اردو یقینا بہت خوب صورت زبان ہے۔ میرے لئے اس کا احترام یوں بھی لازمی ہے کیونکہ میرے رزق کا انحصار اسی زبان میں اپنے خیالات کے اظہارکی صلاحیت پر ہے۔ دورِ حاضر میں مسلسل ابھرتے سیاسی رحجانات کا ذکر کرتے ہوئے البتہ اس زبان کی محدودات کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ کئی بار اُن کے بارے میں سوچتے ہوئے یہ شبہ بھی ہوتا ہے کہ شاید اردو ہیجان کی ان تمام کیفیتوں کو بیان کرنے کے قابل ہی نہیں جو اپنا مقدر سنوارنے کو بے چین عوام کے دلوں میں موجزن رہتی ہیں۔
اردو میں اظہار کے بیشتر اسلوب فارسی سے مستعار لئے گئے ہیں اور یہ زبان سلطانی اور بادشاہی کے طویل ادوار میں پروان چڑھی تھی۔ سلطانوں کے جبر سے سہمے شاعروادیب استعاروں ہی میں اپنا مدعا بیان کرتے رہے۔ انہیں وہ برجستگی شاذ ہی نصیب ہوئی جو رسوم وروایات سے باغی ہوئے بلھے شاہ جیسے صوفیا نے جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے حاصل کی تھی۔
اخبار کے لئے لکھے کالم میں زبان وبیان کی محدودات کی بابت علمی بحث چھیڑی نہیں جاسکتی۔ اسے نظرانداز کرتے ہوئے لہٰذا اعتراف کررہا ہوں کہ چند دنوں سے انگریزی زبان کی ایک ترکیب ذہن میں اٹکی ہوئی ہے۔ Message Controlوہ ترکیب ہے۔ یہ فقط دو لفظوں پر مشتمل ہے۔ یہ لفظ مگر حکمران اشرافیہ کی اس گرفت کو بھرپور انداز میں بیان کردیتے ہیں جو پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے کئی ممالک میں جمہوریت کے نام پر نمودار ہوئے سلطانوں نے اپنی رعایا کو فروعات میں الجھانے کے لئے حاصل کررکھی ہے۔ عمران حکومت کے مستقل ناقدین کو یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگی کہ مذکورہ گرفت اس حکومت نے بھی کمال مہارت سے حاصل کرلی ہے۔ ہمارا ریگولر ہی نہیں سوشل میڈیا بھی فقط ان ہی موضوعات پر جنونی بحث میں مصروف رہتا ہے جو یہ حکومت ہمارے روبرو اچھالتی ہے۔ آئندہ انتخاب کے دوران الیکٹرانک مشینوں کا استعمال بھی مثال کے طورپر ایسا ہی موضوع ہے۔
کئی بار اس کالم میں آپ کو اکتا دینے کی حد تک دہراتا رہتا ہوں کہ پاکستان کا حقیقی مسئلہ ان دنوں معیشت ہے۔ سوال فقط مہنگائی اور بے روزگاری تک ہی محدود نہیں رہے۔ بنیادی سوال اب یہ بھی نمودار ہورہا ہے کہ ہماری ریاست غیر ملکی قرضوں کے انبار تلے دب کر اپنی خودمختاری برقرار رکھ پائے گی یا نہیں۔ اس سوال کی بابت مگر ریگولر وسوشل میڈیا پر چھائے ذہن ساز سنجیدگی سے غور ہی نہیں کررہے۔ حالانکہ اوپرتلے ایسے واقعات ہوئے چلے جارہے ہیں جنہیں ہمیں چونکا نہیں بلکہ فکرمند بنادینا چاہیے تھا۔
مذکورہ واقعات فقط آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے رشتے تک ہی محدود نہیں رہے۔ اس سے بھی اہم ترین وہ معاہدہ ہے جو حال ہی میں سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کی رقم ہمارے قومی خزانے میں رکھوانے کی خاطر ہوا۔ اس کے علاوہ برادر ملک سے ادھار تیل خریدنے کا معاملہ بھی ہے۔
سعودی عرب سے ہمارے تعلقات بہت دیرینہ ہیں۔ ان میں اتار چڑھائو ہوتا رہا ہے۔ بنیادی رحجان مگر عموماََ برادرانہ ہی رہا۔ 1998میں جب نواز شریف کی دوسری حکومت بھارتی پیش قدمی کے جواب میں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت آشکار کرنے کو مجبور ہوئی تو کلنٹن انتظامیہ کے ایما پر عالمی معیشت کے اجارہ دار ممالک اورا داروں نے ہمیں اقتصادی پابندیوں سے سبق سکھانا شروع کردیا۔ سعودی عرب نے مشکل کی اس گھڑی میں ہمیں قابل قدر سہارا فراہم کیا۔ ہماری ضرورت کا تیل ادھار فراہم کرنے کا بندوبست بھی ہوا۔ نواز حکومت اور سعودی عرب کے مابین جو بندوبست ہوا اس کی تفصیلات مگر کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔ ہمارا بھرم برقرار رہا۔ نواز شریف تیسری بار ہمارے وزیرا عظم ہوئے تو ان کے حلف اٹھاتے ہی سعودی حکومت نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم تقریباََ تحفہ کی صورت پیش کردی تھی۔
