بدھ کی سہ پہر سے اپنا سر پکڑے بیٹھا ہوں۔ دوستوں اور شناسائوں کی جانب سے واٹس ایپ کی بدولت ایک وڈیو کلپ ملتی رہی۔ لاہور کی نجی شعبے میں چلائی یونیورسٹی سے منسلک رہے ایک پروفیسر اس وڈیو میں کسی تقریب سے خطاب کررہے ہیں۔ موصوف کو مطالعۂ پاکستان کہلاتے مضمون کا ماہر گردانا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس سوال کا جواب مجھ جاہل کے پاس موجود نہیں۔ قیام پاکستان کی وجوہات سمجھنے کو اگرچہ میں نے کئی کتابیں بہت غور سے پڑھ رکھی ہیں۔ اس ضمن میں ہوئی جستجو کے سفر سے گزرتے ہوئے میں نے مذکورہ پروفیسر کا ذکر کبھی نہیں سنا۔
بہرحال موصوف کو اب اس اتھارٹی کا مدارالمہام بھی بنادیا گیا ہے جو وزیر اعظم عمران خان صاحب نے پرخلوص عقیدت ولگن سے قائم کی ہے۔ مقصد اس اتھارٹی کا ہمارے نبی پاکﷺ کی حیات طیبہ کے ان تمام پہلوئوں کو علمی تحقیق کے جدید تر ذرائع استعمال کرتے ہوئے دنیا کے روبرو لانا ہے جنہوں نے انہیں ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کے لئے بھی مجسم رحمت بنادیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تقریر میں لیکن آپﷺکی ذات بابرکت کا ذکر نہیں ہوا۔ پاکستان کی بقاء کو یقینی بنانا غالباََ پروفیسر صاحب کی وائرل ہوئی تقریر کا بنیادی موضوع تھا۔ اس موضوع پر توجہ دیتے ہوئے موصوف نے نہایت اعتماد سے دعویٰ کیا کہ صہیونیت کا ایک عالمی ایجنڈا ہے۔ پاکستان کی تباہی اس کا کلیدی ہدف ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لئے سندھو دیش کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ پختون قوم پرستی کے جذبات اکسانے کے لئے پی ٹی ایم نامی تنظیم بھی کھڑی کردی گئی ہے۔
پاکستان کولسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے والی سازشوں کا ذکر میں 1960ء کی دہائی سے سنتا چلا آرہا ہوں۔ سکول کا طالبعلم تھا تو پاکستان مغربی اور مشرقی حصوں پر مشتمل تھا۔ ہمارے گھر آنے والے اخبارات اور رسائل اگرچہ تسلسل سے مجھے بتاتے رہے کہ پاکستان کے ازلی دشمنوں نے مشرقی پاکستان میں شعبہ تعلیم کو اپنا یرغمال بنالیا ہے۔ وہاں پر چھائے اساتذہ کمال ہوشیاری سے معصوم ذہنوں کو نظریہ پاکستان کے بنیادی اصولوں پر سوال اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ 1971ء کے دسمبر میں ہوئے سقوط ڈھاکہ کو اس سازش کا منطقی نتیجہ بتایا گیا۔
مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں بدل گیا تو ہمیں یہ فکر لاحق ہوگئی کہ بقیہ پاکستان کو نسلی اور لسانی تفریق سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ اس ضمن میں سندھودیش نامی تحریک کا ذکر تو ہوا مگر بھرپور توجہ نیشنل عوامی پارٹی نامی سیاسی جماعت کو تباہ کرنے پر مرکوز رکھی گئی۔ یہ پختون اور بلوچ قوم پرستوں کی نمائندہ جماعت تھی۔ اس جماعت نے 1973ء کے آئین کو متفقہ طورپر منظور کروانے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ ان کی حب الوطنی اس کے باوجود مشکوک گردانی گئی۔ بالآخر اس جماعت کو سپریم کورٹ کے ہاتھوں کالعدم ٹھہرادیا گیا۔ حیدر آباد کی جیل میں اس کے ولی خان اور غوث بخش بزنجو جیسے رہ نما ئوں پر غداری کے مقدمات بھی چلائے گئے۔
ابھی ان مقدمات کا حتمی نتیجہ برآمد ہی نہیں ہوا تھا کہ جنرل ضیاء نے 1977ء میں مارشل لاء لگادیا۔ وہ اسلام اور نظریہ پاکستان کے کٹر محافظ شمار ہوتے تھے۔ اس شہرت کے باوجود انہو ں نے ولی خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف درج ہوئے مقدمات ختم کردئیے۔ ان کے ساتھ دوستانہ ملاقاتیں بھی کرتے رہے۔ سندھودیش کے پیغامبر شمار ہوتے جی ایم سید کو بھی وہ تواتر سے پھولوں کے گلدستے بھجواتے رہے۔ مجھ جیسے سادہ لوح پاکستانی کبھی سمجھ ہی نہ پائے کہ مبینہ غداروں کے ایسے نخرے کیوں اٹھائے جارہے ہیں۔ ہمیں اگرچہ یہ سمجھانے کی کوشش ہوتی رہی کہ جنرل ضیاء الحق کے مشفقانہ رویے نے پشتون اور بلوچ قوم پرستی کے جذبات کا خاتمہ کردیا ہے۔ سندھودیش کے خواب بھی ان کی وجہ سے چکنا چور ہوگئے ہیں۔
