتا ہوں کہ یوسف رضا گیلانی کو طویل گوشہ نشینی سے نکال کر اسلام آباد کے لئے مختص سینٹ کی ایک نشست سے منتخب کرواتے ہوئے سیاست میں دوبارہ متحرک کرنے کی ترکیب درحقیقت کس نے سوچی تھی۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت ابتداََ اسے بروئے کار لانے کو آمادہ نہیں تھی۔ انہیں خدشہ تھا کہ قومی اسمبلی میں حکومتی نشستوں پر بیٹھے چند اراکین "بغاوت" کا ڈرامہ رچاتے ہوئے بھی خفیہ رائے شماری کے دوران گیلانی صاحب کی حمایت سے گریز اختیار کرسکتے ہیں۔ گیلانی صاحب واقعتا سینٹ کا رکن منتخب ہوجانے کو بے چین ہیں تو انہیں بآسانی سندھ اسمبلی کی مدد سے وہاں بھیجا جاسکتا ہے۔
سابق وزیر اعظم کو قومی اسمبلی کے ووٹوں ہی سے سینٹ بھیجنے کی خواہش رکھنے والے ایک جواں سال سیاست دان تاہم اپنی سوچ پر ڈٹے رہے۔ بالآخر گیلانی صاحب کو اسلا م آباد ہی سے میدان میں اتارا گیا۔ وہ عمران حکومت کے نامزدہ کردہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو پچھاڑنے میں کامیاب رہے۔ تحریک انصاف کے کم از کم 8اراکین قومی اسمبلی نے آئندہ انتخاب میں مسلم لیگ (نون) کی ٹکٹ کے وعدے کی وجہ سے اپنی جماعت کے امیدوار کا ساتھ نہیں دیا۔ اپنے مشیر خزانہ کی شکست سے عمران خان صاحب پریشان ہوگئے۔ قومی اسمبلی سے ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ طلب کرتے ہوئے اپنی اکثریت ثابت کرنے کو مجبور ہوئے۔
ہمارے انتہائی پڑھے لکھے، خوش حال اور عام پاکستانیوں سے کہیں زیادہ "باخبر" ہونے کے دعوے دار افراد کی اکثریت مگر بضد رہتی ہے کہ وطن عزیز میں ان قوتوں کی رضا کے بغیر جنہیں "مقتدرہ" کہا جاتا ہے پتہ بھی نہیں ہلتا۔ وہ قوتیں مبینہ طورپر "مغرور" اور "خودمختاری کو بے چین"ہوئے عمران خان صاحب کو "جھٹکا" دینا چاہ رہی تھیں۔ اسی باعث "ان کے اشارے" پر گیلانی صاحب کو قومی اسمبلی سے سینٹ بھجوانے کی گیم لگانے کے بعد اسے کامیاب بنوایا گیا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ بھی نجی دوستوں کی محفلوں میں مذکورہ کہانی پر اعتبار کرتے سنائی دیتے ہیں۔
"مقتدرہ" کی حیران کن چالوں کو غلامانہ ذہن کے ساتھ سراہتے ہوئے مگر یہ حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ گیلانی صاحب کی جیت نے عمران حکومت کو فقط وقتی جھٹکا لگایا تھا۔ اس جھٹکے کو برداشت کرنے کے بعد عمران خان صاحب اپنی قوت کے بھرپور اظہار کو بے تاب ہوگئے۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلینے کے بعد وہ سینٹ پر کامل کنٹرول دکھانے کو بھی ڈٹ گئے۔ صادق سنجرانی کو ایوان بالا کے چیئرمین کے منصب پر برقرار رکھنے کے لئے ان کی حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔
چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے دن ایوان میں نصب خفیہ کیمروں کی نشاندہی ہوئی تھی۔ ان کیمروں کی بے نقابی کے باوجود انتخابی عمل جاری رہا۔ مذکورہ عمل کے دوران پیپلز پا رٹی کے چند اراکین سینٹ نے مشکوک انداز میں گیلانی صاحب کی "حمایت" میں ووٹ ڈالا۔ ان کے ووٹ مسترد ہوجانے کی وجہ ہی سے سنجرانی کامیاب قرار دئے گئے۔
گیلانی صاحب کو ہروانے کے باوجود مگر ان کی "دلجوئی" کافیصلہ بھی ہوا۔ مذکورہ فیصلے کو بروئے کار لانے کے لئے سینٹ میں حکومتی نشستوں پر براجمان چھ اراکین نے ایوان بالا کو تحریری طورپر مطلع کیا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا چاہ رہے ہیں۔ دلاور خان مذکورہ گروپ کے سرکردہ رہ نما تھے۔ اس گروپ نے یوسف رضا گیلانی کوقائد حزب اختلاف بھی تسلیم کرلیا۔ ان کی اعلان کردہ حمایت کے بعد گیلانی صاحب کو مسلم لیگ (نون) اور مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کے اراکین سینٹ کی حمایت درکار نہ رہی۔
