وقتِ عصر کی مخصوص دہشت ہوتی ہے۔ ربّ کریم نے بھی اس کا حوالہ دیتے ہوئے انسان کو متنبہ کررکھ ہے کہ بے شک وہ خسارے میں ہے۔ خسارے کا شدید احساس مجھے ضیاء صاحب کی تدفین کے وقت پیر کے وقتِ عصر بھی ہوا۔ منیرؔ نیازی کی "شام شہرہول" تو یاد آئی۔ ساتھ ہی مگر وہ مصرعہ بھی جو "عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا" کا رونا روتا ہے۔ گھر لوٹتے ہوئے میں "اس" کی نشان دہی میں مصروف رہا جس نے ہمارے شعبے یعنی صحافت کو اچک رکھا ہے۔ ہم صحافی اگرچہ اب بھی اس گماں میں مسلسل مبتلا ہیں کہ لوگوں کو غوروفکر پر اُکسانے کے موضوعات فقط ہم طے کرتے ہیں۔
ضیاء صاحب کی تدفیق سے قبل میں نے پیر کے روز چھپے تمام اہم اخبارات کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ تقریباََ تمام اخبارات کی چیختی دھاڑتی سرخیاں اس جنگ کی "خبر" دے رہی تھیں جو مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے مابین لاہورسے قومی اسمبلی کے ایک حلقے کی نشست پر ضمنی انتخاب کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی ویڈیوز کی وجہ سے چھڑچکی ہے۔ مذکورہ "خبر" اپنی جگہ یقینا اہم ہے۔ صحافت کے جن بنیادی اصولوں سے کم از کم میں واقف ہوں اس کے مطابق شہ سرخیوں کے ساتھ لیڈ سٹوری بن جانے کی مگر ہرگز مستحق نہیں۔
میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کے لئے اہم ترین خبر یہ تھی کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی رکی رقم کے حصول کے لئے حکومت پاکستان کو اس برس کے اختتام سے قبل ساڑھے تین سو ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانا ہوں گے۔ بجٹ منظور ہوجانے کے بعد اضافی ٹیکس لاگو کرنے کے لئے قومی اسمبلی سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ منظوری کے اس عمل کو "ضمنی بجٹ" پکارا جاتا ہے۔ گزرے ہفتے کے آخری دن مگر ہمارے مشیر خزانہ جناب شوکت ترین صاحب نے کراچی میں سیٹھوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نہایت رعونت سے اعلان کیا تھا کہ "ضمنی بجٹ" نامی شے پیش نہیں ہوگی۔ چند صحافی جو غالباََ حکومت کی نظر میں وطن دشمن قوتوں کے آلہ کار ہیں۔ ملک میں مایوسی وانتشار پھیلانے کیلئے ایسی خبریں پھیلارہے ہیں۔
شوکت ترین صاحب نے ضمنی بجٹ متعارف نہ کروانے کی بڑھک اس حقیقت کے باوجود لگائی ہے کہ حال ہی میں سرکاری طورپر اعلان ہوا کہ آئی ایم ایف سے ایک اور معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے پر عملدرآمد کے لئے تاہم حکومت کو چند پیشگی اقدامات لینا ہوں گے۔ انگریزی زبان میں مطلوبہ اقدامات کو "Prior Actions"لکھا گیا۔ ان اقدامات میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ حکومتِ پاکستان کو کرونا کی وجہ سے درپیش مشکلات سے نبردآزما ہونے کے لئے عالمی معیشت کے نگہبان اداروں نے آسان شرائط پر خیرات دکھنے والی جو رقوم فراہم کی تھیں ان کے خرچ کی تفصیلات منظر عام پر لائی جائیں۔
حکومتِ پاکستان ہی کے ایک اور ادارے نے مذکورہ خرچ کا آڈٹ کررکھا تھا۔ اس آڈٹ نے 40ارب روپے کی خطیر رقم کے خرچ پر سوالات اٹھائے تھے۔ ہر معاملے میں شفافیت برتنے کی دعوے دار حکومت مگر اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کو آمادہ نہیں تھی۔ پارلیمان میں بیٹھے ہمارے نام نہاد نمائندے بھی اسے مجبور نہ کر پائے۔ بالآخر آئی ایم ایف نے سوٹی اٹھائی۔ واشگاف لفظوں میں تقاضہ کیا کہ اگر ایک ارب ڈالر درکار ہیں تو مذکورہ رپورٹ کو عوام کی آگاہی کے لئے عیاں کرو۔ Absolutely Notکہنے والی حکومت نے نوکر کی تے نخرہ کی والا رویہ اختیار کرتے ہوئے مذکورہ رپورٹ بالآخر عیاں کردی۔
