کئی بار اس کالم میں یہ عرض کرنے کی جسارت کی ہے کہ عمران حکومت نامی شے کسی ایک فرد یا ان کی بنائی جماعت ہی سے وابستہ نہیں۔ بہت سوچ بچار کے بعد تیار ہوا ریاستی اور حکومتی بندوبست ہے۔ ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی اشتراک سے بنائے اس بندوبست کو برقرار رکھنے والی قوتیں اسے ناکام بنانے کے خواہاں افراد سے کہیں زیادہ طاقت ور ہیں۔ اسی تنخواہ پر گزارہ کرنے کو مجبور۔ جی کے بہلانے کو اگرچہ ہمیں روایتی اور سوشل میڈیا میں صبح گیا یا شام گیا والا ماحول بنتا نظر آتاہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔
ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی اشتراک سے تیار ہوئے بندوبست کی بقاء کے اسباب کا تھوڑا ادراک رکھتے ہوئے عرصہ ہوا میں نے پی ڈی ایم کے نام سے قائم ہوئے اپوزیشن جما عتوں کے اتحاد کا ذکر بھی اس کالم میں ترک کررکھا ہے۔ مذکورہ اتحاد گزشتہ برس کے ستمبر میں پیپلز پارٹی کی دعوت پر تشکیل دیا گیا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ عوامی تحریک کے ذریعے عمران حکومت کو گھرجانے پر مجبور کردیا جائے گا۔ اس ضمن میں لوگوں کو متحرک کرنے کیلئے گوجرانوالہ میں جلسہ ہوا تولندن میں مقیم نواز شریف نے ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے عام پاکستانیوں سے زیادہ اس جلسے میں موجود سیاسی قائدین کو پہلے چونکا یا اور بعدازاں پریشان کردیا۔
مذکورہ تقریر کے ذریعے موصوف نے جو بیانیہ مرتب کیا اس کا بوجھ اٹھانے کو ان کے سگے بھائی شہباز شریف سمیت نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے کئی سرکردہ رہ نما بھی آمادہ نہ ہوئے۔ کئی نسلوں سے سرکار کی جی حضوری اور نام نہادآبائی حلقوں سے انتخاب ہارنے اور جیتنے کے عادی ڈیرے دار اور دھڑوں والوں نے مذکورہ بیانیے کو خودکش حملہ تصور کیا۔ اپنے قائد کے روبرو مذکورہ سوچ کو بیان کرنے کی جرأت مگر دکھا نہیں پائے۔
ووٹ بینک کے خوف نے انہیں خاموشی برقرار رکھنے کو مجبوررکھا۔ چند ضمنی انتخابات کی گہماگہمی نے ان کی خاموشی کا جواز بھی فراہم کردیا۔ بعدازاں مگر آزادکشمیر میں عام انتخاب ہوئے۔ ان کے نتائج ویسے ہی برآمد ہوئے جو ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی اشتراک سے تیار ہوئے بندوبست نے سوچ رکھے تھے۔ ان نتائج نے ڈیروں اور دھڑوں والے مسلم لیگی الیکٹ ایبلز کے دلوں میں موجود سوچ کو تقویت پہنچائی۔ نیویں نیویں رہتے ہوئے اچھے وقت کا انتظار لازمی ہوگیا۔
پیپلز پارٹی شروع دن سے ایسے کسی مخمصے کا شکار نہیں تھی۔ 1985ء کے بعد سے اس نے فیصلہ کررکھا ہے کہ سیاسی میدان مخالفین کے لئے کسی صورت کھلا نہیں رکھنا۔ نام نہاد سسٹم کا حصہ رہتے ہوئے ہی سیاسی گیم میں زندہ رہنا ہے۔ صوبہ سندھ میں وہ 2008ء سے مسلسل برسراقتدار ہے۔ اسے قوی امید ہے کہ آئندہ انتخاب بھی اسے کم از کم اس صوبے کی حکمران جماعت کی حیثیت میں برقرار رکھیں گے۔ بقیہ ملک میں اپنی قوت بحال کرنے کے لئے اسے وقت درکار ہے۔ سسٹم کو وہ لہٰذا کسی ایڈونچر کے ذریعے زمین بوس کرنا نہیں چاہتی۔ گزشتہ برس کے دسمبر میں مسلم لیگ (نون) کا قلعہ تصور ہوتے لاہور میں پی ڈی ایم کا جو جلسہ ہوا تھا وہ پیپلز پارٹی کی توقعات کے مطابق پرجوش نہیں تھا۔ اسے پیغام بلکہ یہ ملا کہ مسلم لیگ نامی جماعت کے تلوں میں تیل موجود نہیں۔ پی ڈی ایم نے اگرچہ اسے "غدار" تصور کیا اور اپنی صفوں سے باہر نکال دیا۔
