دل ہی دل میں عہد باندھ رکھا ہے کہ جس موضوع پر دماغ میں جمع ہوئے خیالات کو اس کالم میں برجستہ بیان کرنے کی ہمت نہ ہو اسے زیر بحث لانے ہی سے گریز کیا جائے۔ سیالکوٹ میں سری لنکا سے آئے ایک ہنر مند کا مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل بھی ایسا ہی موضوع ہے۔ میں اس کی مذمت کو بھی آمادہ نہیں۔ ہمارے حاکموں نے مذمتی بیانات جاری کردئیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چھائے ذہن ساز بھی اس کی بابت شرمندگی کا اظہار کرچکے۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ مذمت وشرمندگی کا اظہار کرتے یہ بیانات اور سوشل میڈیا پر لگائی تحریریں ایسے واقعات کو روکنے میں کام آئیں گی یا نہیں۔ جان کی امان پاتے ہوئے اصرار کروں گا کہ ہرگز نہیں۔
شاعر نے کہا تھا کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ وقت اس کی بہت عرصے سے پرورش کررہا ہوتا ہے اور ہمارے ہاں مذکورہ حادثوں کی پرورش کئی دہائیوں سے ہورہی ہے۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کا اس تناظر میں قتل معاملے کو عام انسانوں سے اشرافیہ کی اہم ترین سطح تک لے گیا۔ اس کے بعد پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف پر لاہور کی ایک معتبر دینی درسگاہ میں جوتا اچھالا گیا۔ موصوف کو بے تحاشہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ہمارے معاشرے کا مؤثر حلقہ واجب تذلیل ٹھہراتا ہے۔ ان کا بدترین ناقد بھی مگر تسلیم کرے گا کہ سابق وزیر اعظم کے والدین دین سے محبت کرنے والے تھے۔ اپنی اولاد کو انہوں نے سختی سے شعائر اسلام پر عمل اور ان کے احترام کی تربیت دی تھی۔ احسن اقبال کہنے کو ہمارے طاقت وروزیر داخلہ تھے۔ ان پر مگر گولی چلی۔ ان کے بزرگ بھی دین اسلام سے گہری وابستگی کی شہرت کے حامل تھے اور سیاہی خواجہ آصف پر بھی اچھالی گئی تھی۔ ایسے افراد کے ایمان پر سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں تو سری لنکا سے آئے ہنرمند کو مشتعل ہجوم کے عتاب سے بچاناممکن ہی نہیں تھا۔
بہرحال سیالکوٹ میں ہوئے واقعہ کا وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا ہے۔ وہ ذاتی طورپر اس ضمن میں ہوئی تفتیش کی نگرانی بھی کررہے ہیں۔ سو کے قریب افراد کی گرفتاری کی خبربھی آئی ہے۔ مبینہ ملزمان کے اتنے بڑے ہجوم میں اگرچہ کلیدی مجرمان کی نشان دہی ممکن نظر نہیں آرہی۔ ان کے دفاع پر مامور وکلاء پولیس کی تیارکردہ رپورٹ میں ہزاروں خامیاں ڈھونڈسکتے ہیں۔ بالآخر ہم اس واقعہ کو ویسے بھی بھول جائیں گے۔
ہماری ریاست کو دریں اثناء کوشش فقط یہ کرنا ہوگی کہ غیر ملکی رقوم سے پالے لبرل افراد جنہیں خونی بھی کہا جاتا ہے سیالکوٹ میں ہوئے قتل کو پاکستان کی بدنامی کے لئے اچھالنے کے لئے استعمال نہ کرپائیں۔ مذکورہ قتل کی تشہیر ہماری برآمدات پر توجہ دیتے دھندوں کے لئے غیر مسلم اور غیر ملکی ہنرمندوں کو پاکستان آنے سے روکنے کو مائل کرسکتی ہے۔ مغرب ویسے بھی ہمارا بدترین دشمن ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اس کی مکاریوں کو ہم 22کروڑ پاکستانیوں کی اجتماعی سوچ سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ وہاں کے کئی ملک یورپی یونین نامی تنظیم میں اکٹھے ہوچکے ہیں۔ پاکستان کو اپنے مقابلے میں نسبتاََ غریب ملک تصور کرتے ہوئے یہ ممالک ہماری برآمدات پر تقریباََ نہ ہونے والے ٹیکس لگاتے ہیں۔ مذکورہ قتل کی ضرورت سے زیادہ تشہیر ہمیں ٹیکس کے حوالے سے ملی رعایتوں سے محروم کرسکتی ہے۔ حب الوطنی کا لہٰذا تقاضہ ہے کہ چپ کردڑوٹ جا اور میری سیالکوٹ واقعہ کی بابت دانستہ اپنائی خاموشی اس تقاضے ہی کو ملحوظ خاطر رکھے ہوئے ہے۔