کرونا سے متعلق رقوم کے آڈٹ پر مبنی رپورٹ جس انداز میں بالآخر منظر عام پر آئی اس نے ہماری "خودمختاری" کی حقیقت بھی بے نقاب کردی۔ اس کے باوجود اگر ہمارے ذہن سازوں کی پنجابی محاورے والی اب بھی "تسلی" نہیں ہوئی تو خدارا اس معاہدے کی تفصیلات پر بھی غور کرلیں جس کی بدولت ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے پاکستان کے قومی خزانے میں 3ارب ڈالر کی رقم رکھوائی ہے۔ یہ رقم "ساٹھ لاکھ"نامی فلم میں بتائی اس رقم کی طرح ہے جسے ہم گن تو سکتے ہیں مگر خرچ نہیں کرسکتے۔ ہم مگر اسے اپنے ہاں رکھنے کا معاوضہ بھی چار فی صد سود کی صورت ادا کریں گے۔"سود" کا لفظ اگرچہ اخبارات میں استعمال نہیں ہوا۔"منافع" کے استعمال سے اسے پاکیزہ دکھانے کی کاوش ہوئی ہے۔ برادر ملک سے ادھار تیل بھی ملنا ہے۔ اس ادھارکی اضافی قیمت بھی تاہم بالآخر ادا کرنا ہوگی۔
کرونا سے متعلق رقوم کے آڈٹ پر مبنی رپورٹ اور سعودی عرب سے ہوا معاہدہ ہمارے معیشت کے کھوکھلاپن کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہونا چاہیے تھا۔ شوکت ترین صاحب سیٹھوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے لیکن مصر رہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ افراطِ زر ہے۔ ہمارے عوام مگر اس سے پریشان نظر نہیں آرہے۔ بقول شوکت ترین مہنگے ریستورانوں میں بیٹھنے کی جگہ دستیاب نہیں۔ لوگ نئی گاڑیاں خریدنے کو اس قدر بے چین ہیں کہ انتظار کرنے کے بجائے شوروم پر جاگر منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہیں اور نویں نکور گاڑی میں چابی گھماکر گھر لوٹ آتے ہیں۔ دیہاتوں میں مختلف اجناس کی ریکارڈ بناتی پیداوار کے ذریعے اتنی خوش حالی پھیلی کہ وہاں مقیم پاکستانی بڑے چائو سے نئی موٹرسائیکلیں خرید رہے ہیں۔
شوکت ترین صاحب اور ان کی حکومت کو جو خوش حالی نظر آرہی ہے شاید اس کے نشے میں مسحورہوکر تحریک انصاف نے لاہورسے پرویز ملک صاحب کی رحلت کے بعد خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست کے لئے ضمنی انتخاب لڑنے میں خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ میدان کو کمال فیاضی سے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے لئے کھلاچھوڑ دیا۔ اب یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کا منہ کالا کرنے کے لئے ووٹ خریدنے والی ویڈیوز پھیلارہی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے مذکورہ ویڈیوز کا نوٹس لے لیا ہے۔ میں یہ طے کرنے میں لہٰذا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا کہ مارکیٹ میں پھیلی ویڈیوز کی حقیقت کیا ہے۔
دونوں جانب سے پھیلائی ویڈیوز بنیادی پیغام مگر یہ دے رہی ہیں کہ پاکستان کے جاہل عوام ایک سے دو ہزار روپے لے کر کلام پاک پر حلف اٹھاتے ہوئے اپنا ووٹ بیچنے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔ وہ سیاسی سوچ سے قطعاََ محروم ہیں۔ جمہوری نظام کے ازلی دشمنوں کا بنیادی بیانیہ بھی "قیمے والے نان" کا ورد کرتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی میں بیٹھے افراد کو سنجیدگی سے نہ لو۔ یہ ووٹرں کو قیمے والے نان کھلاکر منتخب اداروں میں گھس آتے ہیں۔ مسلم لیگ (نون)مگر حالیہ کئی برسوں سے اصرار کررہی ہے کہ "ووٹ کو عزت دو"۔ پیپلز پارٹی نے نومبر1967ء میں اپنے قیام کے وقت "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں " کو اپنا بنیادی پیغام بنایا تھا۔ یہ دونوں جماعتیں مگر اب اندھی نفرت وعقیدت کے جنون میں مبتلا ہوئی ایک دوسرے پر مبینہ طورپر کیمرے پر ریکارڈ ہوئی ویڈیوز کے ذریعے ووٹ خریدنے کے الزامات لگارہی ہیں۔ موجودہ حکومت کی اس سے بڑی "سہولت کاری" کیا ہوسکتی ہے۔
ان سوالات پر ریگولر اور سوشل میڈیا پر حاوی ذہن ساز مگر توجہ ہی نہیں دیں گے۔ چسکہ فروشی سے ٹی وی سکرینوں کے لئے ریٹنگز اور سوشل میڈیا پر لائیکس اور شیئرز حاصل کرنے کی تگ ودو میں مصروف رہیں گے۔ واضح طورپر "شہداپن" دِکھتے اس عالم میں صحافت نام کی شے کو زندہ رکھنا ناممکن ہوچکا ہے۔ ضیاء صاحب عرصہ ہوا اس لئے گوشہ نشین ہوچکے تھے۔ اب اس دنیا سے بھی رخصت ہوگئے۔ مجھ جیسے افراد جو باقی رہ گئے ہیں وہ بھی دل وجاں سے تیار بیٹھے ہیں۔