پیپلز پارٹی کو اپنی صفوں سے باہر نکالنے کے باوجود پی ڈی ایم مگر ابھی تک یہ طے نہیں کر پائی ہے کہ ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی اشتراک سے بنائے ریاستی اور حکومتی بندوبست سے چھٹکارا کیسے حاصل کرے۔ امید فقط یہ باندھی جاتی ہے کہ شاید کسی روز اس بندوبست کے شراکت داروں کے درمیان شدید بدگمانیوں کے بعد گہرے اختلافات نمودار ہوجائیں گے۔ امید مگر سیاسی عمل کی کسی صورت کلید نہیں ہوتی۔ سیاست دان بلکہ ناامیدی کے تاریک دنوں میں بھی صورت حال کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی راہ ڈھونڈنے میں جتے رہتے ہیں اور ہمارے ہاں سیاست دان نامی لوگ باقی نہیں رہے اور یہ وطن عزیز کا حقیقی المیہ بھی ہے۔
بہرحال پی ڈی ایم نے اب اگلے برس موسم بہار کے آغاز کے ساتھ اسلام آباد میں مہنگائی کے خلاف 23مارچ کے دن لانگ مارچ کی صورت پہنچنے کا اعلان کیا ہے۔ اس دن تک پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اراکین پارلیمان قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں اپنی حاضریاں لگاتے رہیں گے۔ رواں سال کے خاتمے سے قبل عمران حکومت کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے حصول کے لئے ساڑھے تین ارب روپے کے اضافی ٹیکس بھی لگانا ہیں۔ منی بجٹ نامی شے کے ذریعے ان اضافی ٹیکسوں کو قانونی بنایا جائے گا۔ ان کی منظوری روکنے کے لئے اپوزیشن بنچوں سے دھواں دھار تقاریر ہوں گی۔ بالآخر منی بجٹ تاہم بآسانی پاس ہوجائے گا۔
حال ہی میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے عمران حکومت نے ایک ہی دن میں 33قوانین تاریخی عجلت میں منظور کروالئے ہیں۔ مذکورہ اجلاس سے قبل اگرچہ افواہوں کے سیلاب سے ہمیں یہ باور کروایاگیا تھا کہ ایک اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے ضمن میں ہوئی تاخیر نے ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی اشتراک سے بنائے بندوبست میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ حکمران جماعت کے چند اتحادی نخرے دکھاتے ہوئے مذکورہ گماں کو تقویت پہنچاتے رہے۔ بالآخر مگر فون کھڑکے اور حکمران اتحاد میں شامل ہر جماعت کے اراکین پارلیمان33قوانین پر یکمشت انگوٹھا لگانے سرجھکائے ایوان میں داخل ہوگئے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے اگر چند افراد دانستہ غیر حاضر رہتے تو ان کے خلاف فلورکراسنگ والی شقوں کا اطلاق بہت مشکل ہوتا۔ وہ اس کی وجہ سے پارلیمان کی رکنیت سے محروم نہ ہوتے۔
ضمنی بجٹ مگر پارلیمانی زبان میں مالیاتی بل پکارا جاتا ہے۔ اس کی منظوری کے عمل سے حکمران جماعت کے کسی رکن کی دانستہ غیر حاضری فی الفور فلورکراسنگ تصور ہوگی۔ جس بندوبست کا میں ذکر کررہا ہوں اس کے طاقت ور ترین شراکت دار بھی ہرگز نہیں چاہیں گے کہ شوکت ترین کا تیار کردہ منی بجٹ قومی اسمبلی سے نامنظور ہوجائے۔ عالمی معیشت کے نگہبان اداروں کو ایسی نامنظوری پاکستان کی معاشی ساکھ کے حوالے سے منفی پیغام دے گی۔ فون لہٰذا کھڑکیں گے اور منی بجٹ منظور ہوجائے گا۔
منی بجٹ کی یقینی نظر آتی منظوری کے بعد ہمارے ہاں مہنگائی کی نئی اور شدید ترلہر یقینا حملہ آور ہوگی۔ یہ لہرمگر ڈیرے اور دھڑوں والی سیاسی اشرافیہ کو پریشان نہیں کرتی خواہ اس کا تعلق اپوزیشن سے ہو یا حکومت سے۔ مہنگائی کی شدت میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والے تنخواہ داروں اور دیہاڑی داروں ہی کو حواس باختہ بناتی ہے اور ہمارے دُکھوں کے ازالے کے لئے "اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا" والی ناامیدی چھائی ہوئی ہے۔