عمران خان صاحب کی جانب سے ایک اہم اتھارٹی میں تعینات ہوئے پروفیسر صاحب کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ان کے مربی کی بنائی جماعت یعنی تحریک انصاف 2013ء سے ماضی میں سرحد اور اب خیبرپختونخواہ کہلاتے صوبے میں مسلسل برسراقتدار ہے۔ ہمارے وزیر اعظم طالبان کی کابل میں فاتحانہ واپسی کی بابت بھی بہت شاداں محسوس کررہے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے صہیونیت کم از کم پشتون علاقوں میں تو پاکستان دشمن جذبات پھیلا نہیں سکتی۔ بلوچستان میں بھی ان کی جماعت باپ نامی جماعت کے ساتھ مل کر نیا پاکستان تشکیل دے رہی ہے۔
پاکستان کی بقاء کے بارے میں انتہائی فکر مند نظر آتے پروفیسر صاحب ایسے ٹھوس اور مثبت حقائق کے بارے میں لاعلم نظر آئے۔ سندھودیش اور پشتون قوم پرستی کا ذکر تو ویسے بھی مجھ جیسے لوگ بچپن سے سن رہے تھے۔ پروفیسر صاحب کی نگاہ دوربین نے مگر جنوبی پنجاب میں بھی علیحدگی پسندی کے رحجانات دریافت کرلئے ہیں۔
1975ء سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بطور رپورٹر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہوں۔ اس کی بدولت سرائیکی شناخت کو اجاگر کرنے والی تحریک کے بارے میں بھی باخبر ہوں۔ میری دانست میں اس کا بنیادی مقصد محض لسانی اور ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنا ہے۔ سیاسی اعتبار سے اگرچہ یہ مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ سرائیکی بولنے والوں کی اکثریت رکھنے والے جنوبی پنجاب کے علاقوں کو الگ صوبہ بنادیا جائے۔ بنیادی طورپر یہ ریاستی انتظام سے جڑا معاملہ ہے۔ تخت لہور کی بالادستی سے پریشان۔ پاکستان سے علیحدہ ہوکر سرائیکستان نامی ملک بنانے کی تحریک کم از کم مجھے تو کبھی نظر نہیں آئی۔
جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے والا مطالبہ اگرچہ وقتاََ فوقتاََ بہت شدت سے ابھرتا ہے۔ آخری بار یہ مطالبہ مخدوم خسروبختیار نے 2018ء کے انتخاب کے قریب بہت شدومد سے اٹھایا تھا۔ جنوبی پنجاب صوبے کے لئے تحریک چلانے ہی والے تھے تو عمران خان صاحب نے ان سے رابطہ کیا اور خسروبختیار اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تنظیم کو فی الفور تحریک انصاف میں مدغم کردیا۔ اب وہ عمران حکومت کے طاقت ور وزیروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی پنجاب کی اہم ترین وزارت کے منصب پر براجمان ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدار صاحب کا تعلق بھی سرائیکی علاقے سے ہے۔ ان کے علاوہ وفاقی حکومت کے اہم ترین وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تو خاندانی اور روحانی اعتبار سے سرائیکی وسیب کی علامت شمار ہوتے ہیں۔
ایسے قدآور لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی لیکن لاہور کی نجی یونیورسٹی میں مطالعہ پاکستان پڑھاتے پروفیسر صاحب سرائیکی شناخت سے محبت کو پاکستان توڑنے کی سازش ٹھہرارہے ہیں۔ ان کی فکر مندی دیکھتے ہوئے امید باندھ رہا ہوں کہ عمران خان صاحب وفاقی اور پنجاب حکومت میں شامل سرائیکی علاقوں سے آئے اپنے تمام وزراء کی مذکورہ پروفیسر صاحب سے ملاقات کروائیں گے۔ فقط یہ پروفیسر صاحب ہی عثمان بزدار، شاہ محمود قریشی اور مخدوم خسرو بختیار جیسے سرائیکیوں کو سمجھاسکتے ہیں کہ ان کے زیر اثر علاقوں میں پاکستان سے علیحدگی کے جذبات کیسے پھیل رہے ہیں۔ شاید ان کے دئیے لیکچر کے بعد مذکورہ صاحبان اقتدار وجاہ وجلال بیدار ہوکر پاکستان کی بقاء کو یقینی بنانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے کو آمادہ ہوجائیں۔