کئی دنوں سے میری فکر مندی ویسے بھی پاکستان کے معاشی حقائق پر مرکوز ہے۔ ہمارے بینکار وزیر خزانہ جناب شوکت ترین صاحب اگرچہ مصر ہیں کہ دیہاتوں میں کئی اجناس کی ریکارڈ بناتی پیداوار کی وجہ سے خوش حالی کے چشمے پھوٹ چکے ہیں۔ دیہاتوں میں آباد پاکستانیوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ وہ بارش کی طرح برسی اضافی رقوم کو کیسے خرچ کریں۔ موٹرسائیکلیں خرید رہے ہیں۔ شہروں میں آباد افراد نئی گاڑیاں خریدنے کو بے چین ہیں۔ مہنگے ریستورانوں میں جائیں تو بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑرہا ہے۔ خوش حالی کے اس موسم میں ریاستِ پاکستان کو بھی خیال آیا کہ میرا حصہ ایتھے رکھ۔ مطلوبہ حصہ کے حصول کے لئے ڈیڑھ سے دو ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کے لئے منی بجٹ تیار ہورہا ہے۔ چند دنوں میں قومی اسمبلی سے منظوری کے لئے پیش کردیا جائے گا۔
برسرزمین حقائق کی بابت قومی اسمبلی کے اوسطاََ ایک لاکھ کے قریب ووٹ لے کر منتخب ہونے والے رکن سے زیادہ باخبر کوئی اور نہیں ہوتا۔ منی بجٹ کی دل وجان سے منظوری دیتے ہوئے سرکاری بنچوں پر بیٹھے اراکین اسمبلی حکومت کے اس دعوے کی تصدیق کردیں گے کہ وطن عزیز میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں صادق وامین ٹھہرائی قیادت کی بصیرت اور نیک نیتی کی بدولت بالآخر خوش حالی آگئی ہے۔ مجھ بدنصیب کو مگر اس خوش حالی کا ادراک نہیں ہورہا جس کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔ تقریباََ تین ہفتے قبل میرے گھر میں پانی کی ترسیل کے لئے نصب ہوئے نظام میں چند خامیا ں نمودار ہوئیں۔ تین دنوں کی تفتیش اور محنت کے بعد ایک ہنرمند نے اسے درست کیا۔ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اس نے جو رقم طلب کی اس سے گماں ہوا کہ شاید پانی کی ترسیل کے لئے کاملاََ نیا نظام نصب ہوا ہے۔ طویل تکرار کے بعد بالآخر 35ہزار روپے پر مک مکا ہوا۔ ہماری جیب میں اتنی رقم بروقت موجود نہیں ہوتی۔ بینکوں نے اے ٹی ایم کارڈ فراہم کررکھے ہیں۔ اے ٹی ایم مشینیں آپ کے گھروں کے قریب ہی واقعہ ہوتی ہیں۔ وہاں پیدل بھی پہنچاجاسکتا ہے۔ مشین تک چلے جائیں۔ ڈیبٹ کارڈ کو اس میں ڈالیں اور مطلوبہ رقم حاصل کرلیں۔
مذکورہ سہولت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں اپنا پلاٹینم کہلاتا ڈیبٹ کارڈ لے کر اے ٹی ایم مشین پر چلاگیا۔ مطلوبہ رقم کا اس میں اندراج کیا تو اس نے فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ زیادہ سے زیادہ 20ہزار روپے نکالے جاسکتے تھے۔ وہ نکلوانے کے بعد اپنی بیوی سے درخواست کی کہ باقی رقم وہ ادا کردے۔ وہ بھی اے ٹی ایم گئی اور کاریگر کو ادائیگی ہوگئی۔
یہ ادائیگی ہوجانے کے بعد میں نے کم ازکم چار مرتبہ 20ہزار سے زیادہ رقم بلاضرورت نکلوانے کا تجربہ کیا۔ ہر بار انکار ہوا۔ حیرانی ہوئی۔ بالآخر بینک چلا گیا۔ وہاں موجود عملے کے ایک شخص نے بتایا کہ پانچ ہزار روپے کے جو نوٹ ہیں ان کی بابت حکومت کو کچھ مسائل کا سامنا ہے۔ اے ٹی ایم مشینوں میں اب ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ ہی ڈالے جارہے ہیں۔ صارفین کی تسلی کے لئے لازمی ہے کہ 20ہزار سے زیادہ رقم یکمشت میسر نہ ہو۔
مطلوبہ رقم کی عدم دستیابی کا جواز جو مجھے بتایا گیا ہر اعتبار سے بودا سنائی دیا۔ وسوسوں بھرے دماغ میں فوراََ لبنان اور افغانستان کے موجودہ حالات یاد آگئے۔ ان دونوں ملکوں میں آپ کے پاس گولڈ یا پلاٹینم ڈیبٹ کارڈ بھی ہو تو اے ٹی ایم سے یکمشت محدود رقم ہی نکلوائی جاسکتی ہے۔ ہمارے بینک ایسا ہی رویہ اختیار کرتے محسوس ہوئے۔ میں اگرخاندانی نظام کی برکتوں سے محروم ہوئے امریکہ یا یورپ کے کسی ملک کا باسی ہوتا تو اپنی ضرورت کی رقم اے ٹی ایم مشینوں سے فراہم نہ ہونے کی بناء پر عدالت وغیرہ چلا جاتا۔ 22کروڑ رعایا کا لاچار فرد ہوتے ہوئے میں ایسے حق سے مگر محروم ہوں۔ صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اپنا پلاٹینم کارڈ دیکھ کر خوش ہوجاتا ہوں۔ اس کی وجہ سے مطلوبہ رقم نہ ملنے کے باوجود شوکت ترین صاحب کے اس دعوے پر اعتبارکو مجبور بھی کہ وطن عزیز میں خوش حالی آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے۔