عمران حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی قومی خزانہ خالی ہوجانے کی دہائی مچائی تو سعودی عرب ایک بار پھر ہمیں معاشی سہارا فراہم کرتا نظر آیا۔ چین بھی اس ضمن میں متحرک ہوا۔ ہمیں بالآخر مگر آئی ایم ایف ہی سے رجوع کرنا پڑا۔ اس نے ستمبر2020تک ہمیں 6ارب ڈالر مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔ مختلف اقساط پر مشتمل اس رقم کے حصول کے لئے تاہم چند شرائط پر عملدرآمد بھی لازمی تھا۔ وہ شرائط بروئے کار آئیں تو ہمارے ہاں مہنگائی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے فارغ کردیا گیا۔ ان کی جگہ شوکت ترین تشریف لائے۔ آج سے چھ ماہ قبل قومی اسمبلی میں اپنا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے انہوں نے بڑھک لگائی کہ ہماری معیشت بحال ہوکر تیزی سے نمو کی جانب گامزن ہے۔ ترقی کی اس رفتار کو برقرار رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ آئی ایم ایف کی عائد کردہ چند شرائط پرازسرنو غور کیا جائے۔ ہم سب نے شوکت ترین کے دعوے کا اعتبار کیا۔ آئی ایم ایف نے جوابی بیانات دئیے بغیر ہمیں 6ارب ڈالر والے معاہدے کی اقساط روک دیں۔ حکومت مگر گھبرائی نہیں۔ سعودی عرب سے دوبارہ رجوع کرلیا۔
برادر ملک کا رویہ مگر اس بار ماضی جیسا فراخدلانہ نہیں تھا۔ ہمارے خزانے میں 3ارب ڈالر رکھوانے کے لئے ایک معاہدہ تیار ہوا۔ مذکورہ معاہدے کی وفاقی کابینہ سے منظوری بھی لازمی ٹھہرائی گئی۔ اس معاہدے کی تفصیلات وزراء کو بتائی گئیں تو شہباز رانا جیسے متحرک رپورٹر نے انہیں عام پاکستانیوں کے لئے عیاں کردیا۔ مذکورہ معاہدے کی تفصیلات اس کے بعد مسلسل رونما ہورہی ہیں۔ ان کی تردید سرکار کی جانب سے ہرگز نہیں ہوئی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میرے اور آپ جیسے عامیوں کے لئے ناقابل فہم اصطلاحات کے استعمال سے جناتی انگریزی میں معاشی مسائل پر لکھنے اور بولنے والے سعودی عرب سے ہوئے معاہدے کی تفصیلات سادہ ترین الفاظ میں بیان کرتے۔ ان کی رہ نمائی ٹی وی سکرینوں پر کھڑکی توڑ رش لینے والے اینکر خواتین وحضرات کو بھی اس امر پر اکساتی کہ وہ مذکورہ معاہدہ کے سنگین مضمرات کو اپنے روایتی جاہ وجلال کے ساتھ بیان کریں۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔
ہکا بکا ہجوم کی طرح ہم صحافی باہم مل کر یہ طے کرنا شروع ہوگئے کہ ثاقب نثار سے منسوب آڈیو اصلی ہے یا نہیں۔ گلگت بلتستان سے ریٹائر ہوئے جج رانا شمیم کے حلف پر دئیے بیان کی کیا حیثیت ہے۔ وسیع تر تناظر میں یہ سوال اپنی جگہ واجب ہیں۔ کمال مگر یہ ہوا کہ انہیں بھی بھلاکر ہم لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لئے ہونے والے ضمنی انتخاب سے متعلق جھوٹی یا سچی وڈیوز کے ذکر میں مصروف ہوگئے۔ عمران حکومت کے لئے مذکورہ موضوع پر ہوئی بحث بہت کارآمد تھی۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اس کی بدولت ایک د وسرے پر کیچڑ اچھالتی رہیں اور اب ریگولر وسوشل میڈیا پر جاری بحث انتخابی عمل کے دوران الیکٹرانک مشینوں کے استعمال پر مرکوز کردی گئی ہے۔
آئندہ عام انتخاب اصولی طورپر آج سے دو سال بعد شاید 2023کے وسط میں ہوں گے۔ سعودی عرب نے مگر ہمارے خزانے میں جو رقم رکھی ہے اگلے برس کے اختتام تک اس کے عوض ہمیں 120ملین ڈالر سود کی صورت ادا کرنا ہوں گے۔ ریاستِ پاکستان کے لئے شاید یہ قابل برداشت رقم ہے۔ اہم ترین بات مگر یہ ہے کہ برادر ملک نے اپنے فراہم کردہ سرمایے کے لئے چارفی صد شرح منافع طے کیا ہے۔ ایک دوسرے کے دوست یا برادر تصور ہوتے ممالک ایسی رقوم کے عوض عموماََ دو یا تین فی صد سے زیادہ کی توقع نہیں رکھتے۔ شرح سود میں حیران کن اضافہ بھی شاید اپنے تئیں ہماری پریشانی کا سبب نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سنگین ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ مذکورہ معاہدہ میں تواتر سے Defaultکا لفظ بھی لکھا گیا ہے۔ اس لفظ کا ترجمہ اگر دیوالیہ نہ بھی کریں تو یہ اس امکان کو ہر صورت ظاہر کرتا ہے کہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب ریاستِ پاکستان خودکو میسر قرضوں پر سود کی ادائیگی کے قابل بھی نہیں رہے گی۔ برادر ملک کے ساتھ ہوئے معاہدے کی بدولت ایساپیغام عالمی منڈی تک پہنچاتے ہوئے ہم وہاں پر چھائے مہاجنوں اور ساہوکاروں سے خیر کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