وہ قائد حزب اختلاف کا منصب حاصل کرنے کے بعد مطمئن ہوگئے۔ تقریباََ ایک سال گزرجانے کے باوجود ایک دن کے لئے بھی اصرار نہیں کیا کہ سینٹ کی خصوصی طورپر تیار کردہ کمیٹی کے ذریعے اس امر کا سراغ لگایا جائے کہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے روز یہ جاننے کے لئے کہ کون سے سینیٹرنے چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے دوران کس امیدوار کو ووٹ دیا، ایوان میں خفیہ کیمرے نصب ہوئے تھے یا نہیں۔ اگر ہوئے تو اس کا ذمہ دار کون تھا۔
اپوزیشن بنچوں پر براجمان ہونے کے باوجو ددلاور خان اور ان کے ساتھی قانون سازی کے مشکل ترین لمحات کے دوران حکومت کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ چند ہفتے قبل انہوں نے حکومت کا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے ایک ہی دن میں 33قوانین منظور کروانے میں بھرپور ساتھ دیا۔ گزرے جمعہ کے دن بھی وہ سٹیٹ بینک کی خودمختاری والے قانون کو سرعت سے منظور کروانے میں مصروف رہے۔ قائد حزب اختلاف ہوتے ہوئے بھی گیلانی صاحب مگر اس اہم دن اسلام آباد ہی میں موجود نہیں تھے۔
گیلانی صاحب کی جمعہ کے دن سینٹ سے عدم موجودگی کا "کریڈٹ" بھی اب ان قوتوں کو دیا جارہا ہے جو قومی اسمبلی سے انہیں سینٹ کا رکن منتخب کروانے کا مبینہ طورپر کلیدی سبب تصور ہوتی ہیں۔ دعویٰ ہورہا ہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو باور کروایا گیا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری والا بل سینٹ نے منظور نہ کیا تو آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنر کا 2فروری کے روز جو اجلاس ہونا ہے وہ پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط ادا کرنے کو آمادہ نہیں ہوگا۔
آئی ایم ایف سے مطلوبہ رقم میسر نہ ہونے کا حتمی نقصان تاہم عمران حکومت کو نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو ہوگا۔ ہمیں اپنی ضرورت کا قرض عالمی منڈی کے کمرشل بینکوں سے لینے کے لئے بھاری بھر کم شرح سود ادا کرنا ہوگی۔ سابق وزیر اعظم ہوتے ہوئے گیلانی صاحب نے لہٰذا حب الوطنی والی "ذمہ داری" دکھائی ہے۔ ان کے رویے پر تنقید کے بجائے اسے سراہنا چاہیے۔
یوسف رضا گیلانی صاحب کے جس "ذمہ دار" رویے کی تحسین ہورہی ہے میرے پاس اس کی تصدیق یا تردید کے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ یہ بات مگر تواتر سے اس کالم میں دہراتا رہا ہوں کہ اپوزیشن میں بیٹھی ہماری دونوں بڑی جماعتیں آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھانے کی جرأت سے قطعاََ محروم ہیں۔ ان جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھیجے اراکین بنیادی طورپر ہماری خوش حال اشرافیہ ہی کے نمائندے ہیں۔ مہنگائی انہیں پریشان نہیں کرتی۔ یہ محدود آمدنی والے عام پاکستانیوں کی زندگی ہی اجیرن بناتی ہے۔
ان دنوں اپوزیشن میں بیٹھی دونوں بڑی جماعتیں 2008ء سے 2018ء تک حکومت میں باریاں لیتی رہی ہیں۔ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ریاست پاکستان کواپنی معیشت رواں رکھنے کے لئے آئی ایم ایف کی پشت پناہی ہمیشہ درکار رہتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی صاحب جب وزیر اعظم تھے تو ان کی حکومت کے لئے بھی شوکت ترین صاحب نے بطورمشیر خزانہ آئی ایم ایف سے "امدادی پروگرام" طے کیا تھا۔ ترین صاحب ویسی ہی خدمت اب عمران حکومت کو فراہم کررہے ہیں۔ وزیر اعظم اور حکومتیں ہمارے ہاں آتی جاتی رہتی ہیں۔
ریاست پاکستان تاہم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی معیشت کے نگہبان اور حتمی اداروں کے ساتھ 1950ء کی دہائی ہی سے وابستہ ہوچکی ہے۔ اس رشتے کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے اس میں تعطل کا سوچتے ہوئے بھی ہماری ہر نوع کی اشرافیہ پریشان ہوجاتی ہے۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کی تسلی کے لئے البتہ اپوزیشن میں بیٹھی جماعتیں عوام کی غم خواری کے محض ڈرامے رچاتی ہیں۔ ان کی بڑھکوں کے باوجود بالآخر منی بجٹ لیکن منظور ہوجاتا ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری یقینی بنانے والا قانون بھی۔