پیر اور منگل کی درمیانی رات ریاست اور حکومتِ پاکستان کے دو حتمی فیصلہ سازوں کے مابین ایک اہم ملاقات ہوئی۔ رپورٹروں کی جانب سے بتائی اس ملاقات کی وزراء نے تصدیق کردی۔ مذکورہ ملاقات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ منگل کی صبح دفتری اوقات شروع ہوتے ہی ایک سمری تیار ہوتی۔ یہ سمری فوری طورپر وزیر اعظم کے دفتر بھجوائی جاتی۔ وزیر اعظم اس میں لکھے ایک نام کی منظوری دے دیتے۔ دوپہر تک پاکستان ہی نہیں پورے عالم کو خبر ہوجاتی کہ کن صاحب کو ہماری ریاست کے ایک اہم ترین اور بہت ہی حساس تصور ہوتے عہدے پر تعینات کردیا گیاہے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ دریں اثناء وفاقی کابینہ کا ایک اجلاس بھی منعقد ہوکر ختم ہوگیا۔ وہاں ہوئے فیصلوں کی بریفنگ دینے کے لئے فواد چودھری صاحب نے صحافیوں سے گفتگو کی۔ اس گفتگو میں متوقع تعیناتی نہیں بلکہ اس تعیناتی کے لئے انتخاب کے طریقہ کار کا ذکر ہوا۔ وزیر اطلاعات نے یاد دلایا کہ جس تعیناتی کا ذکر ہورہا ہے اس کے لئے مناسب شخص کا انتخاب فقط وزیر اعظم صاحب کا اختیار ہے اور مذکورہ تعیناتی "قانونی" انداز میں ہوگی۔ فواد چودھری صاحب اپنی سوچ کے اظہار کے لئے ہمیشہ وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں جو منطقی اعتبار سے مناسب محسوس ہوں۔ سنا ہے کہ الفاظ کا ایسا انتخاب آج سے کئی صدی پہلے بہت مشہور ہوئے فرانسیسی ناول نگار ایمل ژولا کی حیران کن خصوصیت شمار ہوتی تھی۔ جدید دور کے البرٹ کامیو نے اس سے یہ ہنرسیکھا۔ انگریزی زبان کے ارنسٹ ہیمگنوے بھی ژولا کے پیروکار تصور ہوتے ہیں۔
ہمارے وزیر اطلاعات نثر نگار نہیں۔ گفتار کے البتہ دھنی ہیں۔"وہ کہے اور سنا کر ے کوئی" والا ماحول بنادیتے ہیں۔ بہت کامیاب وکیل بھی ہیں۔ ان کی جانب سے "قانونی"کے استعمال نے مگر تاثر یہ دیا کہ گویا اب تک جس انداز میں ایک تعیناتی کے لئے نام آیا ہے وہ غیر قانونی ہے۔ جان کی امان پاتے ہوئے ان کی خدمت میں عرض کروں گا کہ اگر وہ "قواعد وضوابط کے مطابق" والے الفاظ استعمال کرلیتے تو شاید زیادہ بہتر انداز میں اپنا پیغام پہنچادیتے۔ تیر مگر کمان سے نکل گیا۔ ربّ کریم کا اگرچہ سوبار شکر کہ اس کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ تعلق ان کا ویسے بھی تحریک انصاف سے ہے اور یہ جماعت ایک لطیفہ والا بڑا جانور ہے۔ اس کی مرضی ہے انڈہ دے یا بچہ۔
وڈے لوگوں کے مابین پیدا ہوئی غلط فہمیوں یا الجھنوں کے بارے میں اپنی رائے دینے کی میری ہرگزاوقات نہیں۔ میں نے صحافت کے جس طرز میں اپنی زندگی گزاردی ہے ٹی وی صحافت اور سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد اب فرسودہ تصور ہوتی ہے۔ خبر اب وہی تصورہوتی ہے جو ٹی وی کیمروں کے روبرو لشکارے مارتے خواتین وحضرات سنائیں۔ وہ لوگ ہمارے ذہن ساز بھی ہیں۔ جو معاملہ 6اکتوبر2021سے ابھرنا شروع ہوا تھا اس کے بارے میں اپنی رائے دینے سے البتہ ابتدا میں گھبراتے رہے۔ بالآخر رئوف کلاسرا نے اپنے وی لاگ میں فواد چودھری صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے برملا بتادیا کہ تعیناتی کے معاملے میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ان کا حل مگر ڈھونڈ لیا جائے گا۔ وزیر اطلاعات نے تصدیق فرمادی تو محتاط الفاظ کے استعمال سے ہاتھی کے پائوں میں پھر بہت سے اور پائوں بھی نظر آنے لگے۔ یہ بات ثابت ہوگئی کہ پاکستان کا میڈیا اب مثالی انداز میں ذمہ دار ہوگیا ہے۔
فرض کیا جو معاملہ 6اکتوبر2021سے پکنا شروع ہوا اگر آصف علی زرداری یا نواز شریف کی حکومتوں کے دوران نمودار ہوا ہوتا تو دن کے کئی گھنٹے بینڈ باجہ بارات کے ساتھ ٹی وی سکرینوں پر خصوصی نشریات کے ذریعے زیر بحث ہوتا۔ ٹی وی سکرینوں پر لشکارے مارتے تبصرہ نگار ہمیں حقارت ورعونت سے بتارہے ہوتے کہ مال کھانے کی ہوس میں مبتلا سیاست دان نااہل بھی ہیں۔ انہیں ادراک ہی نہیں کہ ریاستی ادارے کتنے حساس ہوتے ہیں۔ ان کے اہم عہدوں پر تعیناتی کے لئے طے شدہ طریقہ کار کیا ہیں۔ نام نہاد "اپنے بندے" لگانے کے جنون میں ریاستی معاملات کو بچوں کا کھیل بنادیتے ہیں۔
سیاست دانوں کا روپ دھارے مبینہ طورپر "چور اور لٹیرے" ٹی وی سکرینوں پر لشکارے مارتے ذہن سازوں کی محنت شاقہ کی بدولت بالآخر اقتدار سے فارغ ہوکر نیب کی جیلوں میں چلے گئے۔ ان دنوں ضمانتوں پر رہائی کے بعد عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کسی بھی عوامی عہدے کے لئے سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پائے نواز شریف مبینہ طورپر بیماری کا بہانہ لگاکر لندن فرار ہوگئے۔ کئی مہینوں سے اب وہیں مقیم ہیں۔ وطن لوٹ کر جیل جانے کو آمادہ نہیں۔ ہمارے ذمہ دار میڈیا کی سکرینوں پر مجرموں کی تشہیر ہرگز نہیں ہوتی۔ نواز شریف صاحب جو بھی کہیں لہٰذا وہاں نظر نہیں آتا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جب جی چاہے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔
نیب کے خوف سے آنے والی تھاں پر آئے سیاست دنوں نے ویسے بھی حال ہی میں ایک اہم ادارے کی جانب سے اعلان ہوئی تعیناتی کے معاملے پرفدویانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ اپنی محدودات سے کامل آگاہ یہ سیاستدان بخوبی جانتے ہیں کہ پنجابی محاورے والا گھسن ربّ سے زیادہ نزدیک ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب مگر وزیر اعظم کے منصب کی توقیر پر پہرہ دیتے ہوئے تاریخ بنارہے ہیں۔ تاریخ اگرچہ بڑی ظالم شے ہے۔ کسی نہ کسی دیدہ ور کو اسے تاہم بنانا بھی ہوتا ہے۔ 2014میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر 126دنوں کا دھرنا دیتے ہوئے ایمپائر کی انگلی کھڑے ہونے کا انتظار بھی "تاریخ" ہی تھا۔ اب تاریخ قواعد وضوابط کے اطلاق سے بنائی جائے گی۔ جو چا